پرائم سپائی ماسٹر، آرمی چیف‘ وزیرِ اعظم سمیت ساری ریاست کے ادارے وہ بات نہ سمجھ پائے جو وکیل اور چیف جسٹس کی سمجھ میں آ گئی۔
وہ بھی ایک ایسے ملک میں جہاں وار تھیٹر کے ذریعے جنگ ہو بھی چُکی۔ صرف فتح کا اعلان باقی بچ سکا ہے۔ چند دن پہلے روس میں دنیا بھر سے آئے ہوئے سینئر سٹیزنز کے درمیان سنائپر فائرنگ کا عالمی مقابلہ ہوا۔ یاد رہے کہ ''سنائپر‘‘ ایک ویڈیو گیم ہے جس کے ذریعے Theatrical War Game ٹیبل پر بیٹھ کر لڑی جاتی ہے۔ ٹی وی رپورٹرز نے چند بزرگ سنائپرز سے ان کے تاثرات مانگے۔ تقریباً سب نے کہا: اصلی جنگ سے توبہ۔ جنگ کا ناٹک یعنی مصنوعی کھیل‘ وہ بھی دھرتی پہ نہیں ویڈیو گیم پہ بھی‘ کوئی آسان تماشا نہیں۔ گزرے کل کی شدّھی اور سنگھٹن سے لے کر موجودہ یعنی آج کے بجرنگ دَل اور راشٹریہ سِیوک سَنگھ تک نسلِ آدمیت کے خاتمے اور ان جیسا حلیہ یا سوچ نہ رکھنے والوں کے قتلِ عام پر یقین رکھنے والے پیشہ ور قاتلوں کے ٹولے ہیں۔ کون نہیں جانتا 1947 سے پہلے اکھنڈ بھارت کے نام پر اُٹھنے والی شدّھی اور سنگھٹن تحریکوں کے مقاصد سیاسی تھے۔ اب یہ بھی کوئی راز ہے کیا، کہ B.J.P اور R.S.S رام بھگت ہیں نہ ہی دیش بھگت۔ یہ دونوں صرف کُرسی بھگت ہیں اور راج بھگت۔ ایسے قاتلوں کو لدھیانہ کے ساحرؔ نے عشروں پہلے یوں للکارا تھا:
چلو کہ چل کے سیاسی مقامروں سے کہیں
کہ ہم کو جنگ و جدل کے چلن سے نفرت ہے
جسے لہو کے سوا کوئی رنگ نہ راس آئے
ہمیں حیات کے اس پیراہن سے نفرت ہے
بھارت میں جاری وار تھیٹر RAW کا سکرپٹ، ڈائریکشن اور پروڈکشن ہے‘ جس کے نتیجے میں بالی وُڈ سٹائل وارتھیٹر میں شامل کیا گیا کھیل تماشہ ہ۔ آئیے اس کی کچھ جھلکیاں دیکھ لیں۔ وائرل ویڈیو پیغامات اور وائس بلاگز کے ذریعے متعصب ترین ہندو برہمن ان دنوں سِکھ مہاپُرشوں کی تعریف کرنے پہ مجبور ہیں۔ یہ وہی برہمن سازشی ٹولہ ہے جس نے سال 1984 میں بابا گرُونانک جی کے کوٹھہ صاحب پر امرت سر میں ٹینکوں سے گولہ باری کی تھی۔ اندرا گاندھی کے قتل پر انڈیا کے طول و عرض میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر سکھوں کو قتل کیا گیا۔ وہ بھی سرکاری سرپرستی میں برسرِعام والا قتلِ عام۔ مگر بے شرمی کی حد یہ ہے کہ سِکھوں کے قاتل کہہ رہے ہیں‘ سِکھ دو گھنٹوں میں پاکستان کو سبق سکھا سکتے ہیں۔ اس ڈائیلاگ بازی کے جواب میں سِکھ نوجوان اپنی ویڈیوز میں ہندوتوا کے لیڈروں سے یوں مخاطب ہوئے ''تم سِکھوں کی طاقت کا اعتراف کرتے ہو۔ ہم جس دن فیصلہ کریں گے اُس دن پاکستان پر 2 گھنٹے میں چڑھ دوڑنے کی بجائے 1 گھنٹے میں اپنا خالصتان بنا لیں گے۔ سِکھ نوجوان اس حقیقت سے بخوبی واقف ہو چکے ہیں کہ ہندو براہمن، تقسیمِ ہند کی طرح ایک بار پھر انھیں پُھونک دینے کی کوشش میں ہیں۔ سِکھوں کی نئی نسل 2019 میں جی رہی ہے‘ 1947 میں نہیں‘ لہٰذا، بھارت اور دنیا بھر میں مقیم سِکھ قوم کو ہندو برہمن نے جو ''چرکے‘‘ لگائے وہ زبانِ حال سے سِکھوں کا قیل و قال بن گئے۔
چلو کہ آج سبھی پائمال رُوحوں سے/ کہیں کہ اپنے ہر اک زخم کو زباں کر لیں
ہمارا راز، ہمارا نہیں سبھی کا ہے/چلو کہ سارے زمانے کو رازداں کر لیں
اسی وار تھیٹر کی ایک اور ویڈیو بھی وائرل ہوئی‘ جس میں ایک پریشان حال ٹی وی نیوز کاسٹر بہ حالِ زوال کوٹھے پہ چڑھ کے بولنے کے انداز میں کہہ رہی ہے: پاکستانیو! اب ٹماٹر کھا کر دکھائو۔ ہمارے ٹماٹر کھا کر ہماری سینا کو مارتے ہو۔ اب ہم نے سارے ٹماٹر روک لیے ہیں۔ اب کھائو سالن اور چٹنی، ٹماٹر کے بغیر۔ ہم تمہیں ٹماٹر سے محروم کر دیں گے۔ یہ کوئی ویب پورٹل ٹی وی نہیں‘ نہ ہی فیس بُک لائیو کا ڈائیلاگ ہے بلکہ یہ ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کے نیوز بلیٹن میں چلنے والی بریکنگ نیوز ہے۔ آپ باآسانی اس نیوز سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بھارتی سٹیٹ پروپیگنڈے کا ٹی وی سکرینوں پر کس قدر کنٹرول ہے۔ یہ خبر ایسے بنائی گئی جیسے ہم لوگوں نے ٹماٹر پہلی دفعہ انڈیا سے منگوا کر دیکھا اور چکّھا تھا‘ اور اب ہم اس ٹماٹری لذّتِ آشنائی سے سدا کے لیے محروم ہو گئے ہیں۔ ٹماٹر نہ ہوئے، جن سنگ کی بُوٹی ہو گئی جو ہمارے کھیتوں میں نہیں اُگتی۔ اگلے روز اَشوکا یونیورسٹی انڈیا کے وائس چانسلر پرتاب بھانومِٹھا (Pratap Bhanu Mehta) نے کہا: پلوامہ پر بھارتی حکومت نے جو شور شرابہ کیا اُس نے بھارت کو نقصان پہنچایا۔ پلوامہ کے معاملے میں بھارت ہار گیا اور پاکستان جیت چکا ہے۔ ایک اور ہندو سکالر بولے: پلوامہ میں جو ہوا اُس نے بھارت کی شناخت مار ڈالی۔ شناخت سے مراد سیکولرازم ہے۔
گاندھی ہو یا غالب ہو‘ دونوں کا کیا کام یہاں
اب کے برس بھی قتل ہوئی ایک کی شِکشا، اک کی زباں
ختم ہوا دونوں کا جشن، آئو انہیں اب کر دیں دفن
مودی سرکار کی سرپرستی میں ہالی وُڈ سٹائل وار ڈرامے کا عسکری پورشن بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ جنگی جہاز، بحری بیڑے، لانگ رینج توپیں، بندوقیں اور فوجیوں کی قطاریں‘ ایک دوسرے کے سامنے کھڑی کرکے بھارت کے جرنیل بتا رہے ہیں کہ انڈین فوج کس قدر مضبوط ہے۔ اس پر 2 تبصرے ہو سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ بھارت نے 1965 میں پاکستان اور 1967 میں عوامی جمہوریہ چین سے زبردست جوتے کھائے۔ بھارت کی نام نہاد عسکری کامیابی کی تاریخ یہاں سے ایک ہزار کلومیٹر دور مغربی بنگال سے جُڑے ہوئے مشرقی پاکستان‘ لینڈلاک بھوٹان اور سکم تک محدود ہے۔ اس پر دوسرا تبصرہ ایک ایسی ماں کا ہے‘ جس کا بیٹا کارگل کے برفانی سیکٹر پر کارگل جنگ کے دوران پھٹّے ہوئے جوتوں کے ساتھ مارا گیا۔ اس دکھی ماں سے وار تھیٹر کے تسلسل میں سجائے گئے ایک ٹی وی شو میں جو سوال ہوا، دُکھیاری ماں نے اُس کا دِل دہلا دینے والا جواب دیا۔سوال تھا، آپ کے بیٹے نے کارگل میں وطن پہ جان دی‘کیا پوتے کو بھی فوج میں بھرتی کروائیں گی؟ بھارتی فوجی کی ماں نے کہا: نہیں، نہ پوتا نہ نواسہ نہ کوئی اور رشتے دار‘ میں پورے ہندوستان کی مائوں سے کہتی ہوں کسی کو بھی بھارتی سینا میں بھرتی نہیں کروانا‘ یہ نیتا لُوٹ کر کھا گئے‘ ان کے اپنے بچے فوج میں کیوں نہ جائیں؟ اور بے بسی کے عالم میں لڑتے ہوئے کیوں نہ مارے جائیں؟ دُکھیاری پھر بولی: یہ نیتا جنگ کی بھاشا اپنے مطلب کی برتری کے لیے بولتے ہے۔
برتری کے ثبوت کی خاطر/ خوں بہانا ہی کیا ضروری ہَے
گھر کی تاریکیاں مِٹانے کو/ گھر جلانا ہی کیا ضروری ہَے
جنگ کے اَور بھی تو میداں ہیں/ صرف میدانِ کُشت و خوں ہی نہیں
حاصلِ زندگی خِرد بھی ہَے/ حاصلِ زندگی جنوں ہی نہیں
آئو اِس تیِرہ بخت دُنیا میں/ فِکر کی روشنی کو عام کریں
امن کو جن سے تقویت پہنچے/ ایسی جنگوں کا اہتمام کریں
جنگ، دہشت سے، بربریت سے/ امن، تہذیب وارتقاء کے لیے
جنگ، مرگ آفریں سیاست سے/ امن، انسان کی بقاکے لیے
جنگ، افلاس اور غلامی سے/ امن، بہتر نظام کی خاطر
جنگ، بھٹکی ہوئی قیادت سے/ امن، بے بس عوام کی خاطر
جنگ، سرمائے کے تسلّط سے/ امن، جمہور کی خوشی کے لیے
جنگ، جنگوں کے فلسفے کے خلاف/ امن، پُرامن زندگی کے لیے
ایڈووکیٹ کے جی لویز نے آئینی پٹیشن لکھی، مؤقف اختیار کیا بھارت کے کونے کونے میں کشمیری طلبا اور شہریوں پر حملے جاری ہیں۔قانون کی رَکھشا کرنے والے تماشائی ہیں۔ چیف جسٹس رنجن گگوئی نے سپریم کورٹ آف انڈیا کا 2رُکنی بینچ بنایا اور 11ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور اداروں کو حکم جاری کردیا۔کہ وہ کشمیری طلبا اور نہتے شہریوں کی جانوں کو تحفظ فراہم کریں۔ایسی ہی بات لا ابالی سمجھے جانے والے ڈونلڈٹرمپ کی سمجھ میں بھی آگئی۔امریکی صدر نے کہا ''پاکستان سے مختصر وقت میں ہمارے بہترین تعلقات قائم ہوئے‘اہم ملاقاتیں ہو سکتی ہیں‘‘۔ راجستھانی شہر ٹونک میں انتخابی جلسے کی تقریرمیں مودی بولا میں نے فوج کو کشمیریوں پر چڑھ دوڑنے کی چھٹی دے دی ہے۔
بھارت کا پرائم سپائی ماسٹر،آرمی چیف،مودی اور ریاست بتائے دنیا میں کون تنہا رہ گیا؟؟؟