عربستان میں اُنہیں شیخ زکریا ہندی جبکہ ہمارے ہاں مولانا زکریا مدنی کے نام سے پہچانا گیا ۔ میری اُن سے مدینہ منورہ میں صرف ایک ملاقات ہوئی ۔ تب وہ ویل چیئر پر تھے اور میں طالب علم۔
تعارف کروانے والا نجران کے گورنر کا بھتیجا تھا ۔ ایک ساتھی طالب علم ۔ ظاہر ہے گورنر کا بھتیجا سعودی عرب میں آلِ سعود کا کوئی شہزادہ ہی ہو سکتا ہے ۔ تبلیغی جماعت کے بڑے ذمہ داروں کے ساتھ یہ میرا پہلا باقاعدہ تعارف تھا۔
عشروں بعد میں عربستان کی بجائے انگلستان گیا ۔ ایک ایسے فنکشن میں شرکت کے لیے ‘ جس کے دعوت نامے کا عنوان یوں تھا ''3 چیمپئن 3 پاکستانی... باکسنگ، تبلیغ اور قانون کے تین آ ئیکون‘‘۔ پاکستانی نژاد برطانوی بزنس ٹائیکون انیل مسرت نے مانچسٹر کا ایک بڑا بینکوئٹ ہال بک کروا رکھا تھا ‘ جہاں سٹیج پر عالمی باکسنگ کے چیمپئن عامر خان ، مولانا طارق جمیل اور میں ''کی نوٹ‘‘ سپیکر کے طور بیٹھے ۔ بر سبیلِ تذکرہ یہ بھی جان لیں کہ وفاقی دارالحکومت کے علاقے سہالہ سے کہوٹہ میں داخل ہوں تو سب سے پہلے میرا گا ئوں ہوتھلہ آتا ہے ‘ پھر باکسر عامر خان کا گائوں ''مَیرا‘‘ اور ساتھ جنرل ظہیرالاسلام کا گائوں مٹور ۔ میرے گائوں اور پنڈ ملکاں کو دریائے سواں تقسیم کرتا ہے ۔ پنڈ ملکاں نے اپنے ماتھے پر لانس نائیک محفوظ شہید کے مزار کا اعزاز سجا رکھا ہے۔
چلے جو ہو گے شہادت کا جام پی کر تم
رسول پاکؐ نے بانہوں میں لے لیا ہو گا
علیؓ تمہاری شجاعت پہ جھومتے ہوں گے
حسین ؓ پاک نے ارشاد یہ کیا ہو گا
تمہیں خدا کی رضائیں سلام کہتی ہیں
برمنگھم کے بینکوئٹ ہال میں وضو کرنے واش روم گیا ۔ واپس نکلا تو مولانا طارق جمیل صاحب اندر آ رہے تھے۔ مولانا طارق جمیل سے یہ میری بالمشافہ پہلی ملاقات تھی۔
انہوں نے از راہِ مہربانی میرے لیے کئی توصیفی جملے کہے اور ساتھ ہلکی پھلکی گفتگو ہوئی۔ سٹیج پر پہنچے تو مانچسٹر کے پاکستانی آبادی والے علاقے کا بڑا بینکوئٹ ہال اہم ترین چُنیدہ لوگوں سے لبا لب بھرا پایا ‘ جہاں پہ مولانا طارق جمیل صاحب اور میرا ایک دلچسپ انکائونٹر بھی ہوا۔ سب سے پہلے عامر خان المعروف کنگ خان کو روسٹرم پر بلایا گیا ‘ جنہوں نے باکسنگ کے کھیل ، اپنی کامیابی کے دائو پیچ کے ساتھ ساتھ انگلینڈ اور پاکستان کی تعریف کی۔ اپنے ہم وطنوں کے لیے ہلکی پھلکی اچھی باتیں بھی۔ پھر طارق جمیل صاحب روسٹرم پر آ گئے اور اپنے دلپذیر انداز میں دعوتی گفتگو شروع کی۔ درمیان میں یومِ جزا و سزا کا ذکر آ یا‘ تو مولانا صاحب نے لائیٹر نوٹ پر میری طرف اشارہ کرتے ہوئے میرا نام یوں لیا ''وہاں آپ کو کوئی نہیں چھڑا سکے گا ‘ بابر اعوان جیسے بڑے وکیل بھی نہیں‘‘۔ اس پر ہال میں لطیف قہقہے بکھر گئے۔ میں نے برجستہ کہا ''مولوی صاحب اپنی غزل سنا کر بھا گئے گا نہیں‘ جواب آں غزل عرض کروں گا‘‘۔ طارق جمیل صاحب کے سارے پروگرام ریکارڈ ہوتے ہیں؛ چنانچہ یہ انکائونٹر بھی ریکارڈ ہوا۔ میرا خیال تھا اس تقریب سے میرے مذکورہ بالا جملے حذف کر کے ویڈیو اَپ لوڈ ہو گی ‘ لیکن تبلیغی جماعت اور مولانا طارق جمیل صاحب کی فراخ قلبی میرے اس خیال کو جھٹلا گئی۔ پی ٹی آئی کی مخلوط حکومت کے قیام کے بعد ریاستِ مدینہ کا گورننس ماڈل پہلی مرتبہ قومی مباحث (National discourse) کے بڑے عنوان کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ریاستِ مدینہ کا ماڈل صرف مسلمانوں کے نزدیک باعثِ تقدیس و تقلید نہیں بلکہ ساری دنیا میں نبیِ آخرالزماں حضرت محمدﷺ کی قیادت میں اسے انصاف ، روا داری اور قومی ڈسپلن کی عظیم ترین ادارہ جاتی نظیر سمجھا جاتا ہے ۔ اس ریاست میں احترامِ آدمیت اور کچلے ہوئے نچلے طبقات کے حقوق کا چارٹر نافذ ہوا ۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے اپو زیشن کے دور میں اپنے ناقدین سے طالبان خان کا خطاب پا رکھا ہے { جس کی بڑی وجہ ہمارے خطے میں امن کے قیام کے لیے عمران خان کا نقطۂ نظر ہے ‘ جس کا اظہار کرنے میں نہ و زیرِ اعظم نے کبھی بخیلی کی‘ نہ ہی کبھی منافقانہ ڈپلومیسی کا مظاہرہ۔ کون نہیں جانتا‘ مسلم حکمران امریکہ کا نام یا پیغام آ جائے‘ تو کیا کرتے ہیں۔ اور یہ بھی سب جان چکے ہیں کہ عمران خان نے جو اپوزیشن کے دور میں کہا وہی امریکی صدر سے بحیثیت وزیرِ اعظم کہہ ڈالا ۔ مدینہ شریف میں ایک قابلِ قدر عرب شیخ نے مجھ سے کہا: آپ یقین کریں میرا ایمان کی طرح پختہ عقیدہ ہے کہ پاکستان بہت مضبوط ہو جائے گا ۔ پھر خود ہی فرمانے لگے: پہلے مہاتیر محمد اور رجب طیب اردوان نے مسلمانوں کے سر فخر سے بلند کیے‘ عمران خان کی تو بات ہی اور ہے۔ مدینے کے یہ شیخ اس بات پر جسم و روح سے سرشار تھے کہ یہ پہلا مسلمان حکمران ہے‘ جو جب بھی مدینہ میں آیا شہرِ نبیؐ کے ادب میں جوتا پہن کر اس سر زمین پر قدم تک نہ رکھا۔
اس ریاستِ مدینہ کے قومی مباحثے میں چند لکھنے والوں نے قابلِ قدر تجاویز پیش کی ہیں ۔ لیکن مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے ناراضگی اور طعنہ زنی سے آگے نہ بڑھ سکے ۔ ایسے میں تبلیغی جماعت کے دو مبصر مبلغین نے کھل کر رائے دی ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عملی طور پر ہمہ وقت دعوت کے سفر کے راہی ہیں ۔ وہ بھی کُل وقتی ۔ مولانا بٹ صاحب نے اور محترم طارق جمیل صاحب نے۔ مغرب میں پچھلے 30 سالوں سے ایک اصطلاح رائج ہے ‘ جسے Political Islam کہا جا رہا ہے ‘ جس کا مطلب نکالا جاتا ہے کہ بعض مسلمان طاقت کے زور سے کوئی خطۂِ زمین چاہتے ہیں جہاں وہ ریاستِ مدینہ کا ماڈل قائم کر سکیں ۔ نظریۂِ پولیٹیکل اسلام یہاں موضوعِ بحث نہیں۔
لیکن اس سے بڑی خوش بختی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک خطۂِ زمین کے 22 کروڑ لوگوں کو ایٹمی طاقت کے ساتھ موقع مل گیا ہے کہ وہ چاہیں تو اپنی ریاست کو ریاستِ مدینہ کی راہ پر ڈال سکتے ہیں۔
ایسے میں بنیادی سوال صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ جس ایٹمی ریاست کا سربراہ از خود اسے ریاستِ مدینہ بنانے کے راستے پہ چل نکلا ہے ‘ مولانا طارق جمیل صاحب جیسے داعی نے اس کی دست گیری کا اعلان کر کے اپنی تبلیغی زندگی کا حق ادا کیا ہے ۔ ستر سال بعد پاکستان میں ایسا موقع آیا جب آزاد جمہو ری سیاست کرنے والی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ نے منہاج المدینہ کا سفر اختیار کر لیا ۔ کیا ایسے شخص کا راستہ روکنا چاہیے...؟؟ اور سالہا سال سے جو لوگ اس نظام کے نام پر اپنی سیاست کا اہتمام کرتے ہیں‘ مولانا طارق جمیل جیسے داعی کو اُن کی طر ح بے تعلق بیٹھ جانا چاہیے ۔
در حقیقت مولانا طارق جمیل صاحب نے اپنا حق ادا کیا۔
وہ کیا کر رہے ہیں جو ہر سیاسی خطبے میں یہ شعر ضرور پڑھتے ہیں:
نظامِ پادشاہی ہو یا جمہوری تماشہ ہو
جُدا ہو دیں سیاست سے، تو رہ جاتی ہے چنگیزی
بنیادی سوال صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ جس ایٹمی ریاست کا سربراہ از خود اسے ریاستِ مدینہ بنانے کے راستے پہ چل نکلا ہے ‘ مولانا طارق جمیل صاحب جیسے داعی نے اس کی دست گیری کا اعلان کر کے اپنی تبلیغی زندگی کا حق ادا کیا ہے ۔ ستر سال بعد پاکستان میں ایسا موقع آیا جب آزاد جمہو ری سیاست کرنے والی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ نے منہاج المدینہ کا سفر اختیار کر لیا ۔