فلم یا ڈرامے میں ایک ہی اداکار کو ہیرو اور ولن دونوں کا رول مل جائے تو اسے ڈبل رول کہتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں ایسا اداکار حلیہ بدل کر خود ہی ظالم اور مظلوم یا حاکم اور محکوم کا کردار ادا کرتا ہے۔ پوٹھوہاری زبان کے ایک محاورے میں اس پالیسی کو ''دو پیری‘‘ کہتے ہیں۔ دراصل یہ کبڈی کی تین مقامی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔ پہلی قسم کو سانس والی فری لانس کبڈی، دوسری کو جپھا اور قینچی مارنے والی جپھل کبڈی جبکہ تیسری قسم کی کبڈی کو ''دو پیری‘‘ کہتے ہیں‘ جس میں وارا دینے کے لیے مخالف ٹیم کے علاقے میں جانے والا کھلاڑی پکڑے جانے سے بچ کر واپس بھاگنے کی بجائے اُلٹے پیروں یعنی ریورس دوڑنا شروع کر کے پکڑنے والے کھلاڑی پر تھپڑوں کی بارش کر دیتا ہے۔
جسٹس جاوید اقبال نے احتساب کے شکنجے میں آئے ہوئے ڈبل برادران کے حملوں کے جواب میں ڈبل شاہ کا استعارہ استعمال کیا۔ ڈبل شاہ جدید پنجاب کا ترقی یافتہ نوسر باز تھا‘ جو غریب لوگوں کے پیسے کو اَن دیکھی ترقی کا فارمولا لگا کر ڈبل کرتا۔ پھر ترقی کے خو اہش مندوں کو لوٹ کر بھکاری بنا دیتا۔ پنجاب میں شریف برادران ہمیشہ سے دو پیری سیاست کھیلتے چلے آئے ہیں‘ جس کا طریقہ واردات بڑا آسان ہے ۔ قدیم لندن کے ایک رپورٹ شدہ مقدمے میں اس دو پیری کو (BLAME THE VICTIM) یعنی مظلوم پر الزام لگا دو‘ کی دفاعی پالیسی کا نام دیا گیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے پانامہ کیس میں ملزموں کے لیے درست طور پر سسلین مافیا کی مثال دی گئی۔
آگے بڑھنے سے پہلے آئیے پنجاب کی سیاست کے ڈبل شاہ دو پیری کرداروں کو مبارک باد وصول کرتے دیکھیں۔ یہ مبارک باد ابھی اگلے روز واشنگٹن سے ڈبل شاہ کے نام آئی ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کی سینئر ترجمان خاتون ڈینا وائٹ نے نواز شریف کے بھارت نواز بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان کو ان لفظوں میں مخاطب کیا ''پاکستان ایک ہی وقت میں دہشتگردی سے متاثرہ ملک اور دہشتگردی کا سپانسر بھی ہے‘‘۔
اس شاباش کے تناظر میں شہرِ اقتدار کے اندر امریکی لابی کی سرگرمیاں اس ہفتے عروج پر ہیں‘ جس کا سنگل پوائنٹ ایجنڈا یو ایس اے کی انتہائی پسندیدہ پاکستان کی لیڈی ایمبیسیڈر (سفیر) کو عبوری وزیرِ اعظم بنوانا ہے تا کہ ہمارے آئندہ جنرل الیکشن میں امریکہ کو فیصلہ کن کردار ادا کرنے کا موقع مل سکے۔ دوسرا نام ڈاکٹر عشرت حسین کا ہے ۔ تیسرا ایک سابق وزیرِ اعظم کے کزن کا ۔ چئیرمین سینیٹ کے حالیہ الیکشن سے پہلے میں نے براہِ راست معلومات کی بنیاد پر کہا تھا کہ اس عہدے کی ہُما ''ڈارک ہارس‘‘ کے سر پر بیٹھ سکتی ہے۔ آج مزید کچھ نہیں کہنا چاہتا۔
اب آئیے نواز شریف کے منہ سے اعلامیہ بن کر نکلنے والے امریکہ اور بھارت کے مشترکہ بیانیہ کی طرف‘ جس نے ہند سے سات سمندر پار تک وطنِ عزیز کے خلاف الزامات کا اودھم مچا دیا ہے‘ جس کا نا کام دفاع شہباز شریف نے بھارتی پراپیگنڈہ کہہ کر کیا۔ سیاست کے ڈبل شاہ چوری کا مال بچانے اور سینہ زوری کی وارداتیں چھپانے کے لیے یہ ڈائیلاگ بول رہے ہیں۔
چھوٹا: پُل، میٹرو، اورنج نواز شریف کی وجہ سے ہیں۔
بڑا: سڑکوں پر پیدا ہونے والے بچے خفیہ ہاتھ کی وجہ سے۔
چھوٹا: کراچی کا امن نواز شریف کی وجہ سے ہے۔
بڑا: بلوچستان میں بدامنی وردی کی وجہ سے ہے۔
چھوٹا: تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی نواز شریف کے وژن کا نتیجہ ہے۔
بڑا: اندرونی اور بیرونی قرضے دُگنا، تگنا ہو گئے یہ سب خلائی مخلوق کی کارروائی ہے۔
چھوٹا: پاکستان کا ایٹم بم نواز شریف نے اپنے ہاتھوں سے بنایا۔
بڑا: بھارت کی سرحد پر کشیدگی فوج کی وجہ سے چل رہی ہے۔
چھوٹا: اچکزئی، متحدہ اور مولانا نواز شریف کے ساتھ ہیں، یہ جمہوریت کا حسن ہے۔
بڑا: یہ جو لوگ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں، یہ سب خاکی اسٹیبلشمنٹ کی کارروائی ہے۔
چھوٹا: جو ووٹ نواز شریف کو ملا، وہ جمہوریت کی عزت کا ثبوت ہے۔
بڑا: جو ووٹ پی ٹی آئی کو ملے گا، اس کی وجہ غلیل والے ہیں۔
چھوٹا: سی پیک نواز شریف کی وجہ سے چل رہا ہے۔
بڑا: جو سرمایہ ملک سے باہر جا رہا ہے اس کی ذمہ دار خلائی مخلوق ہے۔
چھوٹا: مشرف کی آدھی کابینہ مشرف کے ساتھ ہے، یہ موٹر وے کی کامیابی ہے۔
بڑا: جو چند شر پسند عمران کے ساتھ چلے گئے یہ خفیہ والوں کی ہارس ٹریڈنگ کا نتیجہ ہے۔
نواز شہباز یا پھر نون لیگ، شین لیگ کا بیانیہ کیا ہے؟
بڑے بھائی نے اپنی مادرِ وطن پر دہشتگردی ایکسپورٹ کرنے کا الزام لگایا۔ چھوٹا بھائی کہنے لگا: یہ سارا بھارت کے میڈیا کا پروپگنڈہ ہے۔ ساتھ ٹوڈی بولا، جی ہاں الزام غلط ہے۔ اگلے دن احتساب عدالت میں اُس سے اگلے دن جلسے میں‘ پھر پارٹی کے اندر نواز شریف نے کہا: جو الزام میں نے لگایا جو کچھ کہا وہ ٹھیک کہا، ابھی اور بھی راز کھولوں گا۔ مریم نواز نے نہ صرف نواز شریف کے بیان کی تائید کی بلکہ ساتھ فرمایا: ڈان لیکس پر نکالے گئے لوگوں سے زیادتی ہوئی ہے۔ اگرچہ یہ زیادتی نواز شریف دور میں ہوئی ہے پھر بھی کہنے میں حرج ہی کیا ہے۔ اس پر شہباز نے پینترا بدل کر کہا: جس نے سرل المیڈا والا انٹرویو کروایا وہ ہمارا دشمن ہے‘ تو پھر رپورٹر کو خصوصی جہاز دے کر اسلام آباد سے ملتان کس نے بلوایا۔ وہ دشمن تو آن ریکارڈ ہے۔ ملتان پہنچ کر اُسے تحریری طور پرVVIP پروٹوکول جس محکمے اور وزارت نے دیا وہ بھی آن ریکارڈ ہے‘ بلکہ آن ڈیوٹی اہلکاروں کے نام بھی عام ہیں۔ پھر رپورٹر کی پلیٹ میں بوٹیاں ڈالنے کی فوٹیج بھی آن ریکارڈ ہے۔ اور وہ فوٹو بھی آن ریکاڈ ہے جس میں چھوٹا نون کے نواز کو نفی کر کے امیدواروں کے پینافلیکس پر تخت کے ارد گرد ایستادہ کھمبوں پر لٹکتا نظر آتا ہے۔ سیاست کے ڈبل شاہ بے چارے اس افراتفری کی وجہ فوج کو قرار دے رہے ہیں۔ چاہتے ہیں ہتھ کڑی سے پہلے کوئی انہیں رتبۂ شہادت کی سیاست پر فائز کر دے۔ جب یہ وکالت نامہ آپ کے پاس پہنچے گا تب احتساب کی ٹرائل کورٹ 127 سوالوں کے جواب مانگ رہی ہو گی۔ یہ دراصل واقعاتی شہادت کی 127 کڑیاں ہیں‘ جن کے بارے میں فوجداری قانون کا آفاقی اصول یہ ہے۔
(chain of circumstantial evidance from crime scene to neck of culprit) عام آدمی کے مقدمے میں ملزم کو کٹہرے میں کھڑا کر کے جج براہِ راست سوال کرتا ہے۔ ملزم کو جواب خود دینا پڑ تے ہیں۔ یہاں کرائم سین سے مُلزم کی گردن تک سارے واقعاتی ثبوت دراصل ایک ہی سوال ہے۔ یہی کہ ''پیسے کہاں سے کما کر کس روٹ سے لندن پہنچائے اور اثاثے بنائے‘‘؟
سیاست کی اس دو پیری پالیسی کو شاعر نے اچھوتے خیال میں قلمبند کیا۔
سب گناہ و حرام چلنے دو، کہہ رہے ہیں نظام چلنے دو
ضد ہے کیا وقت کو بدلنے کی، یونہی سب بے لگام چلنے دو
یہ سبھی، بھوک اور مصیبت کا، خوب ہے اہتمام چلنے دو
اہلیت کیا ہے میری چھوڑ اسے، نام کافی ہے، نام چلنے دو
مفت مرتا نہیں تو راہوں میں، تجھ کو دیتے ہیں دام، چلنے دو
تیرے اجداد کے تھے آقا ہم، خود کو بھی زیرِ دام چلنے دو
حق کو چھوڑو، حساب کو چھوڑو، حکمِ حاکم سے کام چلنے دو
ہم جو اترے تو پھر اندھیرا ہے، سو یہی غم کی شام چلنے دو
شاہ جائے گا، شاہ آئے گا، تم رہو گے غلام، چلنے دو
عزیز ہم وطنو! میکاولی کا یہ قول ڈبل شاہ کی سیاست کا سلیبس ہے۔ تاجر چھوٹا ہو یا بڑا دونوں کا سلیبس ایک ہے۔
''when a trader becomes a prince ,all he knows is how to sell the state, whatever he cannot sell he destroys''