ابّا ہیڈ ماسٹر ہو تب بھی بیٹا کچی پہلی سے میٹرک تک ہر سال سفارش سے پاس نہیں ہو سکتا۔
بالکل اسی طرح ابّا جرنیل ہو تب بھی کوئی آئی ایس ایس بی‘ فائنل سلیکشن بورڈ اور پی ایم اے شارٹ یا لانگ کورس پاس کیے بغیر سیکنڈ لفٹین نہیں بن سکتا۔ اور ابا اگر بیوروکریسی کا وفاقی سیکرٹری ہو تب بھی بیٹا میٹرک پاس کیے بغیر نائب قاصد تک بھرتی نہیں ہو سکتا۔ چیف جسٹس بننے کے لیے پہلی شرط تعلیم کی یہی سیڑھی چڑھنا ضروری ہے وہ بھی بیساکھیوں کے بغیر۔
شغلیہ طرزِ حکمرانی کے معیار مگر دوسرے ہیں۔ بیٹا اگر عمر بھر کچھ نہ کرے بلکہ باپ کا جمع کیا کالا دھن لیٹ کر کھائے پیئے تو بھی کم از کم ارب پتی ضرور بن سکتا ہے۔ اور بیٹی بی اے کرنے سے پہلے لیڈر بن جائے جبکہ داماد کچھ نہ کرے تو بھی کم از کم ایم این اے اور زیادہ سے زیادہ صدر بن سکتا ہے۔ ہاں البتہ بہو کی بات دوسری ہے۔ چاہے وہ کوئین آف انگلینڈ کی بہو لیڈی ڈیانا سپنسر ہو یا اندرا گاندھی کی بہو مانیکا گاندھی‘ ہر دو صورتوں میں ساس ساس ہوتی ہے۔ ساس بے شک بھارت کی وزیر اعظم ہو یا برطانیہ کی ملکہ، بہو بیچاری بہو ہی رہتی ہے‘ خواہ وہ سنجے گاندھی کی بیوہ ہو یا تاجِ برطانیہ کے وارث کی بیوی اور دو شہزادوں ہیری اور ولیم کی مدر۔
ان دنوں مستقل نااہل شریف کی طاقت بنگالی بابے، بٹ عامل، لانگری بٹالین اور عزت افزائی کے مودی برانڈ نسخے ہیں‘ جن میں سب سے بڑھ کر جادو شکن انصاف آپ کے قدموں میں لانے اور ووٹروں سے عزت چھین لینے کا نسخہ ہے۔ دو کلو گالیاں روزانہ والا۔ ساتھ ہی نظریہ پاکستان کے تحفظ کے لیے قبلہ بڑے مولانا صاحب، چادر پوش جی اور وڈا خان۔ گم شدہ لشکریوں کی تلاش میں گمشدگی کی تحریک چلانے والا افغانستان خان۔ اسی طرح عدل کی بحالی کے لیے بھی مستقل نااہل شریف نے جمال گھوٹا برانڈ نسخے ایجاد کر لیے ہیں۔ پنجاب کے دیہی علاقوں میں ووٹروں کی ولیمے والی روٹی سے ناراض پنڈ کا چوہدری صاحب ہمیشہ جمال گھوٹا ڈال کر ووٹ کو عزت دیتا ہے۔ اس لیے جمال گھوٹا ملی بوٹی کے اندر جاتے ہی جمہوریت کے خلاف کام کرنے والے اندرونی ہاتھ پھڑک کر باہر نکل آتے ہیں۔ کالج کے زمانے میں ایک دوست کی دعوت پر اسلام آباد کالج فار مین کے ہاسٹل سے قافلہ نکلا۔ مندرہ روڈ پر چکوال کی طرف مڑے تو کھیت کے کھیت باراتیوں کی اجتماعی رفعِ حاجت سے بھرے ہوئے نظر آئے۔ تب ہمیں پہلی بار پتا چلا کہ کس کمال کا نسخہ جمال گھوٹا ہے۔
یہ کمال جمال گھوٹے کا ہے یا کسی صاحبِ خیال کا۔ وہی جو مستقل نا اہل شریف کی بے مثال چٹیں تیار کرتا ہے۔ موصوف پہلی دفعہ احتساب کے قومی ادارے پر مر مٹ گئے۔ ورنہ کیوں نکالا کی گردان سے ہلکان یہ صاحبِ وجدان، واجد ضیاء کی تفتیش سے مستقل طور پر ہذیان کا شکار رہا۔ چنانچہ اسی ادارے کے سامنے جناب نے طوفان کا سوال اٹھایا ہے۔ سوال یہ ہے: پتا لگائیں چیف جسٹس کیسے بنتا ہے؟ اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ چیف جسٹس بننے کے لیے بی اے کے بعد ایل ایل بی بھی کرنا پڑتا ہے۔ آپس کی بات ہے ایل ایل بی کرنے والے بے شمار لوگ بوٹ ہائوس، دودھ دہی شاپ بلکہ اسمبلی تک چلا لیتے ہیں۔ لیکن بے چارے صرف ایک چیز نہیں چلا سکتے اور وہ ہے ان کی اپنی وکالت۔ ایک سال کسی سینئر وکیل کی شاگردی کے بعد بار کونسل کچہری میں وکالت کرنے کا لائسنس جاری کرتی ہے۔ اس کے مزید دو سال بعد ہائی کورٹ۔ پانچ سال بعد فیڈرل شریعت کورٹ اور پھر مزید دس سال کا (2017ء کے بعد سات سال) عرصہ گزار کر کوئی سپریم کورٹ کا وکیل بنتا ہے ۔ ویسے فرینکلی‘ بڑے بڑے لائق وکیل پوری زندگی کچہری میں گزار دیتے ہیں ۔ ان سے بھی زیادہ کئی ذہین و فطین وکیل ہائی کورٹ سے آگے وکالت نہیں کر پاتے۔ اس کے علاوہ ملک کے پانچوں ہائی کورٹس میں اَن گنت وکیل حضرات وہ ہیں جن کو کبھی ہائی کورٹ فٹنس سرٹیفکیٹ جاری نہیں کرتا۔ اور ایسے بھی ہیں جنہیں ہائی کورٹ سے فٹنس سرٹیفکیٹ تو مل جاتا ہے لیکن سپریم کورٹ انرولمنٹ کمیٹی میں جا کر وہ فیل ہونے کا ہیٹ ٹرک تک بنا لیتے ہیں ۔ اس کے بعد وہ درجہ آتا ہے جو وکالت کی معراج ہے۔ برطانیہ میں ایسے وکیل کو (QUEENS COUNSEL) ملکہ ٔ برطانیہ کا وکیل ''کیو سی‘‘ کہا جاتا ہے ۔ ہماری عدالتِ عظمیٰ میں اس اعزاز کو سینئر ایڈووکیٹ (Sr.A.S.C) کا نام دیا گیا ہے ۔ کوئی وکیل ٹی وی کے ٹِکر سے سینئر وکیل نہیں بن سکتا ۔ اس کے لیے سپریم کورٹ میں ایک علیحدہ رول ہے ۔ ملک کی آخری عدالت کے سارے فاضل جج صاحبان اور چیف جسٹس صاحب یہ اعزاز عطا کرتے ہیں ۔ اگر کوئی ایک فاضل جج بھی بلیک بال ڈال دے تو متعلقہ وکیل سینئر وکیل نہیں بنے گا۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر سینئر وکیل جج بن جائے۔ جج پہلے ایڈہاک لگایا جاتا ہے‘ پھر مستقل ۔ پھر کوئی نصیبوں والا ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنے گا۔ پھر 18ویں ترمیم میں درج ہے کہ سینئر جج اپنی باری اور سنیارٹی کے میرٹ پر سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنے گا۔ اس کی تقرری پہلے جوڈیشل کمیشن سے سفارش حاصل کر ے گی ۔ پھر سینیٹ اور قومی اسمبلی کی ججز تعیناتی کمیٹی اسے منظور کرے گی ۔ پھر وزیرِ اعظم سمری بھیجے گا اور تب جا کر صدر مملکت اسے جج بنائے گا۔ مستقل نا اہل شریف صاحب اپنے علاوہ ہر شخص کے لیے ترقی کا راستہ روکنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ ان کا بس چلے تو تھانہ ٹِبی کے محرر سے لے کر آرمی چیف بلکہ چیف جسٹس تک کو ہائوس آف شریف کے ماتحت کر ڈالے ۔ ان بے تُکی اور بے لگام خواہشوں کو شہزاد قیس نے حقیقت کا آئینہ دکھایا ہے۔ آپ سے شیئر کرتا ہوں:
اَبر کے چاروں طرف باڑ لگا دی جائے
مفت بارِش میں نہانے پہ سزا دی جائے
سانس لینے کا بھی تاوان کیا جائے وصول
سبسڈِی دھوپ پہ کچھ اور گھٹا دی جائے
رُوح گر ہے تو اُسے بیچا، خریدا جائے
ورنہ گودام سے یہ جنس ہٹا دی جائے
قہقہہ جو بھی لگائے اسے بل بھیجیں گے
پیار سے دیکھنے پہ پرچی تھما دی جائے
تجزیہ کر کے بتائو کہ منافع کیا ہے
بوندا باندی کی اگر بولی چڑھا دی جائے
آئینہ دیکھنے پہ دُگنا کرایہ ہو گا
بات یہ پہلے، مسافر کو بتا دی جائے
تتلیوں کا جو تعاقب کرے، چالان بھرے
زُلف میں پھول سجانے پہ سزا دی جائے
یہ اگر پیشہ ہے تو اس میں رِعایت کیوں ہو
بھیک لینے پہ بھی اَب چنگی لگا دی جائے
کون اِنسان ہے کھاتوں سے معلوم کرو
بے لگانوں کی بستی ہی جلا دی جائے
حاکمِ وَقت سے قزاقوں نے سیکھا ہو گا
باج نہ ملتا ہو تو گو لی چلا دی جائے
کچی مِٹّی کی مہک مفت طلب کرتا ہے
قیس کو دَشت کی تصویر دِکھا دی جائے
پسِ نوشت: بے لگام خواہشوں کا دوسرا غلام بھی شرم کی ٹرالی سے ٹکرا کر حیا کے ٹریکٹر سے نیچے گرِ پڑا۔ تا حیات نا اہل نمبر دو...!!