اتنے برانڈ اور قِسمیں ہیں جتنے پلاسٹک کے لفافے، سوشل میڈیا کے ''مِیم‘‘ بلکہ تاجرانہ خواب۔ اس لیے ریٹنگ کرنا مشکل ہے۔ کسے بستہ الف میں رکھا جائے اور کس کس کو 2 نمبر۔
چلیے ہَڈ بِیتی سے شروع کر لیتے ہیں۔ جو موصوف ملنے تشریف لائے وہ KP کے دوردراز علاقے کی بات کرنے لگے۔ پہلے سرکار پر ہذیان نما غضب، جو اُن کے بقول انہیں 70 سال سے نظرانداز کر رہی تھی۔ پھر فوج پر غصہ۔ قلعے بنانے، باڑ لگانے، بارڈر ریگولیٹ کرنے، پاکستان میں داخلے کی شرط کو ویزے سے مشروط کرنے جیسے ''گناہ‘‘ شکایت نامے کا ماحصل ٹھہرے۔ پھر عدلیہ کی باری آئی۔ ایف بی آر کا تو نام ہی کافی ہے۔ پولیس، تھانہ۔ الغرض، ہر ریاستی ادارے پر بھرپور چاند ماری کی۔ وہ بے تھکان بولتا رہا، میں صبر سے سُنتا رہا۔ رنگباز نے جو پکچر پینٹ کی انگریزی زبان میں ایسے منظرنامے کو Doom's Day کہا جاتا ہے‘ جس کا سادہ ترین مفہوم ہے‘ قیامت کا منظر۔ پھر انہوں نے فرمایا: اس سردی میں آپ کو معلوم ہے ان زیادتیوں کا نتیجہ کیا نکلا؟ میں نے کم علمی کا اعترا ف کرتے ہوئے نفی میں سر ہلا دیا۔ فاتحانہ انداز میں کہنے لگے: چلغوزے کی قیمت آسمان پر چلی گئی۔ اس کلین شیو سوٹِڈ بُوٹِڈ شخص کے ساتھ دو بارِیش بزرگ بھی تھے۔ پشتو زبان میں انہیں مَشران کہتے ہیں۔ روایتی لباس اور بے ریا سادہ انداز۔ ان دونوں مَشران کی حالت دیدنی تھی۔ گفتگو کے دوران وہ پہلے حیران ہو کر اس دیسی گورے کو دیکھتے پھر مجھے۔ آخر میں مغربی سرحدی علاقے کے غریبوں کے اس غمگُسار نے تُرپ کا پتا نکال ہی لیا۔ دو عدد این جی اوز کے لیے موصوف کو سفارش درکار تھی۔ تفصیلاتِ سفارش کی چِٹ پکڑنے کے بعد میں نے پوچھا: آپ کہاں رہتے ہیں۔ بولے: E-7 میں۔ (یہ اسلام آباد کے پوش اور غالی ترین سیکٹرز میں سے ایک ہے) کہنے لگے: دو بچے یورپ میں ہیں، دو بہت چھوٹے۔ خود ہی بتایا: چھوٹی اولاد دوسری بیوی سے ہے۔ میں پشتو زبان بول لیتا ہوں اس لیے مَشران سے خیر خیریت دریافت کی اور پوچھا: کوئی کام، کوئی غرض، کوئی خدمت۔ شاد کام بزرگوں نے کہا: شکریہ آپ کی ڈھیروں مہربانی۔ دیسی گورے سے میرا آخری سوال تھا: آپ گائوں جاتے ہیں؟ کہنے لگے: کہاں جی! ان غریبوں کے مسائل اتنے ہیں کہ اسلام آباد میرا پیچھا ہی نہیں چھوڑتا۔ اس ''اِنکائونٹر‘‘ کو بِلا تبصرہ جانے دیتے ہیں۔
ہمارے ایک وکیل دوست سابق وزیر اعظم کے غمگُسار نکلے۔ اگلے روز سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم صاحب اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کی عدالت میں سنٹرل پنجاب کے دو بڑے خاندانوں میں عائلی تنازعے کو آلٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولیوشن کے ذریعے سلجھایا گیا۔ یہ مقدمہ سال 2016 میں سپریم کورٹ میں دائر ہوا تھا۔ سپریم کورٹ کے فاضل بینچ نے ٹیکنیکل ناک آئوٹ اور کیس ڈسپوزل کی راہ پر چلنے کی بجائے خاندان کے مَشران کا کردار ادا کیا‘ جس کے نتیجے میں فریقین نے آپس میں آئوٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کر لیا۔ اس موقع پر بینچ کے فاضل ارکان نے ریمارکس دیے کہ وکلا فیملی کیسز میں مفاہمتی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وگرنہ نظر ''خرچی‘‘ پر ہو تو گھر ٹوٹتے ہیں، خاندان جوڑے نہیں جا سکتے۔
عدل کے ادارے اور سچے قاضی سے بڑا مظلوموں کا غمگُسار اور کون ہو سکتا ہے۔ ہم سب کو یاد ہے‘ 8 اگست 2016 کے دن بلوچستان میں وکلا پر بے رحمانہ دہشت گردی کے پہاڑ ٹوٹے۔ چند دن بعد سپریم کورٹ کے تقریباتی ہال میں ججز اور وکلا اکٹھے تھے بلکہ سپریم کورٹ کے کورٹ رپورٹرز بھی۔ ایسے موقع پر غیر رسمی مگر کھلی ڈلی گفتگو ہوتی ہے۔ عدلیہ کے ایک فاضل رُکن سے چائے پر مکالمہ ہوا۔ موضوع تھا: بلوچستان میں بے گناہ مارے جانے والے وکیل۔ گفتگو میں کئی احباب شریک تھے۔ وکلا کی سکیورٹی کی بات آئی تو انہوں نے حیران کُن تبصرہ کیا۔ فرمایا: ریڈ زون، وی آئی پی ایریاز اور نو گو ایریاز کو ختم کر دینا چاہیے۔ جب تک بڑے محلات کے ارد گرد قومی خرچے پر بنائی گئی اونچی دیواریں نہیں توڑی جائیں گی‘ اندر بیٹھے لوگوں کو باہر والوں کی سکیورٹی کی کوئی پروا نہیں ہو گی۔ میں نے پوچھا: پھر مسئلے کا حل کیا ہے؟ کہنے لگے: ایکسٹرا سکیورٹی کا خاتمہ اور سرکاری خرچ پر نا جائز پروٹوکول کی واپسی۔ سننے والے حیرت اور بے یقینی کی ملی جلی کیفیت میں غلطاں رہے‘ جس کی وجہ بڑی جائز تھی۔ دوسروں سے پروٹوکول کی واپسی کا مطالبہ کرنا یا پھر حُکمیہ طور پر، سرکاری پروٹوکول ختم یا کم کروا دینا اور بات ہے۔ اپنی باری آ جائے تو ایسا طرزِ عمل ''ٹائیگر اِن دی ٹینک‘‘ یعنی شیر کا کلیجہ مانگتا ہے۔ کئی ہفتے پہلے پارلیمنٹ کے سامنے ڈی چوک پر نا قابلِ یقین منظر دیکھنے کو ملا۔ میرے گھر سے سپریم کورٹ پہنچنے کے لیے معمول کا راستہ یہی ہے۔ مجھے یوں لگا جیسے وہی فاضل جج صاحب پیدل سپریم کورٹ جا رہے ہیں، ایک خالی ہاتھ اہلکار کے ساتھ۔ مگر جلدی میں صرف ایک جھلک سی نظر آئی اور میری گاڑی آگے بڑھ گئی۔ اس واقعہ کے بعد دو تین ہفتے اور گزر گئے۔ میں روٹین کے مطابق سپریم کورٹ جانے کے لیے پریزیڈنسی والے چوک میں پہنچا تو وہی منظر پھر سَچ مُچ دیکھ کر خوش گوار حیرت میں ڈوب گیا۔ کیونکہ پھر میرے سامنے سپریم کورٹ آف پاکستان کے وہی فاضل جج صاحب ایک اہلکار کے ساتھ پیدل سڑک کراس کر کے ڈی چوک سے سپریم کورٹ جا رہے تھے۔ یہ وہی حضرت ہیں جن کے بزرگ بابائے قوم حضرتِ قائدِ اعظم ؒ کے ساتھ مل کر پاکستان کو تخلیق کرنے کی جدوجہد میں شریک ہوئے۔ شاعر کا نام تو اس وقت ذہن میں نہیں آ رہا‘ جس کا یہ شعر یاد آتا ہے۔
قیس سا پھر نہ جَنا، کوئی بنو عازم میں
فخر ہوتا ہے، قبیلے کا سدا ایک ہی شخص
بات ہو رہی تھی غم گُساروں کی جن میں سے دو قسمیں سیاسی تجزیہ کاری سے تبصرہ نگاری تک چھائی ہوئی ہیں۔ پہلی قِسم قدم بڑھائو، ہم تمہارے ساتھ ہیں والی ہے۔ جو بیمار نواز شریف کو مردِ آہن بنا کر دم لیں گے۔ بیماری سے اللہ بچائے‘ لیکن سماجیات کے کچھ سیانے آج کل حیرانے ہوئے ہیں۔ جس کا سبب سابق وزیر اعظم کے چار میں سے تین بچوں کا رویہ ہے۔ مریم صفدر ملک تواتر سے کہتی ہیں: ابا جی کی بیماری جان لیوا ہے۔ اسی بنیاد پر سپریم کورٹ نے نواز شریف کو 6 ہفتے کی ضمانت علاج کروانے کے لیے دے دی۔ مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ ابا جی اس قدر علیل ہوں تو دوسری بیٹی اور دو عدد بیٹے والد کی تیمارداری کے لیے ایک بار بھی اسے نہ دیکھیں۔ جس طرح جوان ماں باپ چھوٹے بچو ں کی غم گُساری کرتے ہیں‘ عین اسی طرح سے بڑے بچے بوڑھے والدین کے ہاتھ کی لاٹھی بنتے ہیں۔ یہاں لاٹھی سے مراد عَصا ہے۔ پولیس کے لاٹھی چارج والا "Batton" نہیں۔ دوسری قِسم وہ ہے جنہوں نے ''جِین ڈِکسن‘‘ کی کتابوں کی سیل کا تختہ کر رکھا ہے۔ اتنے نجومی، اتنے ستارہ شناس، اتنے مستقبل بین۔ مفت مشورے دینے والے اچھے، اچھے میک اپ، بالوں کے اتنے اعلیٰ جَیل، مردانہ غازہ، لالی اور پائوڈر سمیت۔ 24 گھنٹے ریاست کی غم گُساری کرتے ہیں۔ حکومت، معیشت، معاشرت۔ سیاسیاتِ عالم سے اقتصادِ عالم تک۔ اچھی سفارت کاری سے اچھی گورننس تک سب کچھ بے دام۔ جہاں ہمیں اپنی اس نعمتِ غیر مترقبہ پر فخر آتا ہے‘ وہاں چین، روس، ملائیشیا، سنگا پور، کوریا، جاپان، امریکہ، کینیڈا، یو کے، یورپ، جرمنی وغیرہ پر ترس بھی کہ اگر یہ وہاں ہوتے تو سوچ لیجئے ان ملکوں کا ستارہ کہاں جا پہنچتا۔
آئو، بادہ کشوں کی بَستی سے، کوئی انسان ڈھونڈ کر لائیں!
میں فسانے تلاش کرتا ہوں، آپ عنوان ڈھونڈ کر لائیں!