یہ امریکہ ہے‘ 2017ء کا سال۔ رائٹرز گلڈ ایوارڈ کی تقریب برپا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی فلمیں، کامیاب ڈرامے، سیریل، سوپ، فکشن، ایکشن۔ گُڈ بوائے، بیڈ بوائے تخلیق کرنے والے سینکڑوں قلم کار سامنے بیٹھے ہیں۔ وہ بڑی متانت اور سنجیدگی چہرے پر سجائے اپنی نشست سے اُٹھا۔ آہستہ آہستہ مائیک تک پہنچا۔ اس پر فلمی دنیا کی سپاٹ لائٹ اور سارے کیمرے چھائے ہوئے تھے۔ صحافیوں، لکھاریوں، بلاگرز کی توقعات کے عین غیر مطابق وہ ان لفظوں میں بولنا شروع ہوا:
''مجھے آپ سب نے بھول جانا ہے۔ لیکن میری یہ بھول ہو گی اگر میں آپ کو یاد نہ رکھوں۔ خصوصی طور پر آپ نوجوان مصنفوں اور لکھاریوںکو۔ تم سب اپنی حکومت اور معاشرے پر تنقید کر سکتے ہو لیکن المیہ یہ ہے تم اس میں فٹ نہیں ہو پاتے۔ اب یہ ایک فیشن بن گیا ہے کہ ری پبلکن اور ٹرمپ کی شاٹس لی جائیں‘ لیکن اوبامہ اور کلنٹن کو نظر انداز کر دیا جائے۔ مگر یہ یاد رکھیے گا‘ 13 جنگیں جو ہم نے پچھلے 30 سالوں سے شروع کر رکھی ہیں‘ ان پر ہمارے 14 ٹریلین ڈالر خرچ ہو گئے‘ جس کے نتیجے میں چلتے پھرتے لاکھوں زندہ لوگ اس دنیا سے نابود ہوئے۔ یاد رکھیے گا، اس کے پیچھے محض ایک لیڈر نہیں تھا بلکہ ایک سسٹم تھا۔ دونوں پارٹیاں ری پبلکن اور ڈیموکریٹ۔ آپ جو بھی اسے کہہ لیں۔‘‘ وہ بولتا چلا گیا۔ اس کی ہر بات دل سے نکل رہی تھی۔ سامنے بیٹھے ہوئے سارے دل اس نے اپنی مٹھی میں لے لیے تھے۔ ایک سپیل بائونڈ خاموشی۔ اتنے لوگوں میں اس قدر مکمل خاموشی کہ سانس لینے کی آوازیں سنائی دے رہی تھی۔ جیسے بولنے والے نے سب لوگوں پر اجتماعی ہپناٹزم کر دیا ہو۔ وہ کہہ رہا تھا ''فوجی طاقت۔ معاشی قبضہ۔ صنعتی پیسہ۔ میڈیا یا سکیورٹی تذبذب۔ یہ ایک سسٹم ہے جو کہ ہمیشہ چند لوگوں کے ہاتھ میں ہی رہا۔ صرف یہ جسٹی فائی کرنے کے لیے کہ امریکی جھنڈا ہماری زندگیوں کے اوپر بہت غرور کے ساتھ اُڑتا ہے۔ ہمارا ملک بہت ساروں سے خوشحال ہے۔ لیکن ہم اس دولت کے نام پر اپنے اس سسٹم کا کوئی دفاع نہیں کر سکتے۔ دنیا پر بالا دستی کے لیے بطور مرکز۔ لیکن پھر بھی ہم جاری رکھے ہوئے ہیں ان جنگوں اور چھوٹی جھڑپوں کو دنیا بھر میں۔ یہ کوئی متاثر کن بات نہیں لیکن ہمیں پتا ہونا چاہیے کہ ہم نے دنیا بھر کے 100 سے زیادہ ممالک میں در اندازی کی۔ کہیں بذریعہ جنگ۔ دوسری جگہ قیادت کی تبدیلی کے ذریعے۔ معاشی لڑائیاں یا پھر کسی کی پراکسی وار یا خریدی ہوئی جنگیں۔ سافٹ پاور یا پھر جو بھی اسے کہنا چاہیں آپ کہہ لیں۔ لیکن ہر قسم کی جنگ آخر جنگ ہی ہو گی۔ جو آخر میں ایک سسٹم کے تابع ہے۔‘‘ اس نے چند ثانیے کا ہلکا سا وقفہ لیا۔ لوگوں پر ایک گہری نظر دوڑائی۔ سارے سامعین جیسے جادو کے اثر میں ہر چیز سے بے خبر ہو کر اسے سن رہے تھے۔ اس نے پھر بات شروع کی۔ ''یہ جنگ نہیں موت ہے۔ اس کرّۂ ارضی پر رہنے والوں کی موت۔ ہماری طرف بھی یہی موت گامزن ہے۔ میں زندگی بھر ان لوگوں سے لڑا جو میری زندگی کو جنگ میں دھکیلنے کی مشق کرتے رہے۔ یہ ایک تھکا دینے والا کھیل ہے۔ اور اس کھیل میں زیادہ تر تمہیں یہی کچھ ملتا ہے۔ جیسے کبھی دُبر پر کِک لگ گئی۔ کبھی ہر طرف سے تنقید اور بے عزتی اور کہیں سے چاپلوسی بھی۔‘‘ اچانک اس کا لہجہ مزید مستحکم ہو گیا۔ اس نے ہجوم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں‘ بولا ''یہ بہت اہم بات یاد رکھنا۔ اگر تم اس پر یقین رکھتے ہو جو تم کہہ رہے ہو اور پھر اس پر قائم بھی ہو۔ تو تم ایک واضح فرق ڈال سکتے ہو۔ میں تمہیں تاکید کرنا چاہتا ہوں۔ راستے تلاش کرتے رہنا۔ اکیلے ہو تو اپنی خاموشی کی آواز سنو۔ ہمیشہ کی طرح مصنف کے کمرے تک محدود مت رہو۔ اس کو ہرگز تلاش نہ کرو جس کو ایک بھیڑ نے پسند کر لیا‘ اور تم کامیاب ہو جائو گے۔ اصل میں تو ایک ہی سوال ہے جس کا جواب تلاش کرتے رہنا ہر دم ضروری ہو گا۔ اور وہ یہ کہ ایک ہی کرّۂ زمین پر ہم سب کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ کبھی کسی سے ہار مت مانو۔ تب بھی جب تمہیں دکھ پہنچے۔ صرف امن کے راستے کے لیے کوشش کرتے رہنا۔ سچ بتانے کے لیے بھی، امن کا راستہ کیونکہ یہی انسانی تہذیب کی نمو کا راستہ ہے۔‘‘
دوسری جانب آئیے ذرا اپنے گھر کی خبر لیں۔ ہم ملکی حالات پر بولیں تو مایوسی کے پیامبر کی آواز سنائی دیتی ہے۔ معیشت پر یوں تبصرہ جیسے ہم افغانستان اور اریٹیریا سے بھی گئے گزرے ہیں۔ نوجوان نسل اور خاص طور پر قومی درس گاہوں کے بارے میں ایک ہی خبر شہ سرخی بنتی ہے: تعلیمی اداروں میں منشیات چھا گئیں۔ ہر مکرر اور خطیب اپنا اپنا منجن بیچتا ہے۔ کوئی مشترکہ امید۔ کوئی کامن آرزو۔ ذرا سا اپنے آپ، اپنے شکم، ذاتی مطلب اور شخصی مفادات سے اوپر اُٹھ کر گونجنے والی آواز، ہمیں اجنبی لگتی ہے۔ میں خود تو نہیں دیکھ سکا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکلا حضرات کا کہنا تھا کہ ٹی سکرینوں پر قومی خود داری کا سب سے بڑا نقیب دونوں ہاتھ باندھ کر نصف رکوع کی حالت میں عہدِ حاضر میں کرپشن کے اسیرِ اعلیٰ کا بھاشن سنتے ہوئے پکڑا گیا۔
1950ء کی دہائی میں ایک بین الاقوامی بینک کے کارندے پاکستان آئے۔ ویسے 3 دفعہ کابینہ کا رکن رہنے اور پاکستان کے موجودہ سسٹم کو اندر باہر سے دیکھنے والے چشم دید گواہ کی حیثیت سے ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں‘ پاکستان میں اس بینک کے کارندے اعلیٰ ترین عہدوں پر پاکستان سے تنخواہ وصولتے ہیں۔ 1958ء میں اسی بینک یعنی عالمی مالیاتی فنڈ نے پہلی بار پاکستان کو قرضہ د یا تھا۔ تب سے اب تک 60 سال ہو گئے‘ ہمیں قرض لیتے ہوئے۔ بقول غالب:
قرض کی پیتے تھے مئے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
اس دن نے بظاہر آنے میں 6 عشرے لیے لیکن اسے جیٹ سپیڈ پچھلے 10 سال کے دوران لگی۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے‘ پہلے آئی ایم ایف کے ملازم سسٹم میں پائے جاتے تھے۔ ان دس سالوں میں سسٹم آئی ایم ایف کی ملازمت میں چلا گیا۔ بقول جالب:
قرض سے ملک بھی چلے ہیں کبھی
زندہ قوموں کا یہ شعار نہیں
اک نظر اپنی زندگی پر ڈال
اک نظر اپنے اردلی پر ڈال
ہماری حکمران اشرافیہ نے آئی ایم ایف کی ملازمت سے ترقی کر کے اس کی اردل شروع کر دی۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ جونہی حکومتی سسٹم بننے یا بگڑنے پہ آتا ہے‘ آئی ایم ایف ہمارے ووٹروں سے بھی پہلے ہمارے لیے وزیرِ خزانہ چن لیتا ہے۔ یقین نہ ہو تو اکنامک ہِٹ مین پڑھ لیں۔
وکالت نامے کے آغاز میں امریکن رائٹرز گلڈ ایوارڈ کے تازہ مکرر‘ جو مصنف اور فلم میکر بھی ہیں‘ یہی تو کہہ رہے تھے ''معاشی قبضہ، صنعتی پیسہ، میڈیا یا سکیورٹی تذبذب‘‘۔ اور سچ کہہ رہے تھے۔ آج پاکستان کے سسٹم میں متبادل معیشت بن چکی ہے۔ بے نامی اکائونٹس، منی لانڈرنگ، کرپشن مافیا اور حکمرانوں کی امیج بلڈنگ کے لیے بنائی گئی کمپنیاں۔ ان کمپنیوں سے کلائنٹ کے حق میں اور کبھی کبھی کلائنٹ کے نام سے کالم، اشعار کے ٹوئٹ اور بھڑکتی ہوئی سرخیاں اور پھڑکتے ہوئے سوشل میڈیا پیغامات جاری ہوتے ہیں۔ کرپشن کے اس سسٹم کی گھاس کھانے کے بعد ایسی کئی مقدس ہستیاں بھرپور میک اپ کے ساتھ پرائم ٹائم کے ہیرو اور ہیروئنیں‘ بن جاتے ہیں۔
oliver stone کے یہ الفاظ ایک بار پھر پڑھیے:
''اس کھیل میں زیادہ تر تمہیںدُبر پر کِک لگے گی۔ کبھی تنقید اور بے عزتی ہو گی۔ کہیں سے چاپلوسی بھی۔ تم واضح فرق ڈال سکتے ہو۔ راستہ تلاش کرتے رہنا۔ اسے ہرگز تلاش نہ کرنا جسے بھیڑ نے پسند کیا اور تم کامیاب ہوئے۔‘‘
نظامِ پادشاہی، عالمی مشترکہ منڈی اور بین البرِاعظمی منی لانڈرنگ مافیا کے خلاف جنگ کے عشق کے زخم خوردہ یاد رکھیں:
یہ تو اچھا ہوا زخمی ہی ہوئے
عشق میں جان چلی جاتی ہے