بد خُلق کی بات نہیں کرنے لگا۔ اسے تو وارث شاہ نے 17ویں صدی سے یُوں مسترد کر رکھا ہے:
شرم باجھ مُچّھاں، عمل باجھ داڑھی/ بد خُلق دا ہوندا کوئی یار نا ایں
لیکن المیہ کہہ لیں یا لطیفہ۔ اب اخلاقیات میں بھی وَن وے ٹریفک کا زمانہ آن پہنچا ہے۔ جو رنگ برنگے اعتراض ہم آٹھوں موسموں میں دوسروں پر کرتے ہیں‘ وہ بھی اپنی اخلاقی برتری جھاڑنے اور دوسروں کو انڈر ڈاگ بتلانے کے لیے‘ ویسا ہی اعتراض۔ اگر لاکھوں میں ایک بھی ہماری طرف بائونس کر جائے تو پھر خدا کی پناہ۔ قیامت برپا ہو جاتی ہے۔
آئی اے ایف کے پائلٹ ابھی نندن کو جلد بازی میں کیوں رہا کیا۔ عمران خان مودی کے خلاف بول کر دکھائے۔ خود چاہیں تو اس اناڑی کی طرح جو وکٹ کی دونوں طرف شارٹ مار سکتا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی کی طرف منہ کرکے سجدہ گزار بن جائیں۔ کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خاندانی حکمرانوں کے شاہی فرمانوں پر بھی تبصرہ گزار ہو سکے۔ ریکارڈ درست کرنے کے لیے قندِ مکرر کے طور پہ عرض ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے اسمبلی کے فلور پر اپنے تازہ ترین خطاب میں پارلیمانی اپوزیشن کا شکریہ ادا کیا تھا۔ کھلے دل سے۔ شکریہ ہی نہیں بلکہ ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ بھارت کے خلاف قومی مؤقف کے حق میں پارلیمانی اپوزیشن کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ صوبہ سندھ میں دورۂ چھاچھرو تک عمران خان، پی ٹی آئی نہ ہی کابینہ کے کسی رکن نے سیاسی گفتگو کی۔ ساتھ یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے کہ طعنے، کوسنے اور الزامات انگریزی میں لگائے جائیں یا اردو میں۔ وہ فریقِ ثانی کو اسمبلی کے فلور پر رائٹ آف ری بَٹل اور پبلک لائف میں حقِ دفاع فراہم کرتے ہیں۔
چھاچھرو پاکستان میں پسماندہ ترین علاقہ کہہ لیں۔ وزیرِ اعظم نے وہاں جلسے میں ایسا کیا فالتو کہہ دیا، جو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کے شایانِ شان نہ تھا۔ کون سا لفظ اس عہدے کو بد خُلق کے دائرے میں لاتا ہے۔ کیا ایک پارٹی کے فاضل سربراہ نے انگریزی میں تقریر نہیں پڑھی۔ وہ بھی ایسی اسمبلی کے فلور پر جس کو منتخب کرنیوالوں کی اکثریت مشکل سے اردو میں دستخط کر سکتی ہے۔ اور ہمارے تعلیمی گُرو اپنا رانجھا راضی کرنے کیلئے خواندہ شہری کہتے ہیں۔ اسی قبیل کے شہری پارلیمنٹ کے اندر بھی پہنچتے رہتے ہیں۔ یہ طعنہ نہیں‘ سب کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔
سینئر کالمسٹ جناب منیر احمد بلوچ نے اسی صفحے پر بڑے کام کی بات کی‘ بلکہ شریف خاندان کے پسند کے علاج کا فیثا غورث حل کر دیا۔ کون نہیں جانتا‘ مرض چھوٹا ہو یا بڑا ہر کسی کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ نزلہ زکام بھی منہ کا ذائقہ تک بدل کر رکھ دینے کے لیے کافی ہے۔ بیماری پر سیاست نہیں کی جانی چاہیے۔ ہرگز نہیں۔ کیونکہ یہ کم ترین سیاسی اخلاق کا بنیادی اصول ہے۔ نواز شریف کی بیماری پر بھی نہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف کی بیماریوں، بلکہ آلِ شریف کے 3 عدد مفرور مریضوں‘ یک نفس عدالتی اشتہاری سمدھی‘ بڑے بھائی کے اشتہاری بیٹوں‘ جن بے چاروں کو مے فیئر فلیٹس میں رہنے کا عارضہ لاحق ہے۔ ہاں یاد آیا بائو جی کا بھتیجا اور بھتیجے کا بہنوئی بھی۔یہ دونوں بے چارے بھی نا سازیٔ طبع کی وجہ سے عدالتی ہرکارے کے پکارے سُننے سے عاری ہیں۔ مزید یاد آیا آلِ شریف کی دونوں حکومتوں میں میرے ایک مؤکل سابق صدر آصف علی زرداری ان کے پسندیدہ قیدی ہوا کرتے تھے۔ میرے اس مؤکل کو اڈیالہ، کوٹ لکھپت اور سنٹرل جیل کراچی کی کال کوٹھڑیوں میں 4 سال گزارنے کے بعد بیک پِین ہو گئی؛ چنانچہ وہ لاٹھی پکڑ کر عدالت آئے۔ آلِ شریف اور ان کے پالتو برگیڈ فوراً حملہ آور ہو گئے کہ لاٹھی تو ضمانت لینے کا اِک بہانہ ہے۔ پھر ان کی زبان کاٹ دی گئی۔ سرکاری مؤقف تھا: قیدی خود کشی کر رہا تھا۔ لہٰذا قیدی خود کشی کے پرچے میں بھی نامزد ہو گیا۔ ڈیڑھ 2 سال مزید گزرے تو اسے کچھ مزید Disorder ہو گئے۔ آلِ شریف نے کہا: وہ جعلی پاگل بن رہا ہے تاکہ جیل سے رہا ہو سکے۔ یادداشت پر تھوڑا سا اور زور ڈالیں تو آپ کو شرمیلا فاروقی مردانہ حوالات میں پھٹے والے بینچ پر بیٹھی نظر آئیں گی۔ وہ اور ان کی نستعلیق والدہ اور والد بلکہ ان کے تایا سلمان فاروقی بھی میرے مؤکل رہے۔ سب بیمار ہوئے مگر انہیں جیل ہسپتالوں سے باہر نکالنے کے لیے طویل عدالتی جنگ لڑی گئی۔ میں صرف علاج کے لیے ہونے والی عدالتی جنگ کی بات کر رہا ہوں۔
خیر چھوڑئیے ماضی کے جمہوری کارناموں کا تذکرہ جدید اخلاقیاتی ڈکشنری سے خارج ہو چُکا ہے۔ ہاں البتہ! ضابطہ فوجداری کے تحت چلنے والے مقدموں میں آج بھی چلن ملزم قبل از وقوعہ اور چلن ملزم ما بعد از وقوعہ عدالتی اخلاقیات کا قانونی تقاضا ہیں۔ اسی تناظر میں مورخہ 8 فروری 2019 کے وکالت نامے میں ''بیماری کو عزت دو‘‘ کا سوال اُٹھایا گیا‘ جس کی چند لائنیں یوں تھیں:
''1973 کے آئین کے آرٹیکل 2-A‘ آرٹیکل 4، آرٹیکل9 اور آرٹیکل 25 میں ایک ہی بنیادی حق مختلف طریقوں سے بار بار گارنٹی کیا گیا۔ سب شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں۔ سب شہریوں سے مساوی اور ایک جیسا سلوک ہو گا۔ قانون اور ضابطوں کا یکساں تحفظ سب کے لیے، نا قابلِ تنسیخ حق ہے۔ مگر اِن رہبروں کو دیکھیے جو قومی وسائل کی راہزنی میں گرفتار ہیں۔ جیل کے اندر بیٹھ کر مرضی کا ہسپتال۔ مرضی کے ڈاکٹرز، مرضی کی گاڑی اور مرضی کے سٹاف کی چوائس کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ یہی اصول جمہوریت ہے اور جیل بھی۔ ووٹ کی طرح بیماری کو بھی عزت دو۔
آج یہی مطالبہ سارے کر رہے ہیں۔ ساری اپوزیشن کر رہی ہے‘‘۔ سوال جو آج اُٹھایا جا رہا ہے اس کے 3 حصے ہیں۔ پہلا حصہ؛ یہ کہ جو بیماریاں نواز شریف صاحب کو لاحق ہیں ان کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں۔ کیا بیماری کی یہ Plea کسی مجاز عدالت میں پہنچی۔اور کیا اس پر مجاز عدالت نے سماعت کی۔اپنا مائنڈ اپلائی کیا اور پھر کوئی جوڈیشل فائنڈنگ اس بارے میں صادر ہوئی۔اس کا جواب ہے: جی ہاں! پہلے نواز شریف کے وکیلوں نے میرٹ پہ درخواستِ ضمانت دائر کی جو ہر ملزم کا قانونی حق ہے۔ پھر اس درخواست کو واپس لے کر میڈیکل گرائونڈ بنائی گئی۔ اس کے لیے 5 میڈیکل بورڈ وقتاً فوقتاً بیٹھتے رہے۔ وہ بھی جاتی امرا اور ماڈل ٹائون کے ارد گرد رہنے والے ڈاکٹروں پر مشتمل۔ یہ ساری میڈیکل رپورٹس اور بیماری کا ریکارڈ عدالت نے طلب کیا‘ ساتھ ڈاکٹر کو بھی۔ کئی ہفتے سماعت ہوئی‘ جس کے بعد وفاقی ہائی کورٹ کے 2 فاضل جج صاحبان مسٹر جسٹس عامر فاروق صاحب اور مسٹر جسٹس محسن اختر کیانی صاحب پر مشتمل ڈویژن بینچ نے متفقہ فیصلہ جاری کیا۔ D.B کے دونوں فاضل ارکان کی فائنڈنگ یہ ہے کہ قیدی لیڈر کو کوئی ایسا مرض لاحق نہیں جس کا علاج پاکستان میں موجود اور ممکن نہ ہو۔ یہ بھی بات طے ہے کہ اس فیصلے کو نواز شریف نے خود سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ ان حالات و واقعات کی موجودگی میں میرا کوئی تبصرہ نہیں بنتا۔
دوسرے؛ یہ کہ کیا پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت یا گورنمنٹ آف پنجاب نوا زشریف کا علاج کرانے سے انکاری ہے۔ یہ انکار کس نے کیا۔ جیل سپرنٹنڈنٹ۔ کسی ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے۔ آئی جی جیل خانہ جات نے یا کسی عدالتی فورم نے۔ عثمان بُزدار نے یا پنجاب کی وزیرِ صحت نے۔ جواب صاف ظاہر ہے کسی نے بھی نہیں۔ ایک خوبصورت غنائیے کے چند مصرعے ذہن میں کوندے ہیں۔ آئیے شیئر کر لیں۔جگ والے آئے سمجھانے/ پاگل مَن کوئی بات نہ مانے/کیسی انوکھی بات رے/انوکھا لاڈلا (باقی رہنے دیتے ہیں)۔ تیسرے حصے کا جواب منیر بلوچ کے کالم میں ہے۔ 3 لفظوں میں یہ جواب ہے، شریف جمع میڈیکل جمع سٹی۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے حکومتِ پنجاب کو ملک کے اندر تمام موجود میڈیکل سہولت نواز شریف کو فراہم کرنے کا حکم دیا۔ عثمان بُزدار نے کارڈیک میڈیکل یونٹ جیل بھجوا دیا۔
مختصر ترین حقائق اوپر درج ہیں۔ فیصلہ خود کر لیں۔ علاج سے کون انکاری ہے۔ کوئی سرکاری کارندہ، حکومتی نمائندہ۔ جیل کا اہلکار یا شریف فیملی۔
رہے عام قیدی، علاج کو کیا وہ ہر سہولت کو ترستے ہیں، تڑپتے ہیں۔
تِشنگی، تِشنگی ارے توبہ! قطر ے قطرے کو ہم ترستے ہیں
اے خداوندِ کوثر و تسنیم، تیرے بادل کہاں برستے ہیں