پتا نہیں کیا ہوا؟ حوصلہ ہارتی ہوئی قوم سر تا پا امید سے سرشار ہو گئی۔ آپ اسے ''یو بَنتو‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔
ڈالر کی اُڑان کے غبارے سے ہوا نکل رہی ہے۔ مغربی سرحد کے ساتھ واقع کیلاش لوگوں میں سے پہلا نوجوان جنرل الیکشن میں بلّے کے نشان پر سب سے بازی لے گیا۔ ایک امریکی ریاست میں ایک عرب امام صاحب نمازِ جمعہ پڑھانے کے بعد اجتماعی دعا کراتے ہیں۔ امام صاحب نے فرمایا ''سُنا ہے پاکستان پر اللہ نے کرم کر دیا۔ میں اسے نہیں جانتا لیکن پاکستان کو تازہ الیکشن میں ایک دیانتدار صدر مل گیا۔ اللہ پاکستان کے لوگوں پر مزید برکتیں نازل فرمائے‘‘۔ بھارت کے لیجنڈ انٹرنیشنل کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو سے میڈیا نے پوچھا: عمران سے بھارت کیا امید رکھے؟ جواب آیا: عمران نے پاکستان کے بارے میں دنیا بھر میں امید جگا دی ہے۔ (یہ انٹرویو وائرل ہے نیٹ پر دیکھا جا سکتا ہے)۔
میں نے ہمیشہ بوجھل دل سے کہا: پاکستان غریب ہے‘ اس کے حکمران سرمایہ دار۔ وطن کے ادارے کمزور ہیں اور اہلِ وطن میں سے کچھ مخصوص ٹولے زورآور۔ مڈل کلاس، غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور عوام۔ محبِ وطن بزنس مین۔ دھرتی کے ہمدرد سرمایہ کار‘ اور اپنی زمین کو خون پسینے سے سینچنے والے کاشتکار۔ قومی زندگی کی بنیادی اینٹ نما یہ طبقات ملکی حالات سے تنگ آ کر اچھے وقت کی امید کا دامن چھوڑ رہے ہیں۔ لیکن 25 جولائی کی نصف شب تادمِ تحریر مایوسی بیچنے والے مایوس ہیں۔ عام لوگ پُرامید۔ ویسے تو یہ سب پہلے بھی ہوتا آیا ہے۔ جیسے الیکشن، نعرے، وعدے، تقریریں، ٹھٹھے، دھمکیاں، خواب کے سراب‘ لیکن ایسا کبھی نہ ہوا کہ لوگوں میں صرف ایک الیکشن سے امید کی بجلیاں ''کوند‘‘ جائیں۔
اس پر سماجیات کے ماہر یا نفسیات کے گرو بہتر تبصرہ کر سکتے ہیں‘ لیکن آپ جہاں جائیں گے‘ آپ کے جسد و رو ح کو امید کی آکسیجن آغوش میں آ لے گی۔ شکریہ امید۔ تیرا صد لاکھ بار شکریہ۔ امید کی لکشمی لوٹ آنے کا شکریہ۔
تکبّر کے پہاڑوں کا مکین۔ زعمِ تقویٰ کے مریضوں کا ایک گروہ اسلام آباد میں جمع ہوا۔ میزبانی کے فرائض پنجاب سٹیج کے عظیم فنکار یادش بخیر! اپنے فنکارِ اعلیٰ کے پاس تھے۔ ہم سب کے پسندیدہ مولانا صاحب نے ووٹ کو عزت دیتے ہوئے فرمایا: ہم دیکھیں گے‘ یہ اسمبلیا ں کیسے چلتی ہیں‘ ایوانوں میں کون داخل ہوتا ہے‘ ہم ان کا راستہ روکیں گے‘ اس الیکشن میں 100 فیصد دھاندلی ہوئی‘ پورا الیکشن کالعدم کرائیں گے۔ ایک کونے میں ووٹ کی عزت کی مار سے بیزار بلوچستان سے چادر والی سرکار کی شکل نظر آئی۔ وہ بھی کہتے ہیں: انتخابات میں 100 فیصد دھاندلی ہوئی۔ لطیفہ یہ ہے چادر والی سرکار کو مُلا مشرف الائنس کے نام سے شہرت پانے والے اتحاد کے ایک مولوی صاحب نے شکستِ فاش دی ہے۔ اب کوئی پوچھے وہ دونوں حضرات مشترکہ آہ و زاری میں کہہ رہے ہیں: دھاندلی ہوئی۔ جنہوں نے ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑا۔ ایک جیتا دوسرا ہارا۔ تو پھر دھاندلی باز کون ہوا؟ میں نے یہی سوال اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر اٹھایا تھا۔ ساتھ یہ بھی کہ جن لیڈروں نے اسمبلی میں حلف نہ اٹھانے کا فیصلہ صادر فرمایا‘ وہ سارے تو الیکشن ہار گئے ہیں۔ پھر وہ کون سا حلف اٹھانے سے انکاری ہیں۔ فنکارِ اعلیٰ ہانپتے کانپتے لاہور سے شہرِ اقتدار پہنچا تھا۔ اے پی سی کی دیگ کا ڈھکن اٹھایا‘ دوسروں سے حلف نہ اٹھانے کا فیصلہ کروایا‘ اور اپنی پارٹی سے کہا: نئی واسکٹ بنوا لو‘ حلف ضرور اٹھائیں گے۔ فنکارِ اعلیٰ اور فنکارِ اعظم نے ''لُوزر سیاسی گروہ‘‘ سے ایسا سلوک پہلی بار نہیں کیا۔2008 ء کے الیکشن میں بھی انہوں نے جمہوری اتحاد جمع کیا۔ مشرف کے نیچے نہ صرف الیکشن لڑنے سے انکار کیا‘ بلکہ باقیوں کو نہر والے پُل پہ بٹھا کر خود مشرف سے حلف جا اٹھایا۔ کابینہ جوائن کر لی۔
ایک طرف لالچ اور دوسری طرف امید۔ اس سچی کہانی نے افریقہ کے جنگلی قبیلے میں جنم لیا۔ جہاں ایک مغربی ماہرِ ارضیات نے ننگ دھڑنگ بھوک کے ستائے ہوئے افریقی قبائلی بچوں کو جمع کیا۔ پھر اُن بچوںکے سامنے تھوڑی دور چاکلیٹ، ٹافیوں اور کینڈی سے بھری باسکٹ درخت پر لٹکا دی۔ بچوں کو مٹھائیوں سے 100 میٹر دور لے جا کر یہ اعلان کیا: جو بچہ سب سے پہلے ان مٹھائیوں تک پہنچے گا‘ مٹھائی کی پوری باسکٹ وہی کھائے گا۔ پھر ماہرِ ارضیات نے 'ریڈی سٹیڈی گو‘ کا نعرہ بلند کیا۔
آپ جاننا چاہیں گے بھوک کے ستائے افریقہ کے جنگل میں ان قبائلی بچوں نے کیا کیا؟ جی ہاں وہ لالچ میں نہیں آئے۔ اُنہوں نے مضبوطی سے ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما۔ دوڑ کر مٹھائیاں اتاریں اور پھر سب میں برابر حصہ کرکے بانٹ دیا۔ ماہرِ ارضیات یہ سب دیکھ کر حیرانی کے صحرا میں گُم ہو گیا۔ اُس نے تھوڑی دیر بعد بچوں سے پوچھا: تم نے ایسا کیوں کیا؟
بچے اُونچی آواز میں بولے: یوبَنتو۔ جس کا مطلب ہے کوئی ایک افریقی اُس وقت کیسے خوش رہ سکتا ہے جب اُس کے سارے ہم وطن اُداس ہوں۔ ماہرِ ارضیات نے لکھا: قبائلی افریقیوں کی زبان میں یوبَنتو کا مطلب ہے ''I AM BEACUSE WE ARE!‘‘
برادرم رئوف کلاسرا اور عامر متین صاحب نے ثابت کیا کہ وہ صرف تجزیاتی نہیں بلکہ معاشیاتی ماہر بھی ہیں۔ ان کی یہ تجویز کہ بیرونِ ملک پاکستانیوں سے قرض یا چندہ نہیں‘ بلکہ صرف 100 ڈالر فی کس سرمایہ کاری مانگی جائے۔ بظاہر بہت چھوٹی سی تجویز ہے‘ لیکن ذرا سوچئے! اس پر عمل درآمد ہو گیا تو پاکستان کی معیشت پائوں پر کھڑی ہو جائے گی۔ ڈالر اپنی اوقات میں آ جائے گا۔ اور زرِ مبادلہ کے ذخائر باعزت سطح پر۔ ویسے بھی ہمارے خزانے میں زرِمبادلہ کا واحد ذریعہ آئی ایم ایف کی BAIT.AID ہے‘ یا پھر تارکینِ وطن کے 22 ارب ڈالر۔ جونہی رئوف کلاسرا اور عامر متین کا یہ نسخہ عبداللہ نے مجھ تک پہنچایا‘ میں نے فوراً اسے آپ کے وزیرِ اعظم کو وَاٹس ایپ کر دیا۔
تھوڑا سا اپنی ذات سے اُٹھ کر‘ اپنی ضرورت، ذاتی خواہش تھوڑی سی قربان کر کے‘ بجلی گھر میں نہیں اپنے گھر میں بجلی بچائیں۔ پانی کا استعمال ذاتی راشننگ سے کریں۔ ابھی کل ہی میں نے اپنے گھر میں لگے جامن کے تقریباً 1000 بیج مارگلہ ہلز میں جا کر لگائے۔ ہم 6 لوگ تھے صرف 2 گھنٹے کی واک میں کام ہو گیا۔ سرنگاپٹم اور کیپ ٹائون فتح کرنے والے فرنگی کی طرح نہیں۔ کالے افریقہ کے سفید دل یوبَنتو بچوںکی طرح۔ ہم تھوڑی خوشی بانٹ لیں۔ تھوڑا درد شیئر کرنا سیکھ لیں۔
اشرف المخلوقات وہ نہیں جو اچھا ویلر ڈیلر ہے۔ بلکہ وہ ہے جو اچھا ہِیلر ہے‘ بلکہ ہیلپر بھی۔
''BEST HELPING HANDS ARE OUR OWN HANDS‘‘
اس سے کچھ بات نکل آئے نظر آتا ہے
ایک مضمون نکھر جائے نظر آتا ہے
ایک مجروح مُصّور کسی ویرانے سے
کوئی تصویر بنا لائے نظر آتا ہے
ناخُدا ڈوب کے نکلیں سرِ ساحل شاید
نائو طوفان کے منہ آئے نظر آتا ہے
پردۂ شب سے برآمد ہو سحر کا سورج
یا عَلم رات کو لہرائے نظر آتا ہے
ہوسِ بادہ کشی شوق کو بھڑکاتی ہے
نیّتِ پیرِ مُغاں صاف نظر آتی ہے