بعض دن، مقام اور لمحے بھولنا چاہیں تو بھی ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ انہی میں سے ایک تھا جو لمحہ حافظے اور تاریخ پر نقش ہوگیا۔
لائٹر نوٹ پر اسے، اس انگریزی محاورے کے حوالے سے بھی بھولنا ممکن نہیں: AT A WRONG PLACE, AT A WRONG TIME یعنی غلط وقت میں کسی غلط جگہ پر موجود ہونا۔ میرے ساتھ تب پنجاب اسمبلی میں سینئر وزیر راجہ ریاض اور گریٹر لاہور کے 2 عہدے دار بھی موجود تھے۔ مقام تھا رائے ونڈ والا جاتی امرا‘ جب کہ میزبانی کی نشست پر براجمان ہوئے تب تک ملک کے 2 دفعہ وزیر اعظم رہنے والے مہان گُرو۔ میزبان کی ایک سائیڈ پہ لگی ٹی وی سکرین پر اچانک بمبئی حملوں کی تصویری جھلکیاں‘ تاج ہوٹل کا دھواں‘ چنگھاڑتی ہوئی سرخیاں اور چیختے ہوئے نیوز کاسٹرز دکھائی دینے لگے۔ پھر خاص بھارتی حلیے والے ایک جواں سال شخص کا انٹرویو چلنا شروع ہوا۔ میرے میزبان نے پورے اعتماد سے پنجابی زبان میں کہا ''ایہہ ساڈے والی پنجابی بول رہیا جے‘‘ (اس نشست کی باقی تفصیل وکالت نامہ اور اختلافی نوٹ کے ریکارڈ سے دیکھی جا سکتی ہے)۔ میں ساتھیوں سمیت حیرانی کے سمندر میں ڈوبا ہوا باہر نکلا اور ساہیوال کی طرف روانہ ہو گیا۔
چند گھنٹو ں میں بھارت نے اجمل قصاب کے نام کو پاکستان سے نتھی کر کے رکھ دیا۔ 24 گھنٹوں کے اندر اندر مہان گُرو کے ہم خیال جانبازوں نے پاکستان کے پنجاب میں اجمل قصاب کا گھر بھی تعمیر کر دکھایا۔ ساتھ یہ دعویٰ بھی داغ دیا کہ اس کی فیملی کے باقی لوگ گھر سے غائب ہیں۔ پھر سکرپٹ کا سٹوری بورڈ آگے بڑھتا ہے؛ چنانچہ دو تین مہمان اداکار بلا لیے گئے‘ جنہوں نے آتے ہی اجمل قصاب کی پاکستانی شہریت (CITIZENSHIP) پر مہرِ تصدیق ثبت کر کے رکھ دی۔ امن کی آشا 'رام بھلی کرے گا‘ کی راہ پر سرپٹ دوڑ پڑی۔ چند دن کے اندر اندر بمبئی حملوں کو نائن الیون ٹو بنا کر پیش کیا جانے لگا‘ جس کی پلاننگ اور اجمل قصاب‘ دونوں واہگہ بارڈر کی اِس جانب دھکیل دیے گئے۔ مادرِ وطن سے لاکھوں کمانے اور کروڑوں کھانے والے وصولی لشکر بھارتی بیانیے کی مزدوری پر جُت گئے‘ جس کا ہدف وہی ریاست بنی رہی جہاں سے انڈین بیانیے کے امپورٹرز/ جنرل آرڈر سپلائرز لاکھوں کماتے اور کروڑوں کھاتے آئے ہیں۔
وہ جو کہتے ہیں ناں کہ سچ کو آنچ نہیں۔ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے، یہ سچ ثابت ہو گیا۔ بھارت کی پرائم سکیورٹی ایجنسی نے ہٹے کٹے اجمل قصاب کو ہسپتالی بستر پر لٹا کر اس کے تفتیشی انٹرویو کی ویڈیو ریکارڈنگ عالمی میڈیا کے نام جاری کر دی۔ بھارتیC.B.I اور RAW کی رام بھلی کرے۔ ان کی مشترکہ پیش کش، انٹرویو کلپ کے آخر میں پاکستانی مسلمان اور آتنک وادی ہونے کی ایکٹنگ کرنے والے اجمل قصاب سے تفتیش کار نے یوں آخری سوال پوچھا ''کیا تم اپنے کیے پر شرمندہ ہو۔ اتنے بے گناہ لوگ مار ڈالے؟‘‘ اجمل قصاب نے جواب دیا ''ہائے رام یہ میں نے کیا کر دیا‘‘۔
اجمل قصاب کی تفتیش کا یہ کلپ دیکھ کر مسلم تو کیا غیر مسلم دنیا بھی حیران رہ گئی۔ یہ کیسا جہادی لشکری ہے جو عام شہریوں پر حملہ کرنے کے گناہ کی معافی اپنے رحیم سے نہیں ہندوئوںکے رام سے مانگ رہا ہے۔ تب سے اب تک اجمل قصاب کے پاکستانی ہونے والی کہانی جھوٹوں کی نانی بن چُکی ہے۔ اس کا تازہ ترین ثبوت اس کے اندر سے ہی برآمد ہو گیا۔ تب، جب کرما یہ ہوا کہ اجمل قصاب کے بھارتی شہری ہونے کا ڈومیسائل سرٹیفکیٹ سوشل میڈیا کے ہاتھ لگ گیا۔ کاش اس حوالے سے کوئی پاکستان میں قانون ہوتا جس کے تحت کٹہرا سجایا جاتا۔ اجمل قصاب کو پاکستانی کہنے والے اس میں کھڑے کیے جاتے اور انہیں پاکستان کے خلاف اُگلا ہوا زہر چاٹنے کا حکم جاری کرنے والی عدالت لگتی۔
''بھارت سرکار کی جانب سے جاری کردہ اس ڈومیسائل کے مطابق اجمل قصاب کا تعلق یو پی کی تحصیل بھڈونا سے تھا۔ اجمل قصاب کے والد کا نام محمد عامر اور ماں کا نام ممتاز بیگم درج ہے‘‘۔ پس ثابت ہوا، 100 فیصد ویسے ہی جیسے اصلی والے گم شدہ افراد کی تازہ رونمائی کہ اجمل قصاب ہمارے والی پنجابی بول رہا تھا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ میکنزی کون ہے‘ کرتی کیا ہے اور کس دیش کی باسی ہے‘ جس بے چاری کا ذکر اجمل قصاب کو پاکستانی ثابت کرنے کے لیے اٹھائی گئی دھول میں غائب ہو کر رہ گیا؟ میکنزی امریکی انگریزی بولتی اور لکھتی ہے۔ اوپر سے یو ایس اے کا چوغا ڈال کر اندر سے بھارتی۔ میکنزی کا اوڑھنا بچھونا اِن سائیڈر ٹریڈنگ ہے۔ میکنزی چارلی چپلن کے ساتھ ساتھ شہباز سپیڈ سے بھی متاثر تھی۔ اس لیے اس پر بڑی سپیڈ سے پنجاب انڈسٹریل میپنگ کی نظر پڑ گئی۔ میکنزی کے رانجھے کے قیدو نے مخبری کی ہے کہ اس امریکن فرم کی ساری HIERARCHY انڈین تھی۔ رجت گُپتا، انیل کمار، رائے رجت ناتھ وغیرہ۔ اس میکنزی اینڈ کمپنی کو پنجاب سی پیک کے حوالے سے کنٹریکٹ دیا گیا۔یہ کنسل ٹینسی فرم تھی جس کی اداؤں کے اسیر پنجاب کے اسیرِ اعلی نے اپنے رولز کو ریلیکس کر دیا‘ جن میں قانون پابندی لگاتا تھا کہ ایسا کنٹریکٹ صرف اوپن بِڈنگ کے ذریعے دیا جائے گا۔ جولائی 2017 میں ریلیکس شدہ رولز کے تحت شہباز پیڈ نے جیٹ سپیڈ لگائی‘ اور بڑی جلد بازی سے ٹاپ سیکریسی کے تحت میکنزی اینڈ کمپنی کو 7 لاکھ امریکن ڈالرز کا یہ ٹھیکہ دے ڈالا۔ اس سپیڈ کا بھانڈا تب پھوٹا جب رولز ریلیکشن اینڈ کنسلٹینسی والی یہ فائل رپورٹ شدہ حقائق کے مطابق لے کر شہباز سپیڈ کا ایک ہرکارہ آڈیٹر جنرل پنجاب کے دفتر پہنچا۔ رات کا یہ راہی سندیسہ لے کر گیا کہ فائل او کے کروا کے فوراً واپس دے کر جانی ہے۔ رات کی اس واردات نے آڈیٹر جنرل آفس کو چونکا دیا۔ انھوں نے پروسیجر اور ٹھیکے والی فائل طلب کر لی‘ جہاں بِڈنگ والے رولز پامال کرنے کا ثبوت مل گیا۔ اس پر اعتراض لگا کہ انڈین لابی پر مبنی میکنزی اینڈ کمپنی کو سی پیک سے متعلقہ کنسلٹینسی کیسے دے دی گئی؟
آج کل وصولی برگیڈ والے عمران خان کی حکومت پر دن رات زور لگا رہے ہیں کہ چین سے ہمیں کیا ملا۔ پاکستان اور چین کے درمیان کیا معاملات طے ہوئے۔ Theory of Ajmal Qasab کے تسلسل میں ٹرمپ بہادر بھی یہی جاننا چاہتا ہے۔ ارے ہاں یاد آیا‘ اس ہفتے IMF کا جو وفد پاکستان میں تھا‘ وہ پاکستانی حکام سے ایک ہی تکرار کرتا رہا۔ یہی کہ بتا دو ناں پاک چائنہ ڈیل کی تفصیل کیا ہے۔
کس کا اجمل، کہاں کا قصاب اور کس دیش کی میکنزی اینڈ کمپنی؟؟؟ کوئی اور بھی ثبوت چاہیے یا نام ہی کافی ہے۔
اے وطن! کیسے یہ دھبے در و دیوار پہ ہیں
کِس شقی کے یہ طمانچے تیرے رخسار پہ ہیں
بھارت سرکار کی جانب سے جاری کردہ اس ڈومیسائل کے مطابق اجمل قصاب کا تعلق یو پی کی تحصیل بھڈونا سے تھا۔ اجمل قصاب کے والد کا نام محمد عامر اور ماں کا نام ممتاز بیگم درج ہے۔ پس ثابت ہوا، 100 فیصد ویسے ہی جیسے اصلی والے گم شدہ افراد کی تازہ رونمائی کہ اجمل قصاب ہمارے والی پنجابی بول رہا تھا۔