شجاعت اور عزیمت کی داستانیں تین طرح کی ہیں۔
پہلی آفاقی۔ یہ تاریخ عرب کے ریگزاروں میں کسی کمان دار نے نہیں اللہ کے آخری رسولؐ کے اہل بیت نے مقدس سر کٹوا کر رقم کی۔ شجاعت کی ایک دیگر داستان آزادیٔ وطن کے نام پر پھانسی چڑھنے والے 27 سالہ نوجوان بھگت سنگھ نے لاہور میں لکھی‘ جبکہ تیسری تاریخ شہید بھٹو کے لہو سے پنڈی جیل کے سیاسی پھانسی گھاٹ پر رقم ہوئی۔
کوئی یہ بتائے کہ مالِ مسروقہ کے صندوقوں کی رکھوالی کے لیے سات سمندر پار اپنے دونوں بیٹے چھوڑ کر مفرور قیدی سزا بھگتنے پر مجبور ہو جائے‘ تو اسے آپ جرأت کہیں گے یا ذلت و رسوائی۔ اس ذلت و رسوائی کا عالمی شو پچھلے ہفتے، عشرے سے ایون فیلڈ اسٹیٹ میں روزانہ کی بنیاد پر جاری ہے۔ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس نہیں جاگیر ہے۔ برطانیہ کے قلب‘ سنٹرل لندن میں واقع یہ جاگیر غریب قوم پر ڈکیتی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ جب سے شریفوں کی یہ ناجائز جاگیر مجاز پاکستانی عدالت سے بحق سرکار ضبط ہوئی ہے‘ مغرب میں قیام پذیر تارکینِ وطن جاگ اُٹھے ہیں۔ انہی میں سے پاکستان کی 2 بیٹیوں کی کہانی نے جنم لیا۔ 2 عورتیں 2 کردار۔
ایک وہ ہے جو چوری کے مال پر ناز کرتی ہے اور لُٹ دے مال پر نت نئے سے نئے برانڈ کی نمائش بھی۔ سچ تو یہ ہے اس خاتون کی لندن میں تو کیا پاکستان میں بھی کوئی پراپرٹی نہیں ہے۔ اس کے دونوں بھائی شیر کے اصلی بچے ہیں۔ نہ ڈرنے والے نہ جھکنے والے نہ بکنے والے۔ خالص تے اصلی وڈے برطانوی شہری۔ اسی طرح شیر کے ان دونوں بچوں کے بچے بھی 100 فیصد انگلستانی شیر ہیں۔ ساتھ اس کے بچے بھی جو بڑے فخر سے اپنے آپ کو کپتان کہتا ہے۔ اتنے سارے شیر ایون فیلڈ کرپشن محل میں اکٹھے لُک چُھپ کر بیٹھے ہیں کہ مے فیئر کا علاقہ شیر گڑھ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ آج کل پاکستانی تارکینِ وطن نے انگلینڈ جیسے آزاد ملک میں دو عدد خالص انگلستانی شیروں کی شاپنگ‘ واک اور گھر سے نکلنے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ ادھر وڈے شیر کے دونوں بچوں نے کرپشن جاگیر سے باہر قدم نکالا‘ ادھر پاکستانی جا پہنچے۔ ہر طرف سے بلند ہونے والے ''سارا ٹبر چور ہے‘‘ ''ہماری جائیداد خالی کرو‘‘ اور انگلش، اُردو، پنجابی، پشتو کے دوسرے نعرے اور تبرے ناقابل بیان ہیں۔ لیکن نظریاتی باپ کے شجاع بیٹے اصولی مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ''چمڑی جائے دمڑی نہ جائے‘‘ والا مؤقف۔ ایسا ہی اصولی مؤقف یو کے میں مقیم پاکستانیوں کا بھی ہے‘ جو کہتے ہیں: ایون فیلڈ کسی کے باپ کی جاگیر نہیں‘ پاکستان کی ملکیت ہے‘ ہم اسے چھین کر قومی خزانے میں ڈالیں گے۔
عادی چوروں سے برآمد شدہ سرکاری مال کی سپردداری کے لیے انگلش چینل سے لے کر سکاٹ لینڈ تک‘ اس جائیداد کے اصل مالک ٹیکسی، ٹرین اور بلا تھکان لمبے سفر طے کرکے لندن پہنچ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے: پاکستان کا یہ مال پاکستان لے جا کر چھوڑیں گے۔ دوسری خاتون انہی میں سے ایک‘ پاکستان کی بیٹی ہے۔ اس کا نام کوئی نہیں جانتا‘ لیکن اس کی ویڈیو پوری دنیا میں وائرل ہو گئی ہے۔ یہ خاتون اپنے مال کی برآمدگی پر شاداں و فرحاں ہے۔ دور دراز سے اپنے خرچ پر سفر طے کر کے ایون فیلڈ اسٹیٹ کے باہر پہنچی۔ پاکستان کی اس بیٹی کو فرنگی کے دربانوں کے دربان نے روک لیا۔ پھر گورے پولیس والے نے خاتون سے کانا پھوسی کے انداز میں کچھ کہا‘ جس کا جواب پاکستان کی بیٹی نے ان لفظوں میں دیا: "I AM NOT AFRAID OF ANY ONE" ''یہ میرے ملک کا چوری شدہ مال ہے۔ یہ میرا مال ہے۔ ہم اسے واپس پاکستان لے کر جائیںگے۔ میں پاکستان کی بیٹی ہوں۔ میری آواز کوئی نہیں دبا سکتا‘‘۔ مے فیئر والے شیر گڑھ کے قلعے کے اندر نا اہل اور مفرور مجرم کے پہلو میں بیٹھ کر اس کی بیٹی مریم صفدر فرما رہی تھیں: ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے۔ مریم صفدر کے اس دعوے پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ ہاں پاکستان کے 2 مظلوم طبقے ان کی اس عالمی دہشت سے لازماً فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں۔ سب سے پہلے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی پیلٹ گنوں کا شکار سکول کالج کی بچیاں اور بچے‘ جبکہ دوسرے لائن آف کنٹرول پر بسنے والے بزرگ اور عورتیں۔ دونوں یہ دعویٰ سننے کے بعد چاہیں گے کہ وہ نہتی لڑکی یا نانی جس کی دہشت سے بندوقوں والے کانپتے ہیں‘ ایون فیلڈ کرپشن محل سے سیدھی کشمیر کے بارڈر پر پہنچ جائے یا پھر ایل او سی کے مظلوموں کے پاس۔ اس کی دہشت دیکھ کر شاید انکل مودی شرما جائے یا پھر بھارت افغانستان کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کو ایکسپورٹ کرنا بند کر دے۔
اگلے دن ایون فیلڈ کرپشن محل کرپشن کے راج سنگھاسن پر براجمان مفرورِ اعظم نے پاکستان واپسی کی شان یوں بتائی۔ کہا: میرا وطن مشکل میں ہے‘ اس لیے میں واپس جا رہا ہوں۔ سامنے کی بات ہے۔ وطن سے مراد ان کا اپنا جاتی امرا ہی ہو سکتا ہے‘ جہاں ان کے پیارے تہہ خانے، دل رُبا خزانے‘ خوش نما آوازوں والے طوطیانِ رنگا رنگ‘ شیر‘ بلی، لگڑ بگڑ اور پتا نہیں جاتی امرا کے گھریلو چڑیا گھر میں اور کیا کیا بستا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ اس چڑیا گھر پہ 2 دفعہ بذریعہ ہیلی کاپٹر اور کچھ مرتبہ براستہ گیٹ طائرانہ نظر ڈالنے کا نادر موقع ہمارے ہاتھ بھی آیا تھا۔ یا پھر مفرور قیدی کی جانب سے وطن کا مطلب ہے دیس، دیس میں چھپے ہوئے کرپشن کے راج محل۔ اور اگر اس سے مراد 20 کروڑ لوگوں والا پاکستان ہے تو پھر نواز شریف دونوں بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز کو بھی ساتھ واپس لے کر آئیں تاکہ وہ اپنے ابا کے عزیز وطن کی کھلی عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کر سکیں۔ یہ کیسی بہادری ہے جس میں 3 سزا یافتہ مجرم اپنی سزا بھگتنے پر مجبوراً آمادہ ہو گئے جبکہ شیروں کے اس خانوادے کے تین عدد عدالتی مفرور پاک سرزمین کا نام سن کر ہی کانپ اُٹھتے ہیں۔ ان تینوں کے لیے وطن واپسی ایک ڈرائونا خواب ہے۔ جب یہ دونوں رنگ دار فرنگی شہری پاکستان میں تھے تو بڑھک پہ بڑھک لگاتے تھے۔ دو دلہنوں کے سہاگ اور 8 بچوںکے ابا جی کو جے آئی ٹی نے کرسی پر کیا بٹھایا قیامت آ گئی۔ رول آف لاء خطرے میں پڑ گیا۔ تفتیش کی فوٹو لیک‘ ڈان لیک سے زیادہ خطرناک ٹھہری۔ آج وہی ''بچے‘‘ عدالتی مفرور ہیں۔ لفافی صحافت اور لفافہ لبرل دونوں کے منہ گھی سے بند ہیں۔ اب بھاڑ میںگیا رول آف لاء اور آئین کے بالا دستی وغیرہ۔ ایسا لگتا ہے جیسے جنرل مشرف مفرور ہے لیکن حسن اور حسین‘ دونوں عالمی تبلیغی مشن پر ہیں۔
قیدی فرار ہو یا دستیاب اس کا مقدر استقبال نہیں جیل کی دال ہے۔ گرفتاری مزید بے عزتی کے بعد ہو یا فوری۔ دونوںکا راستہ صرف اڈیالہ تک جائے گا۔
وقت بدل گیا ہے۔ لوگ بھی۔ بلکہ نظامِ عدل بھی۔ یہ وہ دور ہے جس میں سمارٹ فون والا ہر شخص رپورٹر اور کیمرہ مین ہی نہیں‘ میڈیا ماسٹر ہے۔ اس کا میڈیا ہائوس اس کی مرضی اور پاکٹ پر چلتا ہے۔ ہاں البتہ آج سے 11 سال پہلے مقتدیٰ الصدر نے احتساب کے حق میں اور کرپشن کے خلاف جو دو ملین لوگ عراق کی سڑک پر نکالے تھے وہ اب نگر نگر کے ترجمان ہیں۔ اور پاکستان اسی راہ کا مسافر ہے۔
کتاب سادہ رہے گی کب تک ‘کبھی تو آغازِ باب ہو گا
جنہوں نے بستی اُجاڑ ڈالی‘ کبھی تو ان کا حساب ہو گا
سحر کی خوشیاں منانے والو‘ سحر کے تیور بتا رہے ہیں
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی کہ سانس لینا عذاب ہو گا
وہ دن گئے جب ہر ستم کو ادائے محبوب کہہ کے چپ تھے
اُٹھے گی ہم پر جو اینٹ کوئی تو پتھر اس کا جواب ہو گا
سکونِ صحرا میں بسنے والو، ذرا رتوں کا مزاج سمجھو
جو آج کا دن سکوں سے گزرا تو کل کا موسم خراب ہو گا
خراب موسم... ویلکم ٹو لاہور نہیں بلکہ جیل۔ ووٹ کو کیسی عزت دیتے ہو۔ اپنے بچے چھپائو اور غریبوں کے پٹوائو۔