انڈیا کے سورما بھوپالی کا تذکرہ بعد میں۔ پہلے بھارت میں پرائم منسٹر اِن ویٹنگ کی بات سن لیں۔
کہتے ہیں: بھارت کا چوکی دار چور نکلا۔ اس چوکیدار کی چوری انڈیا میں نہیں پکڑی گئی۔ یہ کوئی سیاسی الزام نہیں بلکہ دنیا کے ایک معتبر لیڈر کا انکشاف ہے۔ فرانس کے سابق صدر فرانسو اولاند نے مودی کے جرم سے پردہ اُٹھایا۔ فرانس کے ساتھ جیٹ ڈیل کے مذاکرات کے دوران بھارت کی طیارہ ساز سرکاری فرم کو پیچھے دھکا مار کر نریندر مودی‘ امبانی کو اپنے ساتھ فرانس لے گئے‘ جہاں فرانسیسی حکومت کو مجبور کر دیا گیا‘ اور بھارت کے سرکاری ادارے کو چھوڑ کر‘ ایک ایسے شخص کو جیٹ طیارے بنانے کا ٹھیکہ دلوا دیا گیا‘ جس کی فرم 15 دن پہلے رجسٹرڈ ہوئی تھی۔ اُسے ہوائی جہاز بنانے کا کوئی تجربہ تھا‘ نہ طیارہ سازی کی سائنس و ٹیکنالوجی کا علم۔ اس لیے ثابت ہو گیا کہ بھارت کا چوکیدار چور ہے۔ میں بھارت کے اس چور چوکیدار مودی کو کہنا چاہتا ہوں کہ فرانسیسی صدر کے اس الزام پر لب کشائی کرے۔ مودی نے اپنا منہ کیوں بند رکھا ہوا ہے۔ وہ اس کرپشن کہانی کی تردید کیوں نہیں کر پا رہا۔ یہ اُس پریس کانفرنس کا خلاصہ ہے جو بھارت کے اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے ہندوتوا کے پرچارک اور چوکیدار بن کر چور کا کردار ادا کرنے والے مودی کی کرپشن کے بارے میں کی۔
مودی سرکار نے بھارت کی توجہ اس کرپشن کہانی سے ہٹانے کے لیے اپنا سورما بھو پالی آگے کر دیا۔ ہمارے پنجاب کے سابق وزیرِ اعلیٰ کے ہیٹ سے ملتا جلتا ہیٹ پہنے اس سورما بھوپالی کا فوجی نام انڈین آرمی چیف ہے‘ جبکہ فلمی نام سورما بھوپالی۔ بھارت کی 70 سالہ تاریخ میں بپن راوت وہ پہلا آرمی چیف ہے‘ جس کی تعیناتی سفارشی ہوئی‘ روایت اور میرٹ کا جنازہ نکال کر۔ بھارتی فوج کے موجودہ آرمی چیف سے پہلے ہمیشہ حکومت سینئر ترین جرنیل کو آرمی چیف بنا دیتی تھی۔ بپن راوت ایک جونیئر جرنیل تھا‘ جسے مودی نے انگوٹھے کے نیچے کام کرنے کا عادی‘ ماٹھا جرنیل جان کر بھارتی فوج کا چیف آف سٹاف بنایا تھا۔ انڈیا کے کئی وکیل اور صحافی کہتے ہیں کہ بپن راوت اُونچا سنتا ہے۔ کچھ اور لوگوں کا کہنا ہے کہ بولتے ہوئے اس کی زبان لڑکھڑا جاتی ہے۔ اگر بپن راوت گھبرا جائے تو وہ کالے کمرے میں فوراً کالی عینک نکال کر پہن لیتا ہے۔
رواں ہفتے، عالمی سطح پر دو عدد وی آئی پی شخصیات کے بیان عالمی ٹھٹھہ اور مذاق بن کر سامنے آئے۔ ایک انڈین آرمی کے سورما بھوپالی کا بیان‘ جبکہ دوسرا امریکہ کے قصرِ صدارت میں مقیم سورما امریکی المعروف جناب ڈونلڈ ٹرمپ صاحب کا بیان۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کو یو این او کی جنرل اسمبلی میں موجود عالمی لیڈروں سے خطاب کرنے کی دعوت دی گئی۔ ٹرمپ صاحب جھومتے ہوئے روسٹرم تک پہنچے۔ فرمانے لگے: میرے نیچے امریکہ کی انتظامیہ نے پچھلے دو سالوں کے عرصے میں ایسے کارنامے سرانجام دئیے ہیں جن کی کوئی مثال کسی دوسرے امریکی صدر کے دور میں نہیں ملتی۔ امریکی صدر یہ بھول گئے کہ وہ کسی الیکشن ریلی سے خطاب نہیں کر رہے‘ بلکہ بین الاقوامی برادری کے لیڈروں والے اکٹھ میں بول رہے ہیں؛ چنانچہ ٹرمپ کے ساتھ وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ اُن کے مزاحیہ ڈائیلاگ سن کر عالمی لیڈر اونچی آواز میں قہقہے لگانے لگے۔ پھر پورا ہال ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہو گیا۔
دوسرے نمبر پر بھارت کے آرمی چیف کی بڑھکیں ہیں‘ جن کا خلاصہ ہے: پاکستانی فوج پر حملے، پاکستان کی سالمیت پر سرجیکل سٹرائیک کے دعوے اور بھارت جنگ کرنے کے لئے تیار ہے۔ 'مودی جی حکم دیں حملہ شروع کر دیں گے‘ جیسی گیدڑ بھبکیاں۔ ایسے میں پورا بھارت سوائے R.S.S سرکاری گروہ کے اس بڑھک بازی کا مذاق اڑا رہا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ سورما بھوپالی کے لا اوبالی اور خیالی حملہ بازی کی جُملہ بازی کے پیچھے کیا ہے۔
بھارت کے اندر سے اٹھنے والی سنجیدہ آوازیں اس کی دو وجوہ بیان کرتی ہیں۔ پہلی وجہ کچھ عرصہ بعد منعقد ہونے والے ریاستی انتخابات ہیں‘ جن کے لئے مودی اور ان کے اتحادی شکست کی توقع کر کے خوف زدہ ہیں۔ اس کی دوسری وجہ مودی کا وہ طرز حکمرانی ہے جس نے سیکولر بھارت کو دنیا کی سب سے زیادہ تشدد پسند ریاست میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس صدی کی ایسی پہلی ریاست جس میں ڈھور ڈنگر ایک شہر سے دوسرے شہر یا ایک گائوں سے دوسرے گائوں ٹرانسپورٹ کرنے والے کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ چشمِ فلک نے جدید دور میں شہریوں کے دروازے توڑ کر ان کے گھروں میں بیف کی برآمدگی کے لئے سرکاری وردی میں ملبوس ریاستی اہلکاروں کے چھاپے‘ مودی کے بھارت کے علاوہ کہیں اور دیکھے نہ سنے ۔ پچھلے 5 سال پاکستان کے اندر مودی کے لئے دوستانہ بلکہ Obliging ماحول تھا۔ بغیر ویزے کے آئو‘ جہاز اتارو‘ لاہور میں گھس جائو‘ مہندی‘ ولیمہ اور کان کی سرگوشیاں انجوائے کرو۔ اس کے مقابلے میں عمران خان نے آتے ہی بھارت کو برابری کی سطح پر با مقصد مذاکرات کا سندیسہ بھیجا۔ ہمارے وزیر اعظم نے کہا: تم دو قدم آگے آئو ہم بھارت سے تعلقات معمول پر لانے کے لئے دس قدم آگے بڑھیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان پر کچھ لوگوں نے بغلیں بجائیں۔ وہ دور کی کوڑی لائے کہ مودی تو مفاہمت چاہتا ہے۔ پاکستان کی فوج حکمرانوں کو بھارت کے ساتھ مفاہمت سے روک دیتی ہے۔ امن کی آشا کا بھانڈا، بھارت کے سورما بھوپالی کے منہ سے شعلوں کی طرح برسنے والی جنگ کی بھاشا نے برسر عام پھوڑ ڈالا۔ ایسے میں جنرل باجوہ کی بجائے عمران خان نے جواب دیا۔ ایک کھلاڑی کی طرف سے‘ جو علم البیان کے جدید ماہرین کی نظر میں زبان و بیان کے ہنر سے نا واقف ہے۔ اس کی ایک ٹویٹ نے مودی کو اڑا کر رکھ دیا۔ بڑے عہدوں پر حادثتاً بیٹھ جانے والے چھوٹے لوگوں والی ٹویٹ۔ اس پر ''جو ہے تو‘‘ والے ایڈہاک وزیر خارجہ نے اسمبلی میں تبصرہ کیا: عمران خان کی خارجہ پالیسی ایک مہینے میں ناکام ہو گئی۔ اس کو بلا تبصرہ چھوڑتا ہوں۔ لیکن ملاحظہ فرمائیں، یہ بات کہہ کون رہا ہے۔ پاکستان کا ایسا سورما بھوپالی جس کی 5 سالہ حکومت نے 4 سال تک سرے سے ملک میں وزیرِ خارجہ لگایا ہی نہیں۔ ان 4 سالوں میں ایک عجیب اتفاق مسلسل برپا ہوتا رہا۔ ادھر پاکستانی سورما بھوپالی کا قائد محترم خطرے میں آیا‘ ادھر بھارت نے ایل او سی پر حملہ کر دیا۔ مغربی بارڈر سے در انداز اندر آ گئے اور بھارتی سورما بھوپالی گرجنے لگے۔ ایسا بھی پہلی بار ہوا کہ پاکستان میں کسی نے جنگ کی ان دھمکیوں کو سنجیدہ لفٹ نہیں کرائی‘ جس کی وجہ قوم کی تاریخی یکجہتی ہے۔ سورما بھوپالی گبھر سنگھ والی فلم شعلے کا تیلا پہلوان سمجھ لیں۔ پوٹھوہار میں ایسے کردار کو ''چھوڑُو‘‘ کہتے ہیں‘ جس کی اندرونی کیفیت دمہ اور مرگی کے مریض کی جیسی ہوتی ہے‘ لیکن زبان درازی کے ذریعے وہ بڑے بڑے سورمائوں کو للکار کر رعب ڈالنا چاہتا ہے۔ کہاں بھوپال کے بانکے اور کہاں جنگ کی بھاشا۔
بھارت سے زیادہ کون جانتا ہے کہ باجوہ ڈاکٹرائن نے کولڈ سٹارٹ وار ڈاکٹرائن کو عالمی سطح پر کان پکڑوا دیے ہیں۔ جو ثبوت دیکھنا چاہے، وہ امریکہ بہادر کی حیرانی ملاحظہ کر لے۔ اس پر بھی تسلی نہ ہو تو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم پر اقوامِ متحدہ کی تازہ رپورٹ کھول لے۔
پاکستان انٹرکانٹیننٹل بیلسٹک ٹیکنالوجی رکھتا ہے۔ 20 کروڑ سرفروش اور اعلیٰ درجے کی ایٹمی صلاحیت۔ ایسی طاقت سے جنگ کا مذاق سورما بھوپالی کے منہ پہ نہیں سجتا۔