سال 2019ء کا چوتھا سورج اور یہ وکالت نامہ اکٹھے آپ کے آنگن میں اتریں گے۔ عرب ہر نئے سال کے آغاز پر یہ دعادیتے ہیں ''کل عام وانتم بخیر‘‘۔ میری سارے پاکستانیوں اور عالم انسانیت کیلئے یہی دعا ہے، ہمارا سارا سال خیروعافیت سے گزرے۔
وجہ تو مجھے معلوم نہیں‘ لیکن نیا سال ہم وطنوں میں خوشی کی بہت بڑی لہر لے کر طلوع ہوا۔ سات عشروں میں غالباً سب سے بڑی۔ ہر جگہ ہرعلاقے میں نئے سال کا پُرامن اور شاندار استقبال ہوا‘ جو الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے لائیو کوریج کے ذریعے گھر گھر دکھا دیا۔ کچھ خاک خور مگر بہرطور بدخبریاں جنریٹ کرنے کی کوشش میں رہے۔ پاکستان اور اس کا نظام جب جب مضبوط ہو گا‘ان کے جگر کا داغ اور دل کا درد تب تب روگ بن کر ان کے دہنِ بسیار خور سے ٹِیس نکلواتا رہے گا۔ ایشیا میں اس ''سنکھ‘‘ کا مہاتما نریندر مودی ہے۔ ادھر اس نے پاکستان پر سرجیکل سٹرائیک کی بڑھک لگائی ادھر بھارتی سِینا کا درانداز ''کواڈ کاپٹر‘‘ پاکستانی سپاہ نے منہ کے بل مار گرایا۔ نئے سال کے پہلے دن 2 خوشگوار تجربے ہوئے۔ یادش بخیر! پہلے ایک خوش مزاج ملنے والے کا جشنِ نوروز منانے کا طریقہ سن لیں۔ ہر سال 31دسمبر کو اپنے یہ مہربان ملنے آتے ہیں۔ کسی غرض یا کام سے نہیں۔ بس ہنسنے ہنسانے اور ایک جملہ دہرانے کیلئے ''Ok Sir ...‘ اب اگلے سال ملاقات ہوگی‘‘۔ یکم جنوری کو مل جائیں تو یہ کہنا نہیں بھولتے ''سال بعد آپ سے ملکر بہت خوشی ہوئی‘‘۔ یہ لطیف جملے میرے من میں ہر سال یہ احساس جگاتے ہیں کہ بیتے سال کا نوحہ پڑھنے سے بہتر ہے اس میں قدرت کی مہربانیاں اور بندہ اپنی کامرانیاں تلاش کرے۔ کرۂ ارضی پر شاید ہی کوئی کم نصیب ایسا ہوگا‘ جس کی فردِ عمل میں بے مرامی اور ناکامی کے علاوہ خوشی سرے سے درج ہی نہ ہو۔ لوگ اس رویے کو کئی طرح سے بیان کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کبھی خوشی کبھی غم۔
بات ہورہی تھی 2خوش کن تجربات کی۔ پہلا تجربہ ایک سڑک پہ ہوا جہاں راہ چلتے پاک سیکرٹریٹ اسلام آباد کے کلرکس مل گئے۔ کہنے لگے: یاد نہیں کتنے سالوں بعد پھر سے پیاز، آلو، مٹر، مولی اور گاجر اتنے سستے مل رہے ہیں۔ 100/110 روپے دھڑی (5کلو)۔ کالاکلو سیب 100/120 روپے کلو۔ ان احباب نے مجھے یہی بتانے کیلئے روکا تھاکہ انہوں نے کتنے سالوں بعد بچوں کیلئے سیب خریدا ہے‘ کیونکہ سیب نے پہلی مرتبہ 300/350 روپے کلو کے آسمانی ریٹ پر سے زمین پر قدم رکھا۔ مجھے اسی صفحے پر چھپنے والا 10فروری 2014 کا اپنا کالم یاد آگیا‘ جس میں آلو کنگ کا تعارفی انکشاف ہوا تھا۔ اب وہ ملک سے باہر ہے‘ آلو کنگ کی مرضی کے بغیر آلو، پیاز سے لہسن تک‘ دم نہیں مارسکتے تھے۔ مہاراج آلو کنگ کے راج میں ایشیا کی فوڈ باسکٹ ہمارے پنجاب کیلئے یہ تحفے بھارت سے امپورٹ ہوا کرتے۔ اب تازہ سبزی، فروٹ، سپلائی کرنے کی قدرتی لہر پھر سے چل نکلی ہے۔ مصنوعی قلت اور اپنی امپورٹ کے مال بیچنے والے اپنی دکان بڑھا گئے۔ قندِ مکرر کے طور پر آئیے 2014میں واپس چلتے ہیں۔ وکالت نامہ میں آلو کنگ کا ذکر ان الفاظ میں آیا ''پہلی ٹیم آلو کنگ کی سربراہی میں قائم ہوئی ہے‘ جس نے 66سال بعد سوات اور عارف والا کے پھیکے آلوئوں کے بجائے ملک میں چنبیلی، نشیلی، چمکیلی اور جلیبی برانڈ کے بھارتی آلو متعارف کراکر غریب عوام کی تلخی سے بھرپور زندگی میں صرف 70/80روپے کلو کے حساب سے شہروں سے لے کر دیہات تک ڈھیروں رنگینی بھر دی ہے۔ آلو کنگ کا دعویٰ ہے کہ اگر اس کے مطالبات مان لیے جائیں تو محض چند ماہ میں پورا پاکستان آلو آلو ہو جائے گا‘‘۔
میں نے کلرک حضرات کی بات پر یقین کرنے میں وقت لگایا۔ سپریم کورٹ سے آبپارہ پہنچا، عملے سے کہا: ریڑھیوں سے یہ بھائو معلوم کرو۔ اگر کوئی قاری چاہے تو وہ کلرک بادشاہ کی تصدیق کیلئے نزدیکی ریڑھی پر چلا جائے۔
اب آئیے ذرا کارپوریٹ میڈیا کے Guidedماہرین کی طرف جن کے تجزیوں کے گائیڈڈ میزائل تب ہی چلتے ہیں جب تھوم، پیاز وغیرہ مہنگا ہوجائے۔ خود سوچ لیجئے۔ بھلا سبزی، فروٹ سستا ہونے کی خبر بھی کوئی ''نیوز وردی‘‘ ہے جسے بریکنگ نیوز بنا کر اس پر رپورٹ بن سکے۔ (یہاں لفظ وردی انگریزی والا ہے اردو والا نہیں) یہ دوسری بات ہے کہ دیہات کے 99فیصد اور شہر کے 90فیصد لوگ سبزی دال پہ ہی گزارہ کرتے ہیں۔ چکن کڑاہی اور دم پخت پر نہیں۔
دوسرا خوشگوار تجربہ 2019ء کے پہلے روز وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ میٹنگ تھی۔ پہلے سے زیادہ فوکس اور عزم مجھے اچھا لگا۔ اس روز کئی میگا آئینی اور قانونی ایشوز زیرِ بحث آئے۔ شام ڈھلے ملاقات ختم ہوئی تو میں سیدھا لا آفس پہنچ گیا‘ جہاں ہر ملنے والے نے سالِ نو اور اس سے وابستہ توقعات کو موضوعِ گفتگو بنایا۔ 2018ء میں مجموعی طور پر پاکستان میں امن و امان کا گراف اور ریاست کی رِٹ کی بحالی قائم ہوئی۔ اسی کے نتیجے میں لوگوں میں نئی صبح کی نئی امید جاگی۔ علاقائی طور پر وطنِ عزیز کو کئی سٹریٹیجک کامیابیاں ملیں‘ جیسے ملائیشیا اور قطر میں ہمارے گرین پاسپورٹ کی عزت بحال ہوئی۔ اب پاکستانیوں کو ایئرپورٹ پر انٹری ویزہ ملے گا۔ درجن بھر دوسرے ملکوں سے بھی وزیرِ اعظم عمران خان براہِ راست مذاکرات کررہے ہیں۔ یہاں اتنا کہنا تو بنتا ہے کہ پاکستانی اپنے پاسپورٹ کی اس بحال شدہ عزت کو کسی بھی غیر ذمہ دارانہ حرکت سے رول بیک کرنے کا باعث نہیں بنیں گے۔ اگلے روز بی بی سی پر خبروں کا پرومو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اب اس پرومو میں پاکستان اور اس کے وزیرِ اعظم کی فوٹیج ٹاپ تھری ملکوں میں شامل ہے۔ کچھ دوسرے ملکوں نے ترقی پذیر قوموں کی صف میں سے پاکستان کیلئے اچھی ٹریولنگ ایڈوائس جاری کیں‘ جن کے نتیجے میں پاکستان سیاحت کیلئے فیورٹ قرار پایا۔
ملک کا اندرونی منظرنامہ نئے سال کے لیے بہت امید افزا ہے‘ جس کے 4اشارے یوں ہیں: اوّلاً‘ ریاستی اداروںمیں Cost Cutting کی پالیسی لاگو کردی گئی ہے‘ جس کے تحت بڑے ایوانوں سے ٹاپ بیوروکریسی تک سب کے ترقیاتی اخراجات آسمان سے کھینچ کر صحن میں اتار رکھے گئے ہیں۔ دفتروں میں سرکاری خرچ پر لنچ، ڈنر، ٹی بریک کے نام پر اللے تللے اور گلچھرے بند۔ بیوروکریسی کا ٹریولنگ کلب بند۔ یہ راز اب کوئی راز نہیں، سب اہلِ گلستاں جان چکے ہیںکہ پبلک سرونٹس کی بہت بڑی تعداد کی بیویاں، بچے اور مفادات بیرونِ ملک ہیں۔ اس ٹریولنگ کلب کا طریقۂ واردات یہ تھا کہ ایک ہی گروپ سے پروموٹ اور بھرتی ہونے والے باری باری بیرونِ ملک سرکاری طور پر نجی دورے کرتے۔ ایک سمری لکھتا‘ میں نے باہر جانا ہے۔ دوسرا کہتا‘ جانا ضروری ہے۔ تیسرا لکھ دیتا‘ سرکاری خرچ پر ڈالر منظور کیے جاتے ہیں۔ آنے والے چند سالوں میں ان اخراجات پر کنٹرول اور فنانشل ڈسپلن رولنگ ایلیٹ کو بدل کر رکھ دے گا‘ جس میں وزیر مشیر بھی شامل ہیں۔ باہر جانے کا ہر شوقین صرف اپنے خرچ پر یہ شوق پورا کرسکتا ہے۔ دوسرا اشارہ متبادل اکانومی المعروف ادارہ جاتی کرپشن کے خلاف عمران گورنمنٹ کی زیرو ٹالرنس پالیسی ہے۔ اگر کوئی چاہے تو انسدادِ کرپشن کے کسی محکمے سے پوچھ لے کرپشن کا ہائوس آف کارڈز کہیں سے زمین بوس اور کہیں پر زلزلوں کی زد میں ہے۔ امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے پاکستان سے منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر جانے والے کھربوں ڈالرز کی جو تفصیل دی‘ اس کیلئے علیحدہ پورا کالم چاہئے۔ اور اسے مادر آف آل میگاکرپشن کہا جاسکتا ہے‘ جس کے سارے ممکنہ راستے محض چند ماہ میں بند ہوئے۔
تیسرا اشارہ غیر ضروری پراجیکٹس کی بجائے مرغی، انڈہ، بکری، کٹا‘ سستے گھر‘ صحت تک آسان رسائی‘ رات سڑک پر سونے والوں کیلئے پناہ گھر جیسے منصوبے ہیں‘ جو سرکاری وسائل پر پلنے والی اشرافیہ کیلئے مزاحیہ پروگرام جبکہ بے وسیلہ لوگوں کیلئے نئی صبح کی امید ہیں۔ چوتھا اشارہ ملک بھر میں یکساں نصابِ تعلیم کی منصوبہ بندی سے شروع کرکے وزیرِ اعظم سے وزیرِ اعلیٰ تک کے صوابدیدی فنڈز کا خاتمہ ہے۔ بڑے پیمانے پر ادارہ جاتی پالیسی سازی کا مسلسل عمل اس کے علاوہ ہے۔
یاس سے آس تک کے اس سفر میں صرف 4ماہ گزرے۔ میں وکالت نامہ یہیں ختم کرکے اپنے گریبان میں جھانکنے لگا ہوں۔ اپنی قوم، اپنے وطن اور اپنے لوگوں کیلئے ۔ میں نے نئے سال کے پہلے 4دنوں میں کتنے قدم اٹھائے ہیں۔
پھر نیا سال، نئی صبح، نئی امیدیں
اے خدا خیر کی خبروں کے اجالے رکھنا