"SBA" (space) message & send to 7575

میں مدینے میں ہوں … (4)

الشیخ عبدالرحمن کعکی کمال کے آ دمی ہیں‘ بلکہ مدینۃالنبیﷺ میں ایک ادارہ۔
کعک یا خُبز عربی زبان میں روٹی اور بیکری کی مختلف آئٹمز کو کہا جاتا ہے‘ جن میں سب سے نفیس کیک ہے‘ جسے عربی میں کعک کہتے ہیں۔ عبدالرحمن کعکی ویسا ہی نام ہے‘ جیسا ہمارے ہاں فلاں جاپان والا‘ ٹین والا‘ ٹوکری والا جیسے نام موجود ہیں۔ مدینہ شریف کے ارد گرد 2 رِنگ روڈز کا دائرہ ہے۔ باہر والی رنگ روڈ پر اُحد پہاڑ کی جانب شیخ عبدالرحمن صاحب نے ذاتی میوزیم بنایا ہوا ہے‘ جہاں قرآنِ حکیم کے نادر نسخے‘ عام الفیل میں کعبہ پر ابراہہ کی چڑھائی۔ مختلف غزوات اور جنگوں کی تاریخ۔ رسولِ اکرم ؐ کا خیمہ مبارک۔ غزوہ احزاب کا وہ پتھر جسے آپؐ کے صحابی توڑنے کی کوشش میں نڈھال ہو گئے‘ اور پھر معجزاتی طور پر رسولِ محترم ؐ نے‘ جن کے شکّم مبارک پر پتھر بندھے ہوئے تھے‘ سخت ترین پتھر توڑ دیا۔ اس میوزیم یا متحف میں داخلے کے لیے پائوں پر پلاسٹک کے پاپوش چڑھائے جاتے ہیں۔ جن زائرین کے ساتھ عرب میزبان نہ ہوں‘ انہیں مختلف زبانوں کے ٹرانسلیٹر بھی مہیا ہیں۔ ہمیں یہاں شیخ عادل مدنی‘ شیخ اسلم کی ہمراہی میں لے کر گئے۔ میوزیم کے باہر اس بڑی عمارت کے دالان میں پُرانے مدینہ شریف کی مسجدوں‘ طرزِ زندگی اور تمدن کے قدیم ماڈل رکھے ہیں‘ جن کے ذریعے مکے اور مدینے کی قدیم تاریخ‘ بعثتِ رسولؐ کے اعلان سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے عاد و ثمود کے زمانے کے آثار بھی محفوظ کیے گئے ہیں۔ ان متبرکات کی زیارت بذاتِ خود ایک چشم کشاء اور دل کشاء روحانی واردات ہے‘ جس کا تجربہ ہمیں عمرے کی ادائیگی کے بعد مدینہ شریف واپسی پر نصیب ہوا۔
قریباً 100 سال پہلے آلِ سعود اور آلِ شیخ کے زیرِ انتظام بڑے پیمانے پر آثار معدوم کر دیے گئے تھے۔ لیکن اہلِ مدینہ بالعموم اور خاص طور پر اشرافِ مدینہ کی دو نسلوں نے ہر مقام اپنے ذہن اور سینے میں محفوظ کر رکھا ہے۔ ایسا ہی ایک عالی مرتبت محلہ ''العوالی‘‘ کہلاتا ہے‘ جہاں خوش قسمتی سے ہمارا جانا عشاء کے بعد ہوا۔ مصر کی ایک شہزادی اُم المومنین سیدہ حضرت ماریہ قبطیہ سلام اللہ علیہا کا گھر اس محلے کی ایک کارنر پر ہے۔ اُم المومنین حضرت سیدہ خدیجۃالکبریٰ سلام اللہ علیہا کے بعد نبیِ آخرالزمان حضرت محمدﷺ کی اولاد اُم المومنین سیدہ حضرت ماریہ قبطیہ سلام اللہ علیہا سے ہے۔ آپﷺ کے فرزند حضرت ابراہیمؓ اُم المومنین سیدہ حضرت ماریہ قبطیہ سلام اللہ علیہا میں سے ہیں‘ جن کی مرقدِ منورہ جنت البقیع کے صدر دروازے میں داخل ہونے کے بعد بائیں جانب واقع ہے‘ جس کے ساتھ پتھروں کا ہلکا سا چبوترا حضرت ابراہیمؓ کی مرقدِ منورہ کو نمایاں کرتا ہے۔ اِسی صدر دروازے میں داخلے کے فوراً بعد‘ دائیں طرف‘ چند قدم کے فاصلے پر جنت کی خواتین کی سردار آپؐ کی صاحبزادی سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی متبرک مرقدِ مبارکہ موجود ہے‘ جہاں ادب کی وجہ سے ہمیشہ فاصلے پر کھڑے ہو کر حاضری دی۔
محلہ العوالی میں اُم المومنین سیدہ حضرت ماریہ قبطیہ سلام اللہ علیہا کے گھر کا صحن موجود ہے‘ جس کی ایک طرف اہلِ تشیع کے لیے مخصوص قبرستان کی اونچی دیوار ہے۔ اسی قبرستان میں واقع زیارت گاہ میں 3 پیالے اور آٹا پیسنے والی دستی چکی بھی رکھی گئی ہے۔ یہ چکی خاتونِ جنت حضرت سیدہ فاطمۃالزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے زیرِ تصرف رہی۔ جبکہ ایک پیالہ نبیِ محترمﷺ‘ دوسرا سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہُ اور تیسرا پیالہ سیدہ فاطمۃالزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے استعمال سے منسوب ہے۔ مدینے کی گلیوں میں سے شاہراہِ العوالی ایک اور اعتبار سے ساری دنیا میں مشہور ہے۔ اس محلے میں اُم المومنین سیدہ حضرت ماریہ قبطیہ سلام اللہ علیہا کی رہائش گاہ پر حضور محترم رسولِ خداﷺ تشریف لاتے اور قیام فرمایا کرتے۔ اسی جگہ آپ ؐ نے اپنے دست مبارک سے عجوہ کھجور کے پودے لگائے تھے۔ یوں تو عجوہ قصیم اور ینبُع سمیت مدینے کے ارد گرد کی وادیوں میں کثرت سے لگی ہوئی ہے‘ لیکن العوالی کی عجوہ کھجور‘ کھجوروں میں سے سب سے ارفع و اعلیٰ سمجھی جاتی ہے‘ جسے عرب دنیا میں عجوہ العالیہ رقم اول کا نام دیا گیا ہے۔ مسجدالاجابہ مدینہ شریف کے وسط میں واقع ہے۔ مسجدِ نبویؐ سے صرف چند فرلانگ کے فاصلے پہ۔ یہاں رسولِ محترم ؐ نے عید کی نماز ادا فرمائی۔ حرمِ نبوی کے بعض زائرین یہاں بھی اہتمام سے حاضری دیتے ہیں‘ جس کا سبب یہ ہے کہ نبی پاکؐ اور سیدنا علی ؓیہاں اکٹھے تھے‘ جب آپ ؐ نے اپنی امت کے لیے تین دعائیں فرمائیں۔ دعائوں کے قبولیت کی نسبت سے اس مسجد کا نام اجابہ پڑ گیا۔ 
مدینے میں ہمارا اگلا دن شروع ہوا ‘تو حرم شریف سے شیخ عادل خلیل ہمیں بیتِ رضوان کا مقام دکھانے کے لیے لے گئے۔ یہاں آج کل چھوٹی سی مارکیٹ بن گئی ہے۔ مِیک شفٹ نما۔ راستے میں ایک جگہ بہت بڑی بلڈنگ زیرِ تعمیر نظر آئی‘ جس پر عربی اور انگریزی زبانوں میں پراجیکٹ کے مالک کے نام کا بورڈ یوں لگا ہے ''اس بلڈنگ کے مالک ہیں عثمان بن عفانؓ ‘ مجھے اس نوٹس بورڈ کی تفصیل جاننے کا اشتیاق ہوا؛ چنانچہ اسی شام ہم مدینہ شریف میں اس کنویں پر جا پہنچے‘ جو رسولِ کریم ؐ کی ہدایت پر حضرت عثمان ؓ نے خریدا تھا۔ کنویں کا مالک رومات الغفاری نامی یہودی تھا‘ جو مہنگے داموں اہلِ مدینہ کو پانی بیچتا۔ یہ خاصا بڑا کنواں ہے‘ جس کے ارد گرد اِن دنوں سبز رنگ کی جنگلہ گرِل لگی ہے۔ اس کنویں کے ساتھ حضرتِ عثمان بن عفان ؓ کا ملکیتی کھجوروں کا باغ ہے‘ جسے حضرت عثمان ؓ نے کنویں کے ساتھ ہی وقف قرار دے دیا تھا۔ تب سے اب تک اس وقف کی کھجوروں کی آمدنی سرکاری طور پر علیحدہ رکھی جاتی ہے‘ اور اسی آمدنی سے حضرتِ عثمان ؓ کے نام پر پلاٹ خرید کر مذکورہ پراجیکٹ تعمیر کیا جا رہا ہے۔ یہ تفصیل جاننے کے بعد میں دو دفعہ اسی راستے سے جان کر گزرا۔ ٹرسٹ یا وقف جائیدادوں کی اہمیت کا پہلی بار احساس ہوا۔ بندہ رہے نہ رہے۔ اس کے لگائے ہوئے باغ اور پھل پھلتے پھولتے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے وقف کو قانونی زبان میں وقف علی الاسلام کہتے ہیں۔ وقف پراپرٹی جس کیٹگری کی بھی ہو اس کی ملکیت اسلام کے نام چلی جاتی ہے۔ کوئی ایک شخص‘ گھرانہ‘ خاندان یا پارٹی‘ اور قوم اس پر قبضہ نہیں کر سکتے۔ نہ دنیا داری کے کسی دعوے کی بنیاد پر‘ نہ ہی کسی متبرک حوالے سے۔ 
آج سے 4 عشرے پہلے سال1979ء میں طالب علم کی حیثیت سے پہلی بار مدینے میں آیا۔ تب سے اب تک جب بھی حاضری کی اجازت ہوئی۔ زائرینِ مدینہ ہوں یا انصارِ مدینہ سب سے وہی سُنا جو میرے اپنے اوپر وارد ہوتا آیا ہے۔ پاک نبیؐ کا مدینہ مسافروں کے لیے ایسے فراخ ہے جیسے ماں کا سینہ۔ اس کی ہلکی سی جھلک 4 لوگوں کے لیے منگوایا گیا کھانا تھا۔ دوعرب مہمان دو ہم باپ بیٹا۔ کھانا 10/12 لوگ آسانی سے کھا سکتے تھے۔ میرے دل میں خیال آیا ایسا کیوں ہوا۔ ہم نے موجود کھانے کا پانچواں حصہ مشکل سے کھایا ہو گا۔ کھانا ختم ہونے لگا تو میزبانوں نے دسترخوان پر موجود ہر خوانِ نعمت پوری توجہ سے پیک کروایا۔ ہم ریسٹورنٹ سے نکل کر مدینے کی گلی میں آئے۔ گاڑی کے پاس ایک عجمی اجنبی شخص کھڑا تھا۔ کھانا اس کے حوالے ہو گیا۔ نبیؐ کے شہر والے آج بھی نبی ؐکے مہمانوں کے لیے انصار ہیں اور کسی بھی میراث کے اکیلے دعوے دار نہیں۔ عشقِ محمدؐ۔ مساواتِ محمدی۔ رحمۃللعالمین کے ایسے جاری معجزے ہیں‘ جن کا اعتراف مہندر ؔسنگھ بیدی نے یوں کیا ہے:
عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں