چائے سے بھرے پیٹ کا پجاری‘ ایشیا سے فرانس تک کِک بیکس کا بھکاری‘ گجرات سے بابری مسجد تک، خونِ مسلم کا شکاری‘ اپریل‘ مئی 2019ء کے الیکشن کی بیماری کے ہاتھوں تاریخی ذلت اور خواری کے گڑھے میں جا گِرا۔ اپنے اگنی بردار ویمان اور یدھ کے اعلان سمیت۔
لال بہادر کا یہ ٹولا/ تُرپ کی دُکی اینٹ کا گولا
پاکستان پہ ہلّا بولا/ مار پڑی تو ہردا ڈولا
مودی کا غرور اور جنگی جنون پاکستان ایئر فورس نے خاک میں ملا کر رکھ دیا۔ آئی اے ایف کے دو مِگ21 طیارے سر کے بل کشمیر کے پہاڑوں کی خاک چاٹنے پر مجبور ہوئے۔ انڈین ایئر فورس کا ونگ کمانڈر ابھی نندن ورتھامند کو آزاد کشمیر کے دیہاتیوں نے پکڑ کر سالم، سنگل پِیس میں پاک فوج کے جوانوںکے حوالے کر دیا۔ انڈین ایئر فورس کا پائلٹ جہاز گرنے سے پہلے ایجیکٹ کر گیا تھا۔ زمین پر پائوں جماتے ہی اس نے پاس چھوٹی سی آبادی دیکھی جہاں سے ایک بابا اسے اپنی جانب آتا دکھائی دیا؛ چنانچہ بھارتی پائلٹ نے پسٹل نکال کر بابے کو ڈرانے کیلئے ہوائی فائرنگ شروع کر دی۔ بابے نے پوچھا: فائرنگ کیوں کر رہے ہو؟ بھارتی پائلٹ بولا: میں کہاں اترا ہوں۔ حاضر دماغ بابے نے کہا: انڈیا میں اور کہاں۔ پھر پاس جا کر پائلٹ کو دیہاتی لڑکوں کے ہمراہ قابو کر لیا۔
لگانے آگ جو آئے تھے آشیانے کو
وہ شعلے اپنے لہو سے بجھا دئیے تم نے
بچا لیا ہے یتیمی سے کتنے پھولوںکو
سہاگ کتنی ہی مائوںکے َرکھ لیے تم نے
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
پاک انڈیا موجودہ ''Escalation‘‘ کے تناظر میں چند نکات کی طرف اکثر دھیان نہیں گیا۔ آئیے ان کا جائزہ لیتے ہیں۔
سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ جدید ہتھیار رکھنے والی دنیا کی تاریخ میں‘ پہلی بار ایٹمی قوت کے حامل ایک ملک نے ایٹمی قوت رکھنے والے کسی دوسرے ملک کے مِین لینڈ پر حملہ کیا۔ اس سے قطع نظر کہ حملے سے کیا اور کتنا نقصان ہوا۔ جدید دنیا کے قوانین، پروٹوکولز، معاہدوں اور کنونشنز کی روشنی میں‘ ایک ملک کے مسلح جہازوں کا دوسرے ملک کی حدود میں داخل ہونا‘ پھر ایریل ڈاگ فائٹ میں ملوث ہونا ہی جارحیت جیسے عالمی جرم کو مکمل کر دیتا ہے۔ حملہ آور مارا جائے‘ پکڑا جائے یا بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو جائے‘ تینوں صورتوں میں Aggressor یا Intruder یعنی حملہ آور ہی کہلائے گا۔ لہٰذا ہندوستان ہماری سرزمین کے خلاف کھلی جارحیت جیسے سنگین عالمی جرم کا مجرم ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ پاکستان جوابی کارروائی کا قانونی حق محفوظ رکھتا تھا‘ جسے دنیا کا ہر خود مختار ملک یا حکومت استعمال کرتے چلے آئے ہیں۔ پاکستان کی جوابی عسکری کارروائی، فوجی روایات اور عالمی قوانین کے عین مطابق ہے‘ جس میں کہیں پہ نہ تو تجاوز ہوا اور نہ ہی کوئی اوور ری ایکشن۔
تیسرا نکتہ بھی بہت اہم ہے۔ یاد رہے کہ ہندوستان نے سرزمین پاکستان پر دراندازی کی‘ اس کے لئے مسلمہ بین الاقوامی بارڈر کو بزورِ طاقت کراس کیا اور اس طرح پاکستان کی Aerial Sovereignty کو مجروح کرنے کا مجرم ٹھہرا۔ دوسری جانب پاکستان کی مسلح افواج نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان متنازع علاقے میں بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ کشمیر کی سیزفائر لائن پر نشانے لگائے۔ جن میں کوئی بھی سویلین ٹارگٹ شامل نہیں تھا۔ نہ ہی کسی غیر مسلح شہری یا نان کمپیٹنٹ کو شکار کیا گیا۔ اس لئے یہ حملہ عالمی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقے پر ناجائز قبضہ جما کے بیٹھنے والی فوج کے زیر استعمال اسلحہ و بارود پر ہوا‘ جسے نہ تو کسی ملک کی خود مختاری میں مداخلت قرار دیا جا سکتا ہے‘ نہ ہی کسی بھی طرح کی جارحیت۔ یہ متنازعہ علاقے کی سیزفائر لائن کی کراسنگ زیادہ سے زیادہ Behind the enemy line سٹرائیک کہلائے گی۔
چوتھا نکتہ پاکستان اور بھارت کی مسلح افواج کے پروفیشنلزم کا تقابلی جائزہ لینے پر مبنی ہے۔ وہ پیشہ ورانہ وقار جس پر ہمارے تبصرے سے زیادہ بے لاگ بات قیدی انڈین فائٹر پائلٹ ابھی نندن نے خود کر دی۔ انڈین پائلٹ نندن سے پوچھا گیا کہ تم پاکستانی افواج کی تحویل میں کیسا محسوس کر رہے ہو۔ انڈین پائلٹ نے کہا ''پہلے مجھے یہ بات ریکارڈ پر لانے دیں کہ پاکستان کی فوج نے میرے ساتھ اعلیٰ پیشہ ورانہ اخلاقی سلوک کا مظاہرہ کیا۔ میں اس موقع پر اپنی بھارتی فوج سے یہ کہنا چاہوں گا کہ وہ بھی ایسا ہی سلوک سیکھ لیں۔ میں اگر رہا ہو کر اپنے ملک واپس چلا گیا‘ تب بھی میں اپنا یہ والا بیان نہیں بدلوں گا۔ مجھے پاک فوج کے جوانوں نے ہجوم سے بچایا۔ خاص طور پر وہ نوجوان کیپٹن جس نے بپھرے ہوئے لوگوں اور اپنے سپاہیوں سے محفوظ بنا کر مجھے اپنی بٹالین تک پہنچا دیا۔ میں بہت مطمئن ہوں اور پاکستان کی چائے بھی بہت اچھی ہے‘‘۔پانچواں نکتہ: جس طرح ''حرب الرمضان‘‘ میں مصر نے اسرائیل کی آہنی دیوار عبور کرکے Impertainable ریاست کے تصور کو پاش پاش کر دیا تھا۔ اسی طرح پاکستان کی مسلح افواج نے بھارت کی برتری کے زعم والے بلَف کو کال کرکے ایکسپوز کر دیا ہے۔
چھٹا نکتہ: بھارت کا RAW زدہ کارپوریٹ میڈیا ایک طرف رہنے دیتے ہیں۔ آج بھارت کے سارے سیکولر عناصر، درجنوں اینٹی برہمن ریاستیں اور یوتھ کی بھاری تعداد‘ دونوں مودی اینڈ دوول ڈاکٹرائن کی مخالفت میں بول رہے ہیں۔ اسی تسلسل میں بھار ت کے کروڑوں سِکھوں نے بھی اپنا وزن مودی کے پلڑے میں نہیں ڈالا۔ نہ ہی کسی گلوبل کیپٹل میں مودی کے اینٹی ٹیررازم ڈرامے کو پذیرائی بخشی گئی۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان کی صورت میں دے دیا۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان پہلے سے ہی کشیدگی کا مخالف ہے۔ ہم پاک بھارت کشیدگی ختم کرانے کے لئے کوشاں ہیں۔ پاکستان اور بھارت دونوں سے کہیں گے اپنے درمیان کشیدگی ختم کر دیں۔ یہ وہی صدر ٹرمپ صاحب ہیں جن کی حکومت آتے ہی گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام کے بڑے ملزم پر امریکہ داخلے کی پابندی اٹھائی گئی۔ نریندر مودی نے صدر ٹرمپ کے ساتھ پورا بھانڈ پن اور مراثی پُنا کیا۔ سمجھ لیا کہ اب امریکہ جیسا بڑا ایکٹر اس کی ڈرامہ بازی کی حقیقت جان کر پاکستان کے خلاف بول اٹھے گا۔ مگر مودی کی ایک جنگجویانہ جہالت نے بھارت کو دنیا بھر میں بے توقیر اور بے حمایت کروا دیا۔ ایک اور حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ بلکہ اب تو اس ناقابل تردید حقیقت کی کنفرمیشن میں بی جے پی کے لیڈر بی ایس یادیو رایا نے ساری دنیا کے سامنے کھل کر کہا کہ نریندر مودی کی پارٹی کو موجودہ جنگی جنون کے بدلے میں مزید 21 نشستیں ملنے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔
کبھی اس بات کو سوچا ہے بھارت کے مہا پُرشو
تمہارے ملک میں اک داستان ہم چھوڑے آئے ہیں
قدم ایبک کے، غوری کی سناں، محمود کی ضربیں
ہزاروں بت کدوں کے درمیاں ہم چھوڑ آئے ہیں
معین الدین ؒکی چوکھٹ، نظام الدین ؒکا روضہ
علائوالدین صابرؒ کا مکاں ہم چھوڑ آئے ہیں
کہتے ہیں آج سے دو اڑھائی ماہ بعد ووٹ کی پرچی بھارت کی جنم کنڈلی تحریر کرے گی۔ اپوزیشن کی تمام جماعتیں ووٹر کی شناخت کے عمل اور الیکٹرانک ووٹنگ پر مسلسل عدم اعتماد کا اظہار کر رہی ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ مشینیں اسرائیل سے آئی ہوں۔ اگر امریکہ جیسے طاقتور جمہوری ملک کا الیکشن انجنیئرڈ ہو سکتا ہے تو پھر بھارتی اپوزیشن کی طرف سے پری پول دھاندلی کے الزامات میں یقینا وزن ہو گا۔ کرائے کے سروے کروا کر مودی حکومت اپنی برتری کا اعلان کر رہی ہے۔ کامیابی کے یہ ایڈوانس اعلان اب میجک سے خالی ہو چکے ہیں‘ کیونکہ پاکستان کو چیونٹی کی طرح مسل دینے کی بڑھکیں مارنے والوں نے چیونٹی کے پائوں میں ہاتھی کی لاش دیکھ لی ہے۔ کہنے کا مطلب ہے مگ21 والا ہاتھی۔ بانیِ پاکستان یاد آتے ہیں۔ حضرت قائد اعظم ؒ نے فرمایا تھا: "There is no power on earth, that can undo Pakistan"
اے میرے خون میں ڈوبے ہوئے پرچم کی قسم
تو نے جینا ہے قیامت کی سحر ہونے تک