دو روزپہلے صدر ہائو س کی چا ئے پیے بغیر نکل آیا۔ مارگلہ کے دامن میں یخ بستہ ہوا ئوں کا راج تھا‘آسمان پہ نظر دوڑائی تو میری طرح سورج بھی ٹِھٹھر رہا تھا۔ سردی سے پناہ مانگتے ہوئے‘ بے چارہ سورج بکھرے بادلوں کی آغوش میں چھپ جانے کی کوشش میںلگا۔
کئی سالوں سے قومی تقریبات میں بھی بے ترتیبی در آئی ہے۔ وہ گولڈن ایج والے زمانے گئے جب سفید دستانے پہنے ویلے (valet ( آنے والوں کی گاڑی پورچ پہنچنے پر دروازہ کھول کے مہمانوں کو احترام دیتے ۔ اب کسی نے کہیں بھی نہ جانا ہو تب بھی سب جلدی میں ہیں۔اکثر نے ایک ہاتھ میں مو بائل اور دوسرے میں ذرا سا گاڑی کااسٹیرنگ تھام رکھاہوتا ہے۔موبائل کان کے ساتھ لگا ہوا جبکہ دوسرا ہاتھ بار بار اسٹیرنگ سے بلند ہو کر گفتگو کو باڈی لینگویج کی سپورٹ دے رہا ہوتا ہے۔ صرف گاڑی چلانے والے اس تجاہلِ عارفانہ کے شکار نہیں بلکہ موٹر سائیکل چلانے والے توباڈی لینگو یج کو بامعنی بنانے کے لیے دائیں‘بائیں ٹانگ کا سہارابھی لے لیتے ہیں۔ اس شا ہا نہ اور اکثر بغیر مقصد کے فضولانہ ڈرائیونگ پر چنگ چی‘ ٹرک اور ٹریکٹر ٹرالی پہ لکھا یہ شعر صادق آتا ہے:
نہ انجن کی خوبی‘ نہ کمالِ ڈرائیور/ چلی جا رہی ہے‘ خدا کے سہارے
سفر وسیلۂ ظفر تو ہے ہی لیکن انگریز ذرا مختلف بات کہتے ہیں ‘جو یہ ہے: Travelling is destination۔ پاکستانی نظامِ عدل کے نئے چیف آصف سعید خان کھوسہ صاحب نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے ریفرنس میں ایک طرح سے پالیسی بیان دیا‘ جس میں تین اہم قومی ایشوز پر بات ہوئی۔پہلا؛زیرِ التوا مقدمات کے سامنے بند باندھنا۔ دوسرا: گورننس کے فریقوں میںبامعنی گفت و شنید‘ اور تیسرا: کوالٹی سووموٹو ایکشن لینے کا عندیہ۔ ریاست کے تینوں اہم ترین چیفس (چیف ایگزیکٹو‘چیف جسٹس‘آرمی چیف) پر عام لوگ اعتبار کررہے ہیں۔ اس یقین کے ساتھ کہ وہBusiness as Usual المعروف مٹی پائو پالیسی نہیں چلنے دیںگے۔ 70 سال کے ناسور اُٹھا کر دور پھینکنے میں مقدوربھرحصہ ضرورڈالیں گے۔ یہ امید تینوں سے لگائی جاتی ہے‘ چیف ایگزیکٹو‘ چیف جسٹس‘آرمی چیف۔ لیکن جج ‘ وکیل بریگیڈکے نئے چیف کی سوچ کا واضح اظہار اس عہدے پر آنے سے پہلے بھی ہو چکا تھا۔ ملاحظہ کیجئے جناب چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ صاحب کااضافی نوٹ رپورٹ شدہ (پی ایل ڈی سال2012صفحہ نمبر553) سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کے مقدمے میں نئے جوڈیشل چیف نے نیشنل بیماریوںکی تشخیص کر دی تھی۔ اب دعا‘ خواہش اور سب توانائیاں حاضر ہیں۔ قوم میجرسرجری یاشافی کے انتظار میں ہے۔
نئے چیف جسٹس کی سوچ کااظہار 51 صفحات پر مشتمل متفقہ فیصلے میں 5 صفحات کا اضافہ ہے۔ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے لکھا ''قابلِ رحم ہے وہ قوم جو مذہب کے نام پر وطن تو حاصل کرتی ہے لیکن سچائی‘ حق گوئی اور احتساب کو کوئی اہمیت نہیں دیتی۔ قابلِ رحم ہے وہ قوم جس کے رہنما قانون کی نافرمانی کرکے شہادت کے متلاشی ہوتے ہیں۔ قابلِ رحم ہے وہ قوم جس کے نزدیک محض قطار میں کھڑے ہو کر ووٹ ڈالنا جمہوریت ہے۔ قابلِ رحم ہے وہ قوم جو دانا کو بیوقوف سمجھتی اور بدمعاشوں کا احترام کرتی ہے۔ قابلِ رحم ہے وہ قوم جس کے منتخب نمائندے اللہ کے حضور حلف لینے کے عمل کو محض عہدے تک پہنچنے کی رسم سمجھتے ہوں۔ قابلِ رحم ہے وہ قوم جو بلاتفریق انصاف تو مانگتی ہے‘ لیکن بلا تفریق انصاف کیا جائے اور مفادات کو ضرب لگے تو احتجاج کرتی ہے۔ قابلِ رحم ہے وہ قوم جو مجرموں کو اپنا رہنما مانتی ہے اور ان کیلئے اپنی جان نثار کرتی ہے‘‘۔
نئے چیف جسٹس آصف کھوسہ صاحب نے اپنے سفر کے آغاز میں جو کہا‘ اس سے سان فرانسسکو کا رینجریاد آتاہے جو میوروڈ کے علاقے میں Redwood فارسٹ کاپارک رینجر ہے۔ رینجربول رہاتھااور اس کے سامنے دوردراز سے پارک کی سیر کیلئے آنے والوں کا گروپ کھڑا تھا‘جس میں مختلف رنگ‘علاقے اور عمر کے لوگ شامل تھے۔ رینجر بڑے فخر سے بولا: دوقسم کے درخت کرۂ ارض پر سب سے بڑے ہوتے ہیں Sequoia and Redwood۔ان میں سے کچھ سیکڑوں سال پرانے اور بے شمار ہزاروں سال قدیم بھی ہیں۔ یہ کہتے کہتے رینجر کی آنکھوں میں روشنی کوند گئی۔ اس کی آوازبلندہوئی اور وہ مستحکم لہجے میں بولنا شروع ہوگیا۔ ایسے لگا جیسے وہ ساری دنیاکے انسانوں سے مخاطب ہے۔اس نے کہا:اب میں آپ کو دنیا کے ان عظیم ترین درختوں کی سب سے بڑی کمزوری بتاتا ہوں۔ اور وہ یہ ہے کہ ان کی جڑیں گہری نہیں ہوتیں۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ درخت صدیوں اور ہزاروں سالوں تک شدیدترین ہوائوںکے طوفان‘آسمانی بجلیاں‘تباہ کُن زلزلے اور بادوباراں کی شدتیں سہہ کر کس طرح کھڑے رہتے ہیں۔ رینجر کے سامنے Redwood فارسٹ کے مہمان حیرانی کے سمندر میں ڈوب گئے۔ رینجر کی آوازخاموش ہو گئی۔ انتہائی اونچے درختوں کے پتوں اور شاخوں کے لہرانے کا شور بھی تھم گیا۔ مکمل خاموشی کو توڑتے ہوئے رینجر کی آواز دوبارہ اُبھر آئی۔
رینجر کہہ رہا تھا:ریڈ ووڈ فارسٹ کے درختوں کی اصل طاقت انڈرگرائونڈ ہے۔ دنیا کے سب سے طویل العمر‘عظیم الجثہ اور بلندوبالا پودوں کی جڑیں اگرچہ بہت ہی سطحی ہیں۔یہ جڑیں دوسرے درختوں کی طرح زمین کی گہرائی تک ہرگز نہیں اُتر پاتیں‘اس کے باوجود یہ زیرِ زمین ایک دوسرے تک ضرور پہنچتی ہیں۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال لیتی ہیں۔ کمزور اور نومولودجڑوں کو طاقت ور جڑوں کا جال سنبھال کررکھتا ہے۔ اسی لیے آسمانی شدتیں اور زمینی آفتیں مل کر بھی کسی درخت کوگرا نہیں سکتیں۔ طاقت ور اور صدیوں پرانی جڑیں چھوٹی‘ پتلی کمزور جڑوں کو شیلٹر فراہم کرتی ہیں۔ Redwood فارسٹ میںجڑوں نے وسائل کی منصفانہ تقسیم کازیرِ زمین جال پھیلادیا ہے۔ میور کے سیاح یہ سُن کر حیران رہ گئے۔(منقول)
کیا یہ بھی اب کوئی راز کی بات ہے کہ قدرت کے سارے مظاہر اور اشارے اندر کی آنکھ رکھنے والوں کو سبق دیتے ہیں۔ Redwoodفارسٹ قدرت کی تخلیق اورعطیہ ہے۔ اس کی عالمی طاقت اور قوت کا راز یہ ہے کہ یہاں کمزور کا خیال رکھا جاتا ہے۔ وسائل اور طاقت کو مشترکہ وسیلۂ حیات سمجھ کر صَرف کیا جاتا ہے۔ یہی یونیورسل اصولِ قدرت‘ اشرف المخلوقات کو پاکستان میں بھی سوچنے کی دعوت دے رہاہے۔ ذرا سوچئے! جو کسی دوسرے کو طاقت ‘عزت‘ مدد یا خدمت دے رہا ہوتا ہے‘اُس نعمت کو بہت سے اُسی جیسے انسان وصول بھی کر رہے ہوتے ہیں۔اشیا اور خدمات وصول کرکے ہم اپنا وقت اچھا بنا سکتے ہیں لیکن انہیں تقسیم کرکے ہم بے شمار زندگیاں سنوار سکتے ہیں۔ بہت کم کہا جائے تب بھی اس قدر ضرور کہنا پڑے گا۔ اس وقت دنیا واضح طور پر دورویوں یا طرزِ فکرمیں تقسیم ہے۔ ان رویوں کی وضاحت کیلئے ترقی یافتہ ریاستوں کے عوام ہوں یا خواص وہ Compliant گروہ میں آتے ہیں۔جبکہ معاشرے کے سارے طاقتورلوگ Defiantگروہ میں ہیں۔ ہر شے کے باغی‘قانون سے بالاتر۔جہاں قانون کی نظر میں سب برابر‘ایک ایک کرکے ان ممالک کے نام دیکھ لیں‘یہاں سچائی‘حق گوئی اور احتساب کی اہمیت بنیادی ہے۔ امریکہ کا صدر قوم سے جھوٹ بولے تو گھر جاتا ہے۔اپنے ہاں بڑے بڑے راہبرقانون کی نافرمانی کرکے شہادت کے متلاشی رہتے ہیں۔
دل کے دروازے‘ضمیر کی کھڑکیاں اور اقوامِ عالم میں نظر دوڑا کر دیکھیں۔ کیا ہماری قوم قابلِ رحم تو نہیں‘جس کے نزدیک محض قطارمیں کھڑے ہو کر ووٹ ڈالنا ہی جمہوریت ہے۔ کیا ہمارے ہاںدانائی بے وقوفی نہیں سمجھی جاتی؟ کیاپرچیاں لے کرقطاروں میں کھڑے ہونے والے بدمعاشوں کا احترام نہیں کرتے؟ کیا اس قوم کے منتخب نمائندے اللہ کے حضور حلف لینے کے عمل کو محض اقتدار تک پہنچنے کی رسم نہیں سمجھتے؟
کبھی قصور کی بے قصور زینب اور ساہیوال کے پولیس مقابلے پر بلا تفریق انصاف مانگنے والے ‘بلا تفریق انصاف سے مفادات کو ضرب لگنے پر احتجاج تو نہیں کرتے؟
دل‘ کہ جس کو فقیر کہتے ہیں
ایک اُجڑی ہوئی گلی ہے ابھی
کاروبارِ جنوں کی گمنامی
شہرتِ عقل سے بھلی ہے ابھی