کراچی کا ایک معروف ٹی وی اینکر سڑک پر کھڑا تھا۔
اینکر نے سروے کے دوران ووٹر سے پوچھا: پچھلی دفعہ آپ نے کس کو ووٹ دیا تھا۔ جواب آیا: کسی کو بھی نہیں ۔ اینکر نے دوسرا سوال کیا: وہ کیوں؟ ووٹر نے کہا: میرے گھر پیغام آ گیا تھا کہ آپ کے ووٹ ڈل گئے ہیں‘ لہٰذا تم لوگ ووٹ ڈالنے مت آنا۔ تیسرا سوال تھا: کیا اس الیکشن میں بھی تمہارا ووٹ ڈل جائے گا اور تم پولنگ سٹیشن نہیں جائو گے۔ اس سوال کے جواب میں ووٹر تن کر بولا: کیوں جی ؟ کیوں نہ جائوں؟ اب میرا ووٹ کوئی اور نہیں ڈال سکتا ۔ پہلے والی بات ختم ہو گئی ہے ۔ اب اپنا ووٹ ڈالنے میں خود جائوں گا۔
باوا شیرو بھی ووٹ ڈالنے گیا تھا ۔ اس کا واقعہ تو آپ نے سن رکھا ہو گا ۔ باوا شیرو سے گھرانہ نمبر پوچھا گیا ۔ پھر الیکشن پریزائیڈنگ آفیسر نے کہا کہ آپ اکیلے اکیلے کیوں ووٹ ڈالتے ہیں۔ باوا شیرو نے پوچھا: وہ کیسے؟ الیکشن پریزائیڈنگ آفیسر نے جواب دیا: آپ کی بیوی صبح سویرے ووٹ ڈال کر واپس چلی گئی ہے۔ الیکشن پریزائیڈنگ آفیسر کا یہ جواب سن کر باوا شیرو زار و قطار رونا شروع ہو گیا۔ الیکشن کے عملے نے باوا شیرو کو پانی کا گلاس پلایا ، حوصلہ دیا اور بنچ پر بیٹھا کر رونے کی وجہ پوچھی ۔ باوا شیرو بولا: اس دفعہ میں ووٹ ڈالنے میں پھر لیٹ ہو گیا‘ وقت پر پہنچ جاتا تو میری ملاقات بیوی سے ہو جاتی ‘ بے چاری 35 سال پہلے فوت ہوئی تھی‘ لیکن ہر پانچ سال بعد ووٹ ڈالنے ضرور واپس آتی ہے ۔ باوا شیرو اُٹھا‘ پولنگ بوتھ پر موجود عملے کو دونوں ہاتھ اُٹھا کر ڈھیروں دعائیں دیں۔ ساتھ کہا: آپ کتنے عظیم لوگ ہیں‘ میری بیوی کے ووٹ کو کتنی عزت دیتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے‘ اندر ہی اندر میں بھی باوا شیرو کے متاثرین میں شامل ہو چکا ہوں ۔ ظاہر ہے ووٹ کو عزت دینے کا حامی ۔ اسی لیے جو ووٹ ظلِ الٰہی کے دربار المعروف پٹواری جلسہ میں ذرا ''اوور‘‘ ہو گیا‘ اور اپنی نگاہ روبرو نہ رکھ سکا۔ بے چارہ ووٹر عزت لینے نواز شریف تک جا پہنچا۔ اس ووٹر کو موقع پر ہی عزت دینے کا خصوصی بندوبست کیا گیا ۔ جس کا مظاہرہ ووٹ کو عزت دو تحریک کے بانی کے زیرِ نگرانی ٹی وی کیمروں کے سامنے ہوا۔ جہاں 10/12 مسٹنڈوں نے ووٹ کو ہاتھوں اور لاتوں کے ذریعے فوراً عزت دے ڈالی ۔ خبر ہے کہ عزت کروانے کے بعد ووٹ کی '' اصلی بے بے‘‘ ابھی تک اُس کے کُھنے سینک رہی ہے ۔ ووٹ کو عزت دو بہت دل فریب نعرہ ہے ۔ ایسا نعرہ ہے جو دل سے نہیں لگایا جاتا۔ یعنی یہ نعرہ بھرپور نشہ ہے فریب سے پُر باش ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے والے نعرے کس کو یاد نہیں ۔ چھ ماہ، آٹھ مہینے، ایک سال‘ ڈیڑھ سال، دو سال، تین سال، چار سال ۔ اور آخری سال میں لوڈ شیڈنگ ختم نہ کی تو میرا نام شہباز شریف نہیں ۔ ایک دفعہ شہباز سپیڈ نے یہ بھی کہہ ڈالا ، پانچ سال میں بجلی ختم نہ کی تو میرا نام بدل دینا ۔ سادہ دل لوگوں کو فریب دینے کی حرکتِ شریف عام زبان میں ماموں بنانا کہلاتی ہے۔
آئیے میں آپ کو ایک بھانجے کا واقعہ سناتا ہوں‘ جس نے ماموں کو بھی ماموں بنا دیا ۔ ایسا ماموں جو اقتدار کے ایوان میں پہنچا ۔ دولت کی دیوی اُس پر مہربان ہو گئی؛ چنانچہ کسانوں میں بار دانہ بانٹنے کا اختیار اُس کے ہاتھ آ گیا ۔ بار دانہ گندم کے دانے بھرنے والی بوری کو کہتے ہیں۔ گندم کی فصل سنبھالنے کے سیزن میں کسانوں کے ووٹ کو عزت دینے کے لیے بار دانہ خوب استعمال ہوتا ہے ۔ ووٹ کو عزت دینے کے جذبے سے سرشار ماموں نے کروڑوں بوریوں پر 8 روپے فی بوری کمیشن رکھ دیا ۔ بھانجا اپنے ووٹ کی بے عزتی کو برداشت نہ کر سکا ۔ ماموں کا گریبان پکڑا اور بولا: 2 روپے فی بوری میرا کمیشن نہ رکھا تو میں تمہارے خلاف پریس کانفرنس کر دوں گا ۔ پھر قدرت کا کرنا ایسا ہوا ایک پر پولینڈ مہربان ہو گیا اور دوسرے پر کینیڈا۔ آپ خود سوچئے ووٹ کو عزت دینے والے مزدور کے بچے کس محنت سے اس نیک کام میں کیا کیا پاپڑ بیلتے ہیں؟ ایسے میں خلائی مخلوق کے کچھ نا ہنجار ایجنٹ ہر طرح کی بد تمیزیاں اور گستاخیاں کر رہے ہیں ۔ کہتے ہیں: ووٹ کو عزت دو لیکن چور کو ذلت دو۔ ووٹ کو عزت دو لیکن ڈاکو کو سزا دو۔ ووٹ کو عزت دو لیکن منی لانڈرر کو اڈیالہ دو۔ ووٹ کو عزت دو لیکن کِک بیک کمشن بنانے والوں سے جیل بھرو۔
کہتے ہیں: ووٹ کی عزت کے رکھوالو!... ووٹ والی بیٹیوں کو جہیز دیا‘ ڈگری یافتہ بے روزگاروں کو نوکری دی۔ گنے کے کاشت کاروں سے بروقت خریداری کی۔ نابینائوں اور معذوروں کو 2 فیصد کوٹے پر بھرتی کیا۔ ووٹ کی عزت کے رکھوالو! سستی یا مہنگی‘ لوگوںکو بجلی دی ۔ بند فیکٹریوں اور ملوں کو چلا دیا ۔ کشکول توڑ کر بے عزت بننے سے انکار کیا۔ کبھی فاٹا کا دورہ کیا؟ کبھی وطن کے شہیدوں کے بچوں کو پوچھا؟ چلو یہ بتا دو‘ فارن پالیسی بنائی؟ کشمیری ہو کر مظلوم کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھائی؟ ایٹم بم کے دعویدار! کبھی چاغی کے لوگوں کا حال پوچھا؟ طورخم اور چمن میں بابِ پاکستان کو سلیوٹ کیا؟ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی دل جوئی کے لیے کوئی پالیسی بنائی؟ (ماسوائے حسن اور حسین کے)۔ چلو اتنا تو بتائو‘ ووٹ کے ذریعے وزیر اعظم بن کر مودی سے کیا گفتگو کی۔ رائے ونڈ میں را چیف ، اجیت دوول اور نریندر مودی سے کیا باتیں ہوئیں؟ اپنے سریا ساجن اور جنگلہ جندال کو مری لے جا کر کیا راز کھولے؟ ووٹ کی عزت کے رکھوالو! نوٹ پر کیوں مرتے ہو؟ فوج غلط ہے ‘ فوجی بھگوڑے ہوں تو رشتے داری ٹھیک؟ ووٹ کے رکھوالو! ایک راز اور کھول دو۔ تمہارے خاندان میں ڈالر اور ریال پر مرنے والے تو سارے ہی ہیں۔ کیا کوئی مادرِ وطن پر بھی مرا؟ تمہارے کتنے جوان فوج میں بھرتی ہوئے؟ کتنے وطن کی آن پر کٹ گرے؟ ووٹ کی عزت کے رکھوالو! غربت کی لکیر سے نیچے جینے والوں کو جینے کا حق دیا؟ بھٹہ مزدور کے لیے تم نے کیا کیا؟ دیہاڑی دار کو روٹی پہنچائی؟ زرعی مزدوروں کی لڑائی لڑی؟ خواتین کے لیے کوئی ایک ادارہ تشکیل دیا ۔ ووٹ کی عزت کے دعویدارو! اشرف غنی کی خوشامد کرتے ہو‘ اپنی عدلیہ کی عزت نہیں۔ پاکستانیوں کے سامنے بڑھکیں مارتے ہو‘ امریکی صدر کے روبرو پرچیاں پڑھ کر بھی میائوں میائوں۔
ووٹ کو وہ عزت دے گا‘ جس کی اپنی عزت ہو گی۔ عزت وہ بازاری جنس نہیں جسے دولت خرید سکے۔ عزت مالک ارض و سما کا اختیار ہے۔ وہ جسے چاہے ذلت کے گڑھے میں پھینک دے جسے چاہے عزت و آبرو کی دولت سے سرفراز فرما دے۔ نواز شریف کے سیاسی پیرو مرشد نے بلا مقابلہ صدارتی ریفرنڈم میں کہا تھا: اسلام چاہتے ہو تو میں پانچ سال کے لیے تمہارا صدر ہوں۔ نااہل شریف نے ایک اہلیت ثابت کر دی ہے۔ اپنے مرشد کی تربیت یاد رکھی۔ اس لیے موصوف کی آہیں‘ سسکیاں، آنسو، چیخیں اور کوسنے زبان حال سے فریاد کر رہے ہیں‘ مجھے کرسی ملی تو ووٹ کی عزت ہو گی۔ کرسی کھسک گئی تو ووٹ کی آبرو رُل گئی۔ کیسا شخص ہے دھرتی کے بجائے کرسی سے عاشقی پال رکھی ہے۔
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزت ِسادات بھی گئی