جو اہلِ وطن ملک میں موجود ہیں‘ اُن کی خدمت میں پیشگی دلی عید مبارک ! لیکن جوکالے انگریز مادرِ وطن کی بجائے مادر ِ برطانیہ ‘ملکہ صاحبہ کے سائے میں اپنے پیارے پیارے اپارٹمنٹس کی گود میں جا بسے ہیں۔ اُن کے لیے بھر پور عزت کے ساتھ کمائی ہوئی دولت مبارک ہو ۔
عید خوشی کا نام ہے ۔ اسے میلہ بھی کہا جاسکتا ہے ‘ خوشیوں کا میلہ ؛ چنانچہ عید اور میلے دنیا کے ہر کلچر میں پائے جاتے ہیں ۔ کہیں دیوتائوں کے میلے۔کہیں لالٹین میلہ ۔کسی جگہ پتنگ اور کہیں تکیے یا ٹماٹر سے لڑائی کا میلہ ۔ مختلف تہذیبوں کے یہ بہت سارے رنگ ایک ہی نقطے پرمرکوز ہیں۔ وہ نقطہ ہے‘ اپنے لیے خوشی تلاش کرنے کا موقع اور دوسروں میں خوشی بانٹنے کا چانس۔مسلم دنیا کی عید میں تقدیس اور ہم نفسوں میںخوشی بانٹے کے رنگ اضافی ہیں ۔ فطرانہ یا فطرہ عید کی نماز پڑھنے سے پہلے دیا جاتا ہے ‘ جس کی وجہ صاف ظاہر ہے ۔ اور وہ یہ کہ عید کے دن جس کی جیب خالی ہے‘ ان تک بھی عید کی خوشی کا ذائقہ پہنچ سکے ۔ عید گاہ تک جانے کا راستہ ایک اور واپسی کے لیے دوسرا راستہ کیوں اختیار کیا جاتا ہے ۔ مسرت کے اس موقع کو بھر پور سوشل ایونٹ بنانے کے لیے ۔عید گاہ آتے جاتے دو قسم کے منظر آپ نے اکثردیکھے ہوں گے ۔ عید کی خوشی سے سرشار روزہ داروں کا پہلا منظر۔ کھلونوں‘ کھانو ں اور زرق برق کپڑوں کی دنیا میں مست ننھے فرشتوں کی عید کا دوسرا منظر نامہ ۔ نجانے کیوں ہر عید کے موقع پر دو مزید منظر بھی میری آنکھوںکے سامنے گھوم جاتے ہیں ‘ جن کے بارے میں صوفی شاعر نے یہ کہہ رکھا ہے ۔
ہِکناں نوُں توُں اَیناں دِیویں‘ بَس بَس کرن زُبانوں
ہِکناں نوُں توُں کجُھ نہ دِیویں‘ ایویں اِی جانڑ جہانُوں
عید کے دنوں میں مجھے آبائی گائوں کہوٹہ ‘ سسرالی علاقے چکری اور گولڑہ شریف ضرور جانا ہوتا ہے ۔ تعلق داروں کی بستی میں خوشی ‘ مرگ ہو جائے‘ تو اس کے علاوہ دیگر دیہات میں بھی ۔ اکثر د یہات میں عید والے دن بھی بچوں کے پائوں میں پرانے سلیپر نظر آتے ہیں ۔ بدن پر بوسیدہ‘ مگر دُھلے ہوئے واجبی سے کپڑے ۔ میں خود بھی باپ ہوں ۔ والدین کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتے ہوں ‘اُن کا دل دُکھانے کے لیے ایسا منظر کافی ہے ۔ دیہاتی وسیب میں غربت کا عالم یہ ہے کہ وہاں شیر خورمہ‘ سویاں ‘ کھجلہ ،‘پھینی ‘ چم چم یا برفی کھانے کا تصور ہی نہیں ۔ گُڑ ‘ چینی کا حلوہ اور گھر کے دودھ کی کھیر بھی اُن کو میسر آتی ہے‘ جو دو لاکھ روپے کی بھینس یا 85 ہزار روپے کی گائے خریدنا اَفورڈ کر سکیں ۔ دوسرا منظر شہر کے بڑے ہوٹلوں اور معروف کھابوں میں نظر آتا ہے ۔ یہاں صرف سلاد بار 25/30قسم کی ‘ دو تین قسم کے سُوپ ۔ سُوپ کے ساتھ کریکرز اور بریڈ باسکٹ ۔ مین کورس میں 10/12 ڈیشز پر مشتمل کھانے۔کئی چٹنیاں ‘ سارے اچار اور چٹخارے ‘سویٹ با ر۔اس کے علاوہ 20/30 قسم کے فروٹ اور میٹھے ۔ فریش جوس ‘ کولڈ ڈرنک‘ کافی ،چائے‘گرین ٹی،‘مِنٹ ٹی ۔ عید کا خیال یہاں تک پہنچا ‘تو حبیب جالب یاد آگئے۔
نہ کوئی شب ہو‘ شبِ غم یہ سوچتے ہیں ہم
کسی کی آنکھ نہ ہو نم یہ سوچتے ہیں ہم
گِلہ گزار نہ ہو کوئی چشمِ ساقی کا
کسی پہ لطف نہ ہو کم یہ سوچتے ہیں ہم
کسی کے لب پہ نہ ہو داستانِ تشنہ لبی
زمیں پہ کوئی نہ ہو جم یہ سوچتے ہیں ہم
کسی کا حق ہے سمندر پہ اور کوئی پیاسا
یہ کیا ہے، کیوں ہے یہ عالم یہ سوچتے ہیں ہم
ساتھ چند باتیں اور بھی ۔ مثال کے طور پر آپ ہوائی جہاز کی بزنس کلاس میں بیٹھیں ۔ فرسٹ کلاس میں یا اکانومی میں سفر کریں ۔ یہ تو طے ہے کہ جہاز کے سب مسافروں کی منزل ایک ہوگی ۔ آپ بوفے ڈِنر یا لنچ کریں ‘ گھر کے ڈائننگ ٹیبل بھر کرعید منائیں یا حسب ِ ضرورت پکوان تیار کریں ۔آپ دو چار پلیٹ سے زیادہ نہیں کھا سکیں گے‘ پھر یہ بات بھی طے ہے کہ کھانا ہضم ہونے کے بعد آپ سب رنگ لذیز پکوانوں کی بد بو برداشت نہیں کر سکتے ۔ نفاست سے کھایا گیا کھانا ‘ اگلا کھانا کھانے سے پہلے ہی نجاست میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ آپ رولز رائس میں بیٹھیں ‘ بنٹلے چلائیں یا وی ایٹ میں سفر کریں ۔ اگر آپ کی منزل اسلام آباد سے راولپنڈی ہے ‘تو موٹر سائیکل یا چنگ چی والا آپ کے پہنچنے کے کچھ ہی منٹ بعد پنڈی پہنچ جائے گا ۔ سب سے اچھے اور مہنگے لٹھے کا کلف دار سوٹ سب سے پہلے گندا ہوتا ہے۔ میں نے جینز کی جو پتلون 1976ء میں کراچی سے خریدی تھی‘ وہ ابھی تک 10بار بھی نہیں دُھلی۔ہاں یہ ضرور ہوا دو سال پہلے میں نے اُس کی چوڑائی میں سوا انچ اضافہ کروا لیا ۔ بوسکی کا سوٹ پہن لیں‘ ایک گھنٹے بعد لگے گا‘ رات اسی جوڑے کو پہن کر سوئے تھے ۔
ایسی سہولت ہو راحت ہو یا چاہت جس پر عزت قربان کرنی پڑے اور ذلتیں قبر تک پیچھا کریں‘ اُس سے روکھی سوکھی کھا لینا‘ بہتر ہے ۔ عید کے پُر مسرت موقع کا ایک اور پہلو بھی توجہ مانگتا ہے ۔ آج ہارٹ اٹیک سے لے کر ڈپریشن اور شوگر تک ہر بیماری زیادہ کھانے والوں کو لگتی ہے ۔ اسی لیے مغرب کے سیانے کہتے ہیں ۔
(DO NOT IMPROVE UPON QUALITY OF LIVING , SPEND ON QUALITY OF LIFE)
اس فلسفے کو جسمانی حیات کے علاوہ روحانی دنیا میں بھی لاگو کیا جا سکتا ہے ۔ انسانی زندگی دائی اماں سے لے کر اولڈ ایج امراض کے ماہرین تک ‘ ولیمے سے جنازے تک ‘ دنیا کی محنت سے عبادت کی ریاضت تک‘ انسانی زندگی اجتماعیت کے سوا کچھ نہیں ۔ خاص طور پر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے دین اور قرآن پاک کی پیروی کرنے والوں کو رہبانیت‘ یعنی اجتماعی حیات سے فرار کی اجازت نہیں ۔ بالکل کوئی گنجا ئش نہیں ہے ۔
جو بہت ہی اپنے ہیں ہم اُن کے درمیان عید کی خوشیاں سال میں دو بار بانٹتے ہیں ۔ آئیے اس بار عید کو اپنی زندگی کا چیلنج بنائیں ‘ جو زیادہ اپنے نہیں ہیں یا جنہیں ہم جانتے بھی نہیں اُن میں سے کچھ کا یا کسی ایک کا انتخاب کریں ۔ اُس کو عید کی خوشیوں میں شریک کر لیں ۔ حضرت عیٰسی ابن ِ مریم علیہ سلام کی پیدائش کے دن پر دنیا کے مہنگے ترین سٹور زاور شاپنگ مالز کے مالکان ایسے ہی کرتے ہیں ۔ کیا ہمارے بڑے بڑے حاجی بھی یہ عید چیلنج قبول کریں گے ۔ ہم سب اپنے ناز اٹھاتے ہیں ۔ عید کا دن اللہ کی مخلوق کی ناز برداری کا سالانہ میلہ لوٹنے کا دن ہے ۔
آدمی کا جسم کیا ہے ؟ جس پہ نازاں ہے‘ جہاں
ایک مٹی کی عمارت، ایک مٹی کا مکاں
موت کی پرُ زور آندھی جب اس سے ٹکرائے گی
دیکھنا پھر یہ عمارت خاک میں مل جائے گی
یہ جو کچھ دیکھتا ہے تُو، فریب ِ خوابِ ہستی ہے
تخیل کے کرشمے ہیں‘ بلندی ہے نہ پستی ہے
عید چیلنج ... مبارک ہو۔