"SBA" (space) message & send to 7575

حریم ِ کعبہ سے لے کر سوادِ خیبر تک!

بابائے قوم حضرت ِ قا ئد اعظمؒ ہر14اگست پر پہلے سے بھی زیادہ شدت سے یاد آتے ہیں ۔ صرف مجھے ہی نہیں پوری قوم کو ‘ مگر اس بار مختلف انداز میں یاد آئے۔ 
ذرا سنئیے تو... ! پاکستان کا یومِ آزادی نہ منا نے کی آواز کہاں سے آئی۔ اس آواز کی تا ئید ایسے فنکارِ اعلیٰ نے کی‘ جس کا ہیرو بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمن ہے ۔ بھارت کی سماعتوں کے لیے پاکستان کا کھانے والے خود فروشوں کی ایسی آوازیں ہمیشہ سے عین ترنم رہی ہیں ‘ بلکہ ساز بھی ۔ ساز بھی بھجن والا ساز۔ بابائے قوم زندہ تھے تب بھی۔ ایسے گوئیے اور سازندے نشیدالوطنی کی بجائے بندے ماترم کی دھنوں پر جھومتے رہے ۔ 
ہزار دام نہفتہ ہیں لفظ و معنی میں 
خطیبِ شہر کی رنگینیٔ بیاں سے بچو
غرض‘ خلاصۂِ گفتار اس قدر ہے انیس 
جو بس چلے تو ‘ گزر گاہِ گُمر ہاں سے بچو 
ذرالائیڑ نوٹ پر ۔ ان دونوںکے بارے میں سوشل میڈیا پر ایک ٹوئیٹر تبصرے نے ان دنوں دھوم مچا رکھی ہے ۔ تبصرہ یہ ہے ۔'' ہم دونوں اس بار یومِ آزادی نہیںمنائیں گے ‘ اگے کیہڑا توں ون ویلنگ کردا سیں؟‘‘۔ 
14ا گست پاکستان کا اور 15 اگست ہندوستان کا یومِ آزادی ہے ۔ 14 اور 15کے چاہنے والوں کی تقسیم ‘ تقسیم ِ ہند سے بھی کافی پہلے کی ہے ۔ نام گو گل کر کے دیکھ لیں۔ شخصیات اور پارٹیاں خود بولیں گے۔ تحر یکِ پاکستان میں پاکستان بنانے کا حامی کون تھا ؟ یا پھر آل انڈیا کانگرس کے ا کھنڈ بھار ت کو بچانے کا پر چارک کون ؟ آسان لفظوں میں شا عر مشر ق حضرتِ علامہ اقبالؒ نے یوں کس کو مخاطب کیا تھا ۔ 
ہے ہند میں مُلاّ کو جو سجدے کی اجازت 
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد 
یہ ذہنیت بھی عجیب ہے ۔کھائو پاکستان کا بھجن گائو کسی اور کا ۔ شکر ہے‘ جس ٹولے نے پاکستان بنانے کی غلطی نہیں کی۔ اُس نے پاکستان کو لوٹنے میں ذرا برابر غفلت بھی نہیں کی ۔ بابا ئے قوم ‘اس یومِ آزادی پر مختلف انداز میں بھارت کی ریاست گو ہاٹی میں(خدانخواستہ) زیر ترتیب انسانی المیے کی تفصیلات جان کر یا د آئے ۔ جہاں3کروڑ سے زائدبنگالی مسلمانوں کا بھارتی حقِ شہریت ختم کر دیا گیا ۔ ان میں ارکان ِ اسمبلی ‘ فوجی افسران اور ریٹائیرڈ بیورو کریٹس تک شامل ہیں ۔ 1947 ء میں اکھنڈ بھارت کے حامی سکھ لیڈر اور اُن کی اولادیں آج خون کے آنسو رو رہی ہیں ۔ صرف آ زادی کے لیے ‘ خالصتان کے لیے ۔اُنہیں بھی ہر سال 14 اگست کو قائد اعظم محمد علی جناحؒ بڑی شدت سے یاد آتے ہیں ۔ 
یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران 
اے قائداعظم تیرا احسان ہے‘ احسان
ہفتے کے روز یونیورسٹی سٹو ڈنٹس سے ملاقات ہوئی ۔ سب نے پرچم ِ پاکستانِ کے رنگ میں ربن بنیڈ اور شرٹس پہن رکھی تھیں ۔
بتانے لگے ‘اس یومِ آزادی پر ہر یونیورسٹی ‘ سکول ‘ کالج کے سٹوڈنٹس میں پہلے سے کئی گنا زیادہ جوش و جذبہ ہے ۔ ساتھ حب ِ وطن کے اس جنون کی دو وجوہات بتا دیں ۔ بد ترین سٹیٹس کو توڑ کر 18اگست 2018 ء سے شروع ہونے والی تبدیلی کا سفر پہلی وجہ ۔ اور 14 اگست کے خلاف حالیہ بیان دوسرا سبب ۔ ایک لڑکا ‘جسے سب ننھا کہہ کر چھیڑ رہے تھے ‘بولا: سر... آ پ میرا ایک کام کریں گے ؟ کہا: ہاں ہاں ضرور کروں گا ‘ لیکن اب یہ کام بہت مشکل لگ رہا ہے ۔ ننھے نے کہا: جو کہتے ہیں ‘وطنِ عزیز کا یومِ آ زادی نہیں منائیں گے‘ اُنہیں کو ئی سڑ کوں‘ بازاروں ‘ گلیوں میں لے جائے‘ ہر جگہ سبزہلالی پرچم کی بہاریں دکھائے ‘پھر اُنہیں 13 اگست کی رات ہر حال میں گھر سے باہر نکالے ۔اور کہے کہ اپنی پسند کے کسی چوک میں کھڑے ہو جائو۔ذرا عوام کو یومِ آزادی منانے سے منع کر کے دکھا دو۔ 
وطن تو نام ہے ننھی سی آبجوؤں کا 
وطن تو نام ہے لوگوں کی آرزئوں کا 
کوئی دور تھا‘ لوگ ریاست کے راز اور عالمی سیاست کے گُر غلا فوں میں لپیٹ کر رکھتے تھے۔ آج ساری حقیقتیں برہنہ اور سارے راز طشت از بام ہیں۔ عوام کی آنکھوں پر ''پٹکا ‘‘ نہیں باندھا جا سکتا ۔ دنیا کی کمزور ریاستیں۔ ناپید ادارے اور جنگ زدہ ملکوں کے شہری ۔ننگے سر اور برہنہ پائوں میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہر کسی کو دکھائی دیتے ہیں ‘جس کے ہاتھ میں سمارٹ فون ہے اور گھر میں ٹی وی سکرین ‘وہ ماں دھرتی کی قدر و قیمت خوب سمجھتا ہے ‘ جو خوانِ اقتدار سے جدائی اور بنگلہ سرکار سے بے دخلی پر دہائی دے رہے ہیں کہ یومِ آزادی مت منائو ۔ قوم اُن کے غم میں ذرہ برابر کی شر یک نہیں ۔ 
کچھ لوگ اِن میں اول ہیں اور کچھ جلول ہیں 
لیکن یہ زعم ہے کہ سبھی با اصول ہیں 
قائد کی سر زمیں میں چچا سام کے مرید 
ہر شخص جانتا ہے یہ کاغذ کے پھول ہیں 
بہت سال پہلے امر یکہ کے یومِ آزادی کی تقریب میں شرکت کے لیے گیا ۔ سعودی عرب والے دوست اسے یوم الوطنی کہتے ہیں ۔ اپنا یوم ِ ِ آزادی منانے سے بیزار دونوں جگہ لمبی قطار میں کھڑے نظر آئے ۔ گلوبل ویلج کے کے باسیوں کی خوشی میں شریک ہونا اچھی بات ہے۔ بے چارے صرف اپنوں کی خوشیاں دیکھنے کی ہمت سے محروم ہیں ۔ ہم نے آزادی حاصل کرنے کے لیے عصمتوں کے موتیوں سمیت قیمتی جانوں کے ان گنت نذرانے دیے۔ حُر یت کے لاکھوں پروانے شمعِ آزادی پر کٹ مرے ۔ پھر ہماری دوسری نسل آگے بڑھی ۔ پُرکھوں کی جلائی ہو ئی شمع بچانے کے لیے آزاد وطن پر مر مٹنے والے جر ی جوان ۔ شہدائے وطن جو شمعِ آزادی کو مخا لف ہو ائوں سے بچانے کے لیے فانوس بن گئے ۔ ہر سا ل یومِ آزادی سے پہلے اور بعد میں ان کا جوان لہو آزادی کی لو کو اور تیز کر دیتا ہے ۔ 
ہمارے نام سے روشن ہے نامِ آزادی 
لکھا ہے اپنے لہو سے پیامِ آزادی 
سروں میں زورِ جنوں اور دلوں میں جوشِ جہاد 
اسی طرح سے بنے گا قوامِ آزادی 
بڑے فلسفے بڑے بڑوں کے لیے ہوتے ہیں۔بڑی یا میگا خوشیاں بھی۔ چھوٹی سی بات یورپ کے کسی کارٹونسٹ نے بتا دی۔ایک طرف لیبیاء کے شہیدِ وطن کرنل قذافی کی قریب المرگ زخم اور خون آلود تصویر۔باقی آدھی جگہ سوشلسٹ کوریا کے نوجوان لیڈر کیم جونگ ان کی فوٹو۔عالی شان لباس میں امریکی صدر کے برابر بیٹھ کر مذاکرات۔پوری باڈی لینگوئج کے ساتھ۔نیچے کیپشن یہ تھا: 
THE DIFFERENCE BETWEEN BEING A NUCLEAR COUNTRY & WITHOUT NUKES IS QUITE CLEAR
دوغلے پن کی سیاست کے تہی مغز نقیب
ایک ہم رنگِ زمیں دام میں ہیں دانے دو
جس کے دل پر تالا ‘منہ پر پتھر اور جیب میں غیر ملکی پرشاد کا روپیہ نہیں پڑا۔ وہ یقینا محسوس کر سکتا ہے ‘دیکھ سکتا ہے۔70 سال بعد آزاد قوم کے لوگ مزید غلامی کو تیار نہیں۔کوئی سیاہ بخت ہو گاجواس پیامِ آزادی کے لمحے اپنے شکم سے بولے۔
حریمِ کعبہ سے لے کر سوادِ خیبر تک 
نظر فیروز ہے نقشِ دوامِ آزادی

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں