36 سالہ اقتدار کی حکومتی بد اعمالیوں اور فنانشل بے اعتدالیوں کے پہلے احتساب کا عمل روکنے میں مسلسل ناکامی ۔ پٹواری جلسوں کی بڑھتی ہوئی جہلمی اور ملتانی بے مرامی کے نتیجے میں شریف خاندان کا ٹنوں کے حساب سے غصہ اپنی جگہ ۔ مگر بنیادی سوال درست ہے ۔ کیا نواز شریف دور میں پاکستان سے 4.9 ارب ڈالر ہندوستان ٹرانسفر ہوئے یا نہیں۔ ملاحظہ ہو:world bank migration and remittance fact book third edition‘ جو ماہ ستمبر سال 2016ء میں ورلڈ بینک کے ڈائریکٹر ڈویلپمنٹ انڈیکیٹرز گروپ آگسٹو لویاز کلارز کی طرف سے جاری ہوئی۔ اگر یہ رپورٹ غلط ہے تو حکومتِ پاکستان نے ورلڈ بینک اور گروپ کے ڈائریکٹر ڈویلپمنٹ انڈیکٹرز گروپ آگسٹو لویاز کلارز کے خلاف کیا قانونی کارروائی کی۔ کارروائی چھوڑئیے ووٹ کو عزت دو گروپ نے کبھی برائے نام احتجاج تک بھی کیا؟
شریف طرزِ حکومت ایسا ہے جس نے کراچی میں امن قائم ہوا تو فوراً کہا: فوج ، رینجر اور پولیس نے نہیں یہ امن نواز شریف نے بحال کیا ۔ پنجاب کے قبرستان کی زمین سرکاری لیکن اشتہار پر فوٹو شہباز شریف کی ۔ ورلڈ بینک ، آئی ایم ایف ، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور اندونِ ملک کمرشل بینکوں کے بے پناہ قرضے سے سڑک بنی، پارک تعمیر ہوا‘ سکول کُھلا، جاری ہسپتال میں ٹراما سینڑ بنا کریڈٹ کہیں نواز شریف‘ کہیں شہباز شریف کے لیے اور نام شریف سینٹر۔
اگر کوئی شخص یا خاندان اپنے باپ کی کمائی سے یا اپنی جیب سے خیراتی ادارہ تعمیر کرے تب تو اپنا نام لکھنا بنتا ہے ۔ یہاں فنڈ سرکار کا‘ نام دربار کا ۔ ساتھ ساتھ جلسوں میں اعلان کہ ہم نے لاہور کو درست کر دیا ۔ کراچی، پشاور، کوئٹہ، مظفر آباد، وانا، گلگت اور اسلام آباد بقول شریفوں کے برباد ہو گئے ، پیچھے رہ گئے۔ وزیرِ اعظم لاہوری پروجیکٹس کا کریڈٹ لیتا ہے ۔ لیکن باقی شہروں میں اپنی ہی حکومت کی ناکامی پر مخالفوں کو طعنے ، کوسنے ، الزام ، دُشنام ، اتہام بلکہ مغلظات اور ہاتھوں کے اشارے بھی کرتا ہے۔ چلئے باقی چھوڑ دیتے ہیں۔
ایک اور پہلو دیکھئے۔ کیا 4.9 ارب ڈالر نواز دور میں پاکستان سے بھارت ٹرانسفر نہیں ہوئے ۔ اس کا جواب احتساب عدالت میں کورٹ رپورٹروں کے سوالوں کی طرح تا حیات نااہل نے گول کر دیا۔ تو کیا پھر 4.9 ارب ڈالر بھارت جانے کا سوال واہگہ بارڈر پر کھڑے رینجرز کے سپاہیوں سے پوچھا جائے ۔ ملک کے اس چیف ایگزیکٹو سے نہیں جو طہارت گاہ بنوا کر بھی اوپر اپنی تصویر لگواتا ہے۔ ہر چیز کا کریڈٹ لینے سے نہ جھجکتا ہے اور نہ ہی شرماتا ہے۔
اب آئیے جسٹس جاوید اقبال کی طرف ۔ پہلے ایک ذاتی تجربہ سن لیں ، جس میں اخلاقی سبق بھی موجود ہے ۔ تب جسٹس جاوید اقبال سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ججوں میں شمار ہوتے تھے۔ ایک دن کورٹ روم نمبر تین میں وہ فُل بینچ کی صدارت کر رہے تھے ۔ میں ایک فریق کا وکیل جب کہ میرے مدِ مقابل اشتر اوصاف علی ( موجودہ اٹارنی جنرل آف پاکستان ) تھے ۔ میں اپنے دلائل دے کر ہمیشہ اپنی سیٹ پر بیٹھ جاتا ہوں تا کہ فریقِ مخالف کے وکلا جوابی دلائل کے لیے روسٹرم پر آزاد ہوں ۔ اس دن بھی میں دلائل دے کر کورٹ روم کی دائیں جانب اپنی نشست پر جا بیٹھا ۔ اچانک ایک زور دار دھماکے سے عدالت گونج اُٹھی ۔ برادرم اشتر اوصاف زمیں پر جا گرے۔
میں دوڑا اور اشتر اوصاف صاحب کی ٹائی کھولی ، جونیئر وکلا کی مدد سے اُن کا کوٹ اتارا ۔ پھر میں نے اُن کا ایک جوتا اتارا اور جراب اتارنے لگا تو اچانک ایک اور شخص اشتر اوصاف صاحب کا دوسرا جوتا اور جراب اتارنے میں مدد کرنے لگ گیا۔ یہ شخص تھا جسٹس جاوید اقبال‘ جس نے اپنا گائون اتار کر کرسی پر رکھا‘ خود سیدھا عدالت میں نیچے اُترا اور ایک عام درد مند شہری کی طرح اپنی عدالت میں قیمتی انسانی جان کو بچانے میں جُت گیا۔ ( اس واقعہ کی پوری تفصیل میری زیرِ ترتیب کتاب 'ایک وکالت کئی کہانیاں‘ کا حصہ ہے ) باقی دو فاضل جج صاحبان شانِ بے نیازی سے کرسی چھوڑ کر اُٹھے اور کورٹ روم سے اپنے اپنے چیمبرز میں تشریف لے گئے۔
اب آئیے تا حیات نااہل شریف کے مطالبے کی طرف۔ اس مطالبے کے الفاظ واضح طور پر حُکمیہ یعنی '' directive‘‘ کی شکل میں چنے گئے‘ جو یہ ہیں ''میں مطالبہ کرتا ہوں چیئرمین نیب قوم سے معافی مانگ کر 24 گھنٹوں میں مستعفی ہو جائیں‘‘۔ آپ نے غور فرمایا، مطالبہ کرنے والا وہی شخص ہے جس نے یوسف رضا گیلانی کی سزا پر بالکل انہی لفظوں میں اس وقت کے وزیر اعظم سے یہی مطالبہ کیا تھا ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ پانامہ لیکس کے فیصلے کے بعد ساری اپوزیشن نے نواز شریف سے بھی ایسا ہی مطالبہ کر دیا‘ کہ وہ کرپشن پر قوم سے معافی مانگ کر 24 گھنٹوں میں وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہو جائیں۔ کیا نواز شریف نے استعفیٰ دیا تھا؟
دنیا کی آخری سچائی میں مالکِ ارض و سما نے فرمایا:
لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفعلُون۔
ترجمہ: وہ کیوں کہتے ہو جو تم خود نہیں کرتے۔
احتساب کے قومی ادارے نے نا اہل شریف کو جو نوٹس جاری کیا وہ ہر لحاظ سے قانونی ہے مثلاً‘ یہ صرف نوٹس انکوائری ہے‘ کوئی موت کا پروانہ نہیں کہ جس میں حتمی فیصلہ شامل ہو ۔ ایسے نوٹس احتساب آرڈیننس مجریہ 1999ء کے تحت تین طرح کے لوگوں کو بھجوائے جاتے ہیں ۔ پہلے وہ جن کے پاس کوئی کاغذات یا ثبوت ہوں ۔ دوسرے وہ جن سے انکوائری کے دوران زبانی معلومات لینا مقصود ہو ۔ تیسری کیٹیگری ملزموں کی ہے ‘ جو براہِ راست یا بالواسطہ کسی جرم میں ملوث ہو سکتے ہوں ۔ اس بابت ارسلان افتخار چوہدری کے مقدمے میں جسٹس جواد ایس خواجہ نے نوٹس جاری کرنے کے اصول واضع کیے ‘ جن کی بنیاد پر نوٹس جاری کرنے کے عمل کو قانونی قرار دیا۔ اب اگر تا حیات نااہل نواز صاحب ان رقوم کے بارے میں اپنی پوزیشن واضع کرنا چاہیں تو اس کا فورم پریس کانفرنس اور جلسے نہیں بلکہ تفتیشی ایجنسی ہی ہے ۔ دوسرے یہ کہ سال 2016/17ء میں متعدد صحافی اور ٹی وی اینکرز بھارت کو بھاری رقم کی تفصیل پر گفتگو کر چکے ہیں ۔ پھر اعتراض کس بات پر ہے۔
اس حوالے سے ایک اور سوال وہ ہے جس پر نا اہل نواز ہمیشہ لا جواب ہی رہیں گے ۔ یہ کہ جسٹس جاوید اقبال کا اس عہدے کے لیے انتخاب نواز لیگ نے کیا تھا‘ وہ درخواست دے کر بھرتی ہونے نہیں آئے۔
مجیب الرحمن ثانی یہ بھی بتائے: کیا ممبئی حملے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے کا بیان بھارتی صحافیوں سے طے شدہ انٹرویو میں شیڈولڈ نہ تھا۔ کیا یہ قومی اداروں کی بر وقت مداخلت پر پچھلے ہفتے کینسل نہ ہوا۔
کیا نواز حکومت نے ڈان لیکس کے مرکزی کردار رپورٹرر کو ملتان ایئر پورٹ پر تحریری سکیورٹی کلیئرنس دے کر نہ بلوایا؟
شاباش دینی پڑے گی اس پا کستانی کو چاہے وہ شیر ہو یا کچھ اور‘ جو احتراماً کلبھوشن کا نام نہیں لیتا۔ کیا وہ بتائے گا کہ شوگر ملز کے ہندوستانی ملازموں میں سے کسی کا نام قصاب تھا؟ جب یہ وکالت نامہ آپ پڑھیں گے تب بھارت میں نواز شریف کے بھارت نواز بیان پر جشن کا تیسرا دن ہو گا۔ دستیاب معلومات پر تفصیل پھر آپ کے سامنے رکھوں گا۔ فی الحال اتنا کہنا کافی سمجھتا ہوں:
یہ دھرتی تو ماں ہے
تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہئے