مدینہ شریف میں قیام کے آخری 3 دن وقفے وقفے سے بارش برستی رہی۔ اس وجہ سے دن کے وقت کا موسم صحرا کی رات کے جیسا ٹھنڈا رہا۔ اسی لطیف سی ٹھنڈک میں صحرائوں کی ہوائوں کو خطرناک کہتے ہیں۔ یہی سبب ہے عربستان کے باسی اپنا سر، منہ اور چھاتی ہمہ وقت ڈھانپ کر رکھتے ہیں۔
جو خواتین و حضرات آج کل جیسے موسم میں مدینے کا سفر اختیار کریں‘ ان کو احتیاطاً رات کے لیے ''وِنڈ بریکر‘‘ ساتھ لے جانے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ میرے عزیز کمال چوہدری صاحب اور ان کے بڑے بھائی انجینئر جلال چوہدری صاحب سے اسی موضوع پر بات ہوئی۔ دونوں بھائیوں نے ایڈمبرا سے انجینئرنگ کا امتحان پاس کیا تھا۔ آج سے تقریباً 45/46 سال قبل انجینئر کمال مکہ شریف جا بسے۔ عمرے کی حدود میقات کا ذکر آیا تو جیسے ان کے دل کے تار چھڑ گئے۔ کہنے لگے: مکہ شریف میں میرا پہلا کنسٹرکشن پراجیکٹ میقات سے متعلق تھا۔ مکے کی حکومت نے مجھے بلایا اور کہا کہ حدِ میقات کا تعین کرنے والی مسجدِ عائشہؓ کو شہید کر کے نئے سرے سے تعمیر کرنا ہے۔ اس وقت مسجدِ عائشہؓ کی جو عمارت موجود ہے اس میں اپنے ہنر کا اظہار کرنے کا شرفِ کمال برادرم کمال کے حصیّ میں بھی آیا۔
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
مدینہ شریف کے ارد گرد کی وادیوں میں کمال کے ہنر مند بستے ہیں۔ سمال اینڈ میڈیم تجارت تو کوئی ان وادیوں کے جبل نورّدوں سے سیکھے۔ خاص طور پر بدو خواتین سے۔ یہ تاجر خواتین سال کے 12 مہینے سیاہ رنگ کا برقعہ اور ہاتھوں پر کالے رنگ کے کپڑے کے دستانے پہنتی ہیں۔
میدانِ اُحد میں عم الرسولﷺ سیدنا حمزہؓ کے مزار کے باہر ان بدّو عورتوں کے تجارتی سٹالز لگتے ہیں‘ جن میں خواتین کے تصرف کی ایسی جڑی بوٹیاں اور دیگر اشیاء موجود ہوتی ہیں‘ جو اور کہیں سے دستیاب نہیں ہوتیں۔ جیسے مریم بُوٹی، مدینے کا سوکھا ہوا پودینہ اور درجن بھر سے زائد جنگلی بوٹیاں‘ جو کئی بیماریوں سے شفاء میں اکسیر کہلاتی ہیں۔ اُحد شریف میں اکثر زائرین ان بدو خواتین سے خریداری کی بحث کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی سادہ عربی اور متاثر کُن سیلزمین شِپ خاصا خوش کُن تجربہ ہے۔ میں خود بھی ہمیشہ ان سٹالز پر جا کر خریداری کرتا ہوں۔ اس دفعہ بھی میں اس پُر لطف تجربے سے محروم نہ ہوا۔ ان خواتین میں کچھ سندھی اوریجن سے بھی ہیں‘ جن کے آبائواجداد نے آلِ سعود کی بادشاہت کے قیام سے پہلے مدینے ہجرت کی اور پھر وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ ان خاندانوں نے بدوئوں کی کنٹرولڈ شیڈ بنا کر کھیرا، ٹماٹر، لہسن اور پیاز اُگانے کے فارمز بنانے میں بھرپور معاونت کی۔ اب ایسے فارمز جہاں کنٹرولڈ ٹمپریچر میں سبزیاں اُگائی جا رہی ہیں کثرت سے نظر آتے ہیں۔ مدینے سے تھوڑا باہر ابیارِ علیؓ کے علاقے میں اس دفعہ تازہ کینوئوں کے لدے ٹرک نظر آئے جن کا ڈالا کھول کر تازہ کینو بیچے جا رہے تھے۔
مسجدِ نبویﷺ کی جدید تعمیر میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ ریاض الجنہ کے عقب والی سائیڈ پر جو ہیوی الیکٹرانک چھتریاں نصب ہوں‘ ان سے گُنبدِ خضریٰ نظر آتا رہے۔ روضۂ رسول ؐ پر حاضری کے بعد اسی جگہ الوداعی نوافل اور مناجات کے لیے ڈیرہ ڈال لیا۔ عربی زبان میں ہی کہا گیا ہے ''حُبّ الوطن من الایمان‘‘کہ وطن سے محبت ایمان کا ایک حصہ ہے۔ یہ بات بھی طے ہے کہ سمندر پار مقیم پاکستانی دیارِ وطن سے آنے والوں پر محبت اور حقِ میزبانی کے ڈونگر ے برساتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ لوگ ان ڈونگروں کو دیگچے اور ڈونگے سمجھ کر کھا پی جاتے ہیں۔ مِڈل ایسٹ کے صرف ایک ملک سعودی عرب سے پاکستانی محنت کش تقریباً 10 ارب ڈالر سالانہ وطن کی محبت میں زرِ مبادلہ کے طور پر بھیجتے ہیں۔ ان ہم وطن میزبانوں نے ہر جگہ خندہ پیشانی سے ریسیو کیا‘ اگرچہ ان سے کوئی ملاقات بھی پانچ سات منٹ سے زیادہ کی نہ تھی‘ مگر اپنا جان کر جو دُکھڑے انہوں نے سُنائے اس کی سمری یہ بنتی ہے۔
نمبر ایک: سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کے زیرِ تعلیم بچے اور بیگمات کے قیام پر سالانہ ایک سے دو ہزار ریال ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ ہمارے ان جانباز کارکنوں، مزدوروں کی اکثریت کی تنخواہیں واجبی ہیں‘ اس لیے ضروری ہے کہ وزارتِ خارجہ اور خزانہ فوراً پاکستان کے یہ assets بچائیں۔
نمبر دو: اگرچہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے ایک علیحدہ وزارت موجود ہے‘ لیکن کئی عشروں سے بیرونِ ملک مقیم کارکن پاکستانی اپنی وزارت اور بیوروکریسی کے لیے اتنے ہی اجنبی چلے آتے ہیں‘ جتنے عرب کفیل۔ یہ طُرفہ تماشہ ہے کہ سارا پاکستان مل کر بھی 22 ارب ڈالر سالانہ زرِ مبادلہ نہیں کماتا۔ یہ بھی ناقابلِ تردید بلکہ معجزاتی حقیقت ہے کہ 4/5 ملین پاکستانی مل کر 20/22 ارب ڈالر سالانہ ہمارے خزانے والی جیب میں ڈالتے ہیں۔ جس کے جواب میں ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ ایک ایسی ہی واردات بہ زبانِ مظلوم سُنی تو رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
سعودی عرب میں مقیم ایک فیصل آبادی فیملی لاہور ائیرپورٹ پہنچی۔ امیگریشن حکام نے ان کے سامان میں سے (جان پر کھیل کر) 2 تاریخی برآمدگیاں کر لیں۔ ایک دیسی گھی کا بھرا ہوا ڈبہ۔ دوسری چنبیلی کے تیل کی چھوٹی شیشی۔ اس فیملی پر امیگریشن پر مامور جیالوں نے دبائو ڈالا کہ یہ دونوں چیزیں نقدی کے عوض چھوڑی جائیں گی۔ ساتھ یہ بھی بتا دیا، نقدی کا مطلب مقامی کرنسی نہیں ہے۔ مسافروں نے صاف کہہ دیا کہ ان کے پاس ہدیے میں دینے کے لیے کچھ نہیں۔ شرمناک تفصیلات چھوڑتے ہوئے اس واردات کا اینڈ یہ تھا کہ برآمدگی ٹیم ہیڈ نے تیل کی شیشی رکھ لی۔ سامان کی تلاشی پر یہ ڈیوٹی ایک خاتون اہلکار نے ادا کی۔
عربی زبان کا ایک مشہور مقولہ یوں ہے ''رزق مدینے کا، زندگی مدینے کی اور موت مدینے میں‘‘۔ آپ اسے مدینۃ النبیؐ کے لوگوں کی دعائے اعظم بھی کہہ سکتے ہیں۔ جو زائرین مدینے کا سفر اختیار کرتے ہیں ان کو لازماً 2 کیفیتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ شہرِ رسولؐ کی طرف جانے کی روحانی مسرت۔ جبکہ مدینۃ النبیؐ سے واپس چلے جانے کا بوجھل سا فیصلہ۔ میرے دل کو ہمیشہ ایک بات کی تسلی رہتی ہے۔ وہ ہے میری طرف سے اگلے دیدار کی عرضی کی مقبولیت کا پختہ یقین۔ اسی کامل یقین کے ساتھ ہم دونوں نے مدینے میں آخری شب درِ نبیؐ پر حاضری دی۔ پاکستان کے وقت کے مطابق ساڑھے 5 بجے صبح سعودی طیارے نے مدینہ انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے اُڑان بھری۔ ریاض کے راستے دن 11:55 بجے اسلام آباد میں لینڈنگ ہو گئی۔ مدینہ پاک سے پاک سرزمین پہ قدم رکھتے ہی دھیان دو طرف گیا۔ ایک‘ پیارے نبیؐ کی نعت اور دوسرا‘ محسنِ انسانیت حضرت محمدﷺکا ارشادِ گرامی۔
لوگ کہتے ہیں کہ سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا
اور جتنے بھی سہارے ہیں سبک کرتے ہیں
عزتِ نفس بڑھاتا ہے سہارا تیرا
آپﷺ نے فرمایا ''جو شخص کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیف میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا تو خدا قیامت کے روز اس کی تکالیف سے تکلیف دور کرے گا۔ جو کسی تنگدست مسلمان کے لیے آسانی پیدا کرے گا تو خدا دنیا و آخرت میں اس کے لیے آسانی پیدا کرے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کی عیب پوشی کرے گا تو خدا دنیا و آخرت میں اس کی عیب پوشی کرے گا۔ جب تک کوئی بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے تو خدا اس کی مدد میں رہتا ہے‘‘۔ (ختم )