بنی گالا سوموٹو کیس کے ایک حصے کی سماعت مکمل ہوئی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب‘ جسٹس اعجاز الاحسن صاحب اور جسٹس سجاد علی شاہ صاحب پر مشتمل بینچ کے روبرو طے یہ ہوا کہ فیصلہ جناب جسٹس اعجاز الاحسن صاحب تحریر کریں گے۔
ساتھ مجھ سمیت فریقین کے وکلا کو ضرورت پڑنے پر معاونت کے لیے پھر سے طلب کرنے کا حکم بھی دیا گیا۔ اس وقت صبح کے تقریباً ساڑھے دس بجے تھے۔ ایک دن پہلے سے وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ میٹنگ طے تھی‘ لہٰذا میں بینچ نمبر ایک سے نکل کر سپریم کورٹ بلڈنگ کی جنوبی دیوار سے جڑی ہوئی وزیر اعظم سیکرٹریٹ کی عمارت میں پہنچ گیا۔ دوسرے مقدمات میں پیشی، بحث اور مصروفیات کی وجہ سے رات 9 بجے خبریں دیکھنے کا موقع ملا۔ ٹی وی آن کیا تو دل دہل کر رہ گیا۔ ہیڈ لائنز میں سپریم کورٹ سے منسوب وہ خیالی لائنیں چل رہی تھیں‘ جو بنی گالا کیس کی سماعت کے دوران سرے سے بولی ہی نہیں گئی تھیں۔ ایسے لگا جیسے سٹوری رائٹر نے گھر بیٹھ کر کسی کی خواہش یا پھر اپنی ضرورت کو خبر بنا کر جاری کر دیا ہے۔ پھر خیال آیا شاید میری غیر موجودگی میں یہ کیس دوبارہ بلایا گیا ہو۔ اس بات کی تصدیق عبداللہ سے چاہی‘ کیونکہ جتنی دیر میں وزیر اعظم سے ملنے گیا‘ اس دوران عبداللہ اور دوسرے سٹافر سپریم کورٹ کے بینچ نمبر1 میں ہی موجود رہے۔ وہاں سے جواب نفی میں ملا اور میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اس قدر دلیری اور بے باکی سے فیک نیوز کی تخلیق اور پیش کاری پر سر نہ پیٹا جائے تو سر پکڑ کر بیٹھ جانا کم از کم ری ایکشن اور قدرتی امر ہے۔ اگلی صبح عدالت عظمیٰ نے اس فیک نیوز کا نوٹس لے لیا۔
اس سے چند ہفتے پہلے ایک پرانی ویب سائٹ پر متروک سٹوری کو بریکنگ بنا کر ایک اور جگہ سے چلا دیا گیا۔ صحافتی بد دیانتی کا شاہکار یہ ٹیبل سٹوری چونکہ میرا نام بھی لیے ہوئے تھی‘ اس لیے میں نے پتا کرایا۔ حقائق یہ نکلے کہ سٹوری رائٹر شام ڈھلے ڈنر کے لیے ایک ہی سابق وزیر کے گھر جاتا ہے۔ سٹوری رائٹر نے سردیوں میں اپنی مٹھی تو گرم کر لی‘ لیکن ادارے کی کریڈیبلٹی کا ککھ نہ چھوڑا۔ کوئی دن تھے‘ ایسی خبر چھاپنے والے کی سرزنش ہوتی اور گاہے گوشمالی بھی۔ اب فیک نیوز چلانے والے کو یہ بتایا جاتا ہے کہ جناب آپ نے نشانے پر گولہ مارا ہے۔ آپ کی شکایت آئی تھی۔ اور ساتھ فیک نیوز کی شکایت کرنے والے کا نام و پتہ بھی بتا دیا جاتا ہے۔ کچھ ہفتے پہلے فرسٹ فیملی کے حوالے سے ایسی ہی فیک نیوز گردش میں آئی جس کی تحقیق ہوئی اور الیکٹرانک کرائم سے متعلقہ اداروں نے جیوفینسنگ کے ذریعے سب پتہ چلا لیا۔ فیک نیوز کس نے گھڑی تھی۔ کسے فارورڈ کی، کس نے فیک نیوز کو پھلایا‘ اور کون کون فیک نیوز کی ''ٹرولنگ‘‘ میں ملوث پائے گئے۔ فیک نیوز قابلِ دست اندازیٔ پولیس جرم ہونے کے باوجود ایسا وی آئی پی کرائم ہے‘ جس پر ابھی تک کوئی مقدمہ درج نہیں ہو سکا۔ یہ بھی کوئی بتانے والی بات ہے کہ جہاں ثبوت موجود ہونے کے باوجود مقدمہ درج نہ ہو‘ ملزم یا اس کے گینگ کے اثرورسوخ کے علاوہ بھی اس کی کوئی وجہ ہو سکتی ہے۔
ہمارے ہاں جمہوریت کا برطانوی منترا پڑھنے والے مرڈوک کو بھول جاتے ہیں‘ جس نے فیک نیوز چلائی اور اس کا عشروں پرانا میڈیا پاور ہائوس نیلام ہو گیا۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی ایک ایسا قومی ادارہ ہو جو فیک نیوز کے شر سے محفوظ رہا ہو۔ اب تو فیک نیوز ہی ایک ایسا فن بچا ہے جس پر الفت کے نام لکھا گیا یہ شعر صادق آتا ہے:
گلی گلی تری یاد بچھی ہے
پیارے رستہ دیکھ کے چل
فیک نیوز کی انڈسٹری میں منافع ہی منافع ہے۔ ایک دن فیک نیوز چلائی‘ اگلے دن فیک نیوز سے یوٹرن لے لیا۔ فیک نیوز کے بریکنگ نیوز، سپر لیڈ، خبرنامہ، مین لیڈ، چَیٹ شو المعروف ٹاک شو، سوشل، الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا کے خاص حصوں میں خاص کاری گر اس کا طوفانی سواگت کرتے ہیں۔ لیکن جونہی کسی بڑے کا ہاتھ پڑے پہلے سے ٹائپ شدہ معافی نامہ کاپی کرا کے غیر مشروط طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ہاں البتہ جس کے خلاف چیختی ہوئی فرنٹ پیج فیک نیوز آ جائے وہاں صحافتی اخلاقیات اور اقدار قلاش‘ تہی دامن نظر آتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں ازالہ حیثیت عرفی کا قانون (DEFAMATION ORIDINACE 2OO2) موجود ہے‘ جس میں فیک نیوز کے حوالے سے دفعہ 9 خاصی مؤثر ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے آئیے اس پر ایک نظر ڈال لیں۔
9. Remedies.- Where defamation shall be proved to have occurred, the Court may pass order directing the defendant to tender an apology, if acceptable to the plaintiff, and publish the same in similar manner and with the same prominence as the defamatory statement made and pay reasonable compensatory damages as general damages with a minimum of Rs.50,000/- (Rupees fifty thousands) and in addition thereto, any
special damage incurred that is proved by the plaintiff to the satisfaction of the Court[:Provided that in case of the originator the minimum compensatory damages as general damages shall be three hundred thousand rupees.]
اس قانون میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ جس کسی کے خلاف فیک نیوز جاری ہو اس کا ازالہ عین اسی جگہ اتنی ہی بڑی تردیدی خبر اسی طریقے سے چھاپ کر کیا جائے۔ لیکن دل پر ہاتھ رکھئے۔ ارد گرد نگاہ ڈالیے ۔ پہلے صفحے کی سپر لیڈ، لیڈ اور مین لیڈ کتنے لفظوں میں چھپتی ہے‘ اور کس شان سے۔ لیکن جب فیک نیوز چھاپی جاتی ہے تو اس پر معذرت یا وضاحت گول مول، بے معنی، لا یعنی اور کنفیوژن کو بڑھاوا دینے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ مذکورہ بالا کیس میں سپریم کورٹ نے ایسا ہی Observe کیا۔ کہا کہ ایک طرف اداروں کو لڑانے کی خبر چھاپی گئی۔ دوسری جانب اس کی وضاحت ایسی کہ جس سے کچھ بھی واضح نہیں ہوتا۔ یہاں سوال یہ ہے وہ اخلاقی جرأت جس کے لیے یار لوگ چھاتی اور ران پر ہاتھ مار مار کر دوسروں کو آمادہ کرتے ہیں‘ خود اپنی باری آئے تو وہ شرماتے کس لیے ہیں۔ غلطی ماننے والا بڑا آدمی ہوتا ہے۔ بڑے دل اور بڑے جگرے والا۔ ساتھ دوسری صورت میں چھوٹاپا سا چھوٹاپا ہے۔ اور خود پسندی سی خود پسندی۔چھوٹاپے اور اپنی ذات کے عشق کو کسی پیمانے پر بھی اعلیٰ انسانی وصف کوئی نہیں کہے گا۔
25/30 سال پہلے لیاقت باغ پنڈی کے لاری اڈے سے شکر گڑھ جانے والی بس ڈرائیور کی غفلت اور بے احتیاطی کی وجہ سے دریائے سواں میں جا گری۔ 56 بے گناہ مسافر مارے گئے‘ جس پر پورا ملک چیخ اٹھا۔ قتلِ خطاء کے جرم کو PPC میں ناقابلِ ضمانت کر دیا گیا۔ اگلے چند روز پورے ملک کے ڈرائیور اورکنڈیکٹر ہڑتال پر چلے گئے۔ جس کا سیدھا مطلب ایک ہی نکلتا تھا: بندے مارنا رک نہیں سکتا، اس لیے جرم کو قابلِ ضمانت رکھو۔ دوسری جانب سماج کا بظاہر پڑھا لکھا طبقہ جو اچھائی کا پرچارک بنتے نہیں تھکتا‘ وہ ڈرائیور فیڈریشن اور کنڈیکٹر یونین سے بھی اسفل کیوں ہے۔ ہر ایکسیڈنٹ پر ڈرائیور، کنڈیکٹر کے خلاف پرچار ہوتا ہے۔ ایکسیڈنٹ کے زخم مندمل ہو کر بھر سکتے ہیں‘ لیکن فیک نیوز سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر تاحیات پڑی رہے گی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیک نیوز پہ تازہ معافی نامہ قبول کرتے وقت تین اہم ریمارکس دیئے۔ پہلا‘ دور بدل گیا۔ تم بھی بدلنا سیکھو۔ تبدیل شدہ وقت میں رویے تبدیل کر دو۔ دوسرا‘ تصدیق کے بغیر ملک کی سب سے بڑی عدالت کی رپورٹنگ پر فیک نیوز اور آئی ایم سوری‘ یہ کیسا طرز عمل ہے۔ اور تیسری بات‘ معافی ایک طرف فیک نیوز سے ہونے والے نقصان کی تلافی کیونکر...!