ساڑھے 7 ہفتے کی حکومت نے ساری بیالوجی ہی بدل کر رکھ دی۔
گوشت خور درندوں کو انگریزی میں Carnivores کہتے ہیں‘ جن کا سردار شیر کہلاتا ہے۔ بتانے کی ضرورت نہیں شیر 3 قسم ہوتے ہیں۔ وائلڈ یا جنگلی شیر پہلے نمبر پر۔ جنگلے میں بند پالتو شیر دوسرے نمبر پر۔ ان دو کے علاوہ ایک سرکس کا شیر بھی ہوتا ہے‘ جس کا ٹرینر یا ماسٹر اس سے چمڑے کے کوڑے یا چابک کی زبان میں بات کرتا ہے۔ سرکس کے منیجر اس شیر کو کوڑا کم ہی مارتے ہیں‘ کیونکہ یہ شیر چابک کی آواز پر ہی ڈھیر ہو جانے کا عادی ہوتا ہے۔ ادھر کوڑا شائیں کر کے گھوما‘ ادھر شیر میائوں کر کے بھیگی بلی بن گیا‘ لہٰذا کوڑا چلایا تو جاتا ہے لیکن اسے مارنے کی نوبت نہیں آتی۔ کسی کے ایک ہاتھ میں کوڑا ہو اور دوسرے ہاتھ میں ٹھنڈا کر دینے والی شیریں یخ پکڑ رکھی ہو تو شیر آئس کریم کھاتا ہے گوشت نہیں۔ ہاں یاد رکھیے درّی اور افغانی زبانوں میں آئس کریم کو شیریں یخ کہتے ہیں۔
گزرے جمعہ کے دن اکتوبر کی 12 تاریخ تھی۔ اس لیے میڈیا کے پیڈ کنٹینٹ والے یار لوگوں نے نواز شریف کا یومِ انقلاب بنانے کی بھرپور مگر بے مرام سعی کی۔ اس تناظر میں مخصوص اینکرز اور مجبور رپورٹروں کے انقلابی دستے‘ نظریاتی نواز شریف کے نظر نہ آنے والے نظرآتی کارکنوں کے لشکر‘ ملک کے واحد انقلابی جی ہاں! نواز شریف کے جاں نثار کالم کار اور گالم کار‘ لکھ لکھ کر اور بول بول کر تھک گئے۔ جو اہلِ دانش پچھلے 10 برسوں میں دانش وری کی ہنڈا سوک سے اتر کر تجزیہ کاری کی پراڈو‘ وی ایٹ پر چڑھ چکے ہیں‘ بے چارے ہلکان ہوتے رہے بلکہ پریشان‘ اسی لیے واہ سے ٹھاہ کا ہذیان بکتے رہے۔ کچھ نے ارشاد کیا: نواز شریف پھر عوام میں آن پہنچا۔
سرکپ کی سرزمین ٹیکسلا میں 'شہباز شریف کو کیوں کھنگالا‘ کا نعرہ مار دے گا۔ ساتھ چی گویرا کی ٹی شرٹ پہنے گا۔ بینکوں کے قرضوں اور ٹھیکوں کے کمیشن پر پروان چڑھنے والا چی گویرا۔
لیکن 12 اکتوبر کے دن شیر کو کچھ اور ہی منظور تھا‘ یعنی ٹھنڈ پروگرام والی یخ بختہ اور ٹھنڈی ٹھار شیریں یخ۔ کہنے کا مطلب ہے آئس کریم۔
دوسری جانب اسلام آباد کورٹ کمپلیکس میں باغی نواز شریف کے متوالے سمارٹ فونز لے کر آگے بڑھے۔ ان کا خیال تھا‘ آج باغی سب کو داغی کر کے رکھ دے گا‘ تاک تاک کر ایسے گولے داغے گا کہ سیاست کا سرکس پٹاخوں کی دکان میں تبدیل ہو جائے۔ مردِ انکار شہباز شریف کے لیے تحریکِ نجات کا آغاز کر دے گا۔ ایک پھرتی والے رپورٹر نے اُچھل کر سمارٹ فون نواز شریف کے منہ کو جا لگایا۔ پوچھا: آج 12 اکتوبر ہے۔ 12 اکتوبر 1999ء کو مشرف نے آپ کی حکومت کا تختہ اُلٹا۔ آپ کو ہتھکڑی ماری‘ گرفتار کیا۔ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ پوائنٹ بلینک سوال کے جواب میں دارالحکومت کے رپورٹر کہتے ہیں نواز شریف نے سوال کو منہ لگانے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ مشینی انداز میں اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ پھر اپنے ہی کارندے سے پوچھا ''آج موسم کیسا ہے‘‘۔ لاہوری انقلابی کے اس جملے کے کئی مطلب ہیں۔ پہلا یہی کہ شیر آئس کریم کھاتا ہے۔ دوسرا، آئس کریم شیریں یخ ہے۔ تیسرے، انقلاب سری پائے والے ڈیپ فریزر میں بند ہے۔ اور آخری، کلامِ شاعر بہ زبانِ شاعر، یوں ہے:
جیسا موڈ ہو ویسا منظر ہوتا ہے
موسم تو انسان کے اندر ہوتا ہے
یادش بخیر! کوئی دن جاتا تھا شیر اڈیالہ جیل کے اندر گِڑگِڑاتا تھا۔ تب خادمِ اعلیٰ آئس کریم کے پیچھے بھاگم بھاگ دوڑا نظر آتا تھا۔ نا جانے کس کا شعر ہے۔ نامعلوم وجوہات کی بناء پر بر محل یاد آ گیا۔ کالج کے زمانے میں یہ شعر پورا پڑھا جاتا تھا۔ یہاں تصرف نہیں تحریف کے ساتھ پیش ہے:
ہر چند جو دوڑا ہے تو دوڑا ہی رہے گا/قسمت میں ہتھوڑا ہے، ہتھوڑا ہی رہے گا
پھر موسم بدلا، رت گدرائی اور اہلِ جنوں بے باک ہوتے چلے گئے۔ برادرانِ یوسف کے مکان و زماں بدل گئے۔ اندر والا باہر نکل آیا۔ باہر والا اندر ڈال دیا گیا۔ اندر والے نے اپنی تاریخ بدل دی۔ ایک بار بھی نہیں کہا: مجھے کیوں نکالا۔ آپ خود سوچ لیں یہ اتفاق فونڈری والا حسن ہے یا پھر حسنِ انتظام۔ راوی چونکہ ان دنوں چین (براہِ کرم اسے چِین مت پڑھیں) کی بانسری بجا رہا ہے‘ اس لیے خاموش ہے۔ اس خاموشی پر کالج کے زمانے کا ایک اور شعر یاد آ گیا‘ جو بین الکلیاتی مباحثے کے دوران جج (نوٹ کر لیں یہ انصاف والا جج نہیں بلکہ تقریر والے جج کا تذکرہ ہے) کی طرف سے گھنٹی بجانے پر پڑھا جاتا:
خامشی عینِ ترنم ہے سماعت کے لیے
ساز مت چھیڑ کہ لذت کا زیاں ہوتا ہے
کہتے ہیں وقت وقت کی بات ہے‘ اور وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ زمانے کا سبق یہی ہے نہ افراد کی زندگیوں میں‘ نہ ہی قوموں کی زندگی میں۔ وقت بدلنے والی چیز ہے اس لیے بدل کر رہتا ہے۔ حضرتِ انساں تو بدل جانے کے لیے وقت کے بدلنے کا انتظار بھی نہیں فرماتا۔
آئیے، وقت بدلنے کی ایک چھوٹی سی کہانی سنتے ہیں۔ جدید ملکوں کی تازہ تاریخ سے تازہ ترین کہانی۔ اس ملک میں بھی پاکستان کی طرح رومیؒ اور اقبالؒ کی بہت عزت ہے۔ وہاں بھی سیاسی جماعتیں ہیں۔ منتخب حکومت ہے۔ اس کی اپوزیشن بھی ہے۔ تازہ الیکشن میں وہاں شیر کامیاب ہوا‘ لیکن پاکستان اور ترکی میں صرف ایک فرق ہے۔ ترکی کا شیر آئس کریم نہیں کھاتا۔ نہ لندن مے فیئر والے محلے کی‘ نہ لاہور کے پھجے کے پائے والے محلے کی۔ کہانی یہ ہے '' اردوان جب وزیرِ اعظم بنے تو ترکی کے حالات آج کے پاکستان کے حالات سے زیادہ برے تھے۔ ترکی آئی ایم ایف کا 90 ارب ڈالر کا مقروض تھا۔ ترک قومی بینک کے پاس صرف 5 ارب ڈالر زرِمبادلہ رہ گیا تھا۔ مہنگائی کا یہ عالم تھا کہ ترکی میں آلو اور پیاز اپنے وزن سے 2 گنا کرنسی کے عوض بکنے لگے۔ کاروباری لوگ اپنی فیکٹریاں اٹھا کر یورپ اور جرمنی بھاگ نکلے۔ مخالفین اردوان حکومت بننے کے پہلے ہی ہفتے نعرے مار رہے تھے: کدھر ہے تبدیلی‘ کدھر ہے ترقی۔ اگلے 3 سالوں میں ترکی واپس اپنے قدموں پر آ چکا تھا۔ اردوان نے لوٹ مار اور کرپشن ختم کر کے سادگی اپنا کر چھوٹے کاروبار پر فوکس کر لیا۔ ملک سے فرار کاروباریوں کی واپسی کے ساتھ بیرونی سرمایہ کاری بھی آنے لگی۔ 2011ء وہ سال تھا جب ترک حکومت نے آئی ایم ایف کی آخری قسط منہ پر مارتے ہوئے کہا: اب قرضہ چاہیے تو ہم سے لے لینا۔ 2012ء تک ترک سنٹرل بینک کے پاس صرف 26 ارب ڈالر کے ریزرو تھے۔ آج ترک بینک کے پاس 182 ارب ڈالر کے ذخائر ہیں‘ اور ترکی دنیا کی 17ویں بڑی معیشت ہے!‘‘
یہ تو طے ہے کہ ترکی کا شیر آئس کریم نہیں کھاتا۔ نہ فرانس میں شیٹو‘ نہ لندن میں اپارٹمنٹ‘ نہ دبئی میں گھر‘ نہ امریکہ میں پینٹ ہائوس‘ نہ قطر میں فارم ہائوس بناتا ہے۔ اسی لیے ترکی کے شیر کو اور نہ اس کے بچوں کو کبھی کہنا پڑا: لندن میں فلیٹ میرے ہیں ثابت تو کرو۔ ان فلیٹوں میں رہنے والے بچے کالے انگریز نہیں تو انہیں واپس لا کر دکھائو۔
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ زندگی جن کی دوسروں کے مال پر گزرتی ہے‘ اور مال بھی لوٹ کا‘ کہیں دربار کے خوانِ نعمت کے ٹکڑوں کے پروردہ‘ تو کہیں لالچ اور ہوس کی میراتھان کے شرکا۔ جس طرح وہ ٹیکس دینے والے غریب عوام کے چوری شدہ مال سے حصہ وصول کرتے ہیں‘ اسی طرح بے رحم حملہ آوروں کی طرح اپنے ہی ملک کے مستقبل پر ہر روز سرجیکل سٹرائیک کرتے ہیں۔ کہتے ہیں: ایٹم بم کی ضرورت نہیں۔ اتنی بڑی فوج کا کیا کرنا۔ عدالتی نظام بے اعتبار۔ جمہوریت نا ہنجار، حکومت نا پختہ کار۔ ہر روز یہ نتیجہ نکال کر بستر پر جاتے ہیں، خدانخواستہ، ان کی آنکھ کھلنے سے پہلے سب کچھ برباد ہو جائے گا۔
غور کریں ان انقلابیوں نے کبھی قوم کو یہ سادہ باتیں بتائیں۔ آج پاکستان آئی ایم ایف کا 90 ارب ڈالرکا مقروض ہے۔ ایک ڈالر تقریباً 130 روپے کے برابر ہے۔ پچھلی حکومت نے صرف 8 ارب ڈالر کے ذخائر چھوڑے۔ باقی 82 ارب ڈالر کہاں گئے۔ کوئی نہیں جانتا‘ کیونکہ بیمار کو دوا ملی، کسان کو سبسڈی‘ غریب کے بچے کو تعلیم نہ ہی ڈگری ہولڈر کو نوکری‘ تو پھر پوچھنا تو بنتا ہے: 82 ارب ڈالر کس کس ملک میں اور کس کس کے اکائونٹ میں ہیں۔