لائٹر نوٹ پر سنجیدہ موضوع آگے بڑھانے کا فن سعید خان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا تھا، مگر سعید خان نے رنگیلا کہلانا پسند کیا۔ اکیلا فلمی رنگیلا۔ مگر آج رنگیلوں کی قطاریں ہیں۔ غیر فلمی فن کار رنگیلے۔ رنگیلا مرحوم نے انتہائی سنجیدہ موضوع پر مزاحیہ فلم بنائی جس کے ذریعے گدھوں میں موجود انسانی خصلتوں اور ماڈرن ترین لباس میں گدھے کی عادات کو ایکسپوز کیا۔ ساتھ ہی نظام پر لات مارنے کو شعر میں جَڑ دیا۔ بے تُکا نہیں بلکہ انتہائی پُرمغز اور بامعنی انداز میں۔ اس طرح سے ؎
میں تے ماراں گا دولَتی سنسار نُوں
ایتھے لوکی ترسدے نے پیار نُوں
فی زمانہ اکثر رنگیلے ایسے ہیں جنہیں لات پڑ جائے اور وہ کہیں کے نہ رہیں تو نوکری کو لات مار کر چھوڑ آنے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ خاص طور پر سیاست اور سات سمندر پار سے۔
بکرمی سال میں یہ چیت کے خاتمے کا سیزن ہے، اس لیے بیساکھی کی آمد پر نئے شگوفے پھوٹ رہے ہیں۔ سب سے زیادہ چٹخنے والا شگوفہ ملکی نظام پر لات پہ لات والا ہے۔ عجب عبرت سرائے دہر ہے، عمومی سے اہلکار بھی خود مختار ہو گئے۔ ایسے خود مختار کہ بڑے بڑے گریبان چاک ہو رہے ہیں۔ شیرِ پنجاب سیزن تھری کا 2 دن ڈرامہ چلتا رہا۔ پانچ پانچ گھنٹے میراتھن ٹی وی کوریج چلی، سیڑھیاں آئیں‘ احتساب کا ادارہ اور پولیس بھی مگر شیر، شیر ہوتا ہے۔ شیر کا بچہ ہو یا بھتیجا اسے تہہ خانے سے نکالنا آسان کام نہیں۔ ویسے ہی جیسے تہہ خانے والے کے مفرور بھائی۔ مفرور بہنوئی، مفرور سمدھی، مفرور بڑے کزن اور مفرور چھوٹے کزن جیسے شیروں کو لندن کے گورے جنگل سے پکڑنا آسان نہیں۔
شگوفے پھوٹنے کے اس موسم کا ایک اور ثبوت بڑی بڑی آوازیں ہیں۔ تازہ سیاسی ڈکشن میں جنہیں چیخیں کہا جا رہا ہے۔ جمہوریت کے پھل فروٹ سے مالا مال وہ بچے جنہوں نے ارب پتی کے طور پر جنم لیا‘ وہ بھی لات مارنے پر تیار ہیں۔ لات جھاڑنے کی دلیل یہ ہے کہ مجھ سے بچپن والے زر و مال کا حساب کیوں پوچھتے ہو۔ ان ارب پتی بچوں کے کھرب پتی بڑوں سے تفتیش کاروں نے سوال کیے کہ دولت کہاں سے آئی؟ جواب ملا: مجھے کیا پتا۔ پھر سوال ہوا: وہ کیسے؟ جواب آیا: یہ سب میرے بچوں کے نام ہے‘ اُن سے پوچھو۔ بچہ کہتا ہے: مجھ سے مت پوچھو‘ میں تو بچہ تھا، عقل کا کچا تھا۔ اور بچہ جو چیز بھی ہاتھ آ جائے اس میں منہ مارتا ہے۔ اب اگر میں بڑوں کی بے نامی میں منہ مار رہا ہوں تو اس میں میری کیا خطا اور کون سی غلطی۔ میں ویسے ہی بے گناہ ہوں جیسے فالودے والا، ٹین والا، ڈبے والا، سائیکل والا، ریڑھی والا اکائونٹ ہولڈر۔ اور جہاں تک لات مارنے کا تعلق ہے تو جس کسی کے بین الاقوامی پیٹ پر مسلسل احتسابی سوالات کی لاتیں پڑ رہی ہوں‘ اس نے تو سنسار کو دولَتی جھاڑنی ہی جھاڑنی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ لات کسی منات کی ہمشیرہ نکل آئے۔
ایک اور لات وہ بھی ہے جو اپنے ہی بنائے ہوئے احتساب کے نظام پر ماری جا رہی ہے۔ وہ بھی تواتر سے۔ ایک محاورہ بم پر لات مارنے والا بھی ہے۔ سال سوا سال پہلے ایسی لاتیں چاچا نے ماری تھیں۔ شہرِ اقتدار کے جانکار کہتے ہیں: اس سلسلے کی آخری لات لندن پریس کانفرنس کے دوران ماری گئی تھی۔ اب خیر سے بھتیجے کی باری ہے۔ جس کی فیکٹریوں، مِلوں، مرغی خانوں اور ڈیری فارموں کے ملازموں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ مگر اس کے کہنے پر دو اڑھائی سو سے زیادہ لَت باز کبھی باہر نہیں نکل سکے۔ یہ بھی کوئی کہنے والی بات ہے کہ پنجاب کی آبادی 12 کروڑ سے زائد ہے۔ وہ لوگ جو جمہوریت کے نام پر تھڑے سے جہازوں پر جا پہنچے اور چوبارے سے محلات میں‘ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کوئی وقت ایسا بھی آ سکتا ہے‘ جب ان کے تصورِ احتساب کے ہرکارے کو ان کے گھر کا پتا مِل جائے گا۔ اس لیے ٹی وی کیمروں پر ان کا تکبر غصے سے ہوتا ہوا 'آئو مل کر معیشت ٹھیک کریں‘ پر لینڈ کرتا ہے۔ مگر کوئی پوچھے‘ کس کی معیشت کی بات کر رہے ہو۔ پاکستان کی‘ جسے برباد کرنے والے کو وزیرِ اعظم کے جہاز میں یوکے فرار کرایا گیا۔
اس وقت سوشل میڈیا پر حمزہ شہباز کی ضمانت پر 2 سوال پوچھے جا رہے ہیں۔ پہلا؛ جو شخص خود عدالت میں پیش ہونے نہیں گیا۔ جس پر، پرچہ درج نہیں یا وہ گرفتار نہ ہو‘ کیا اُسے ضمانت مل سکتی ہے۔ پاکستان کا قانون جواب دیتا ہے‘ بالکل نہیں۔ ملاحظہ کریں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 498-A جس کا عنوان یہ ہے:
[498-A. No bail to be granted to a person not in custody, in Court or against whom no case is registered etc.
کوئی بھی ضمانت کسی ایسے شخص کو گرانٹ نہیں کی جا سکتی، جو شخص گرفتار ہو کر کسٹڈی میں نہ ہو، یا جو شخص عدالت میں حاضر نہ ہو یا پھر جس شخص کے خلاف کوئی مقدمہ درج رجسٹر نہ ہو۔ ضابطہ فوجداری کے اس قانون میں کوئی ابہام نہیں ہے‘ لہٰذا تبصرے کی ضرورت نہیں۔
دفعہ 498-A کے علاوہ ضمانت بعد از گرفتاری اور قبل از گرفتاری کے لیے دفعہ 497/498 ضابطہ فوجداری عدالت کو اختیار دیتا ہے۔ یہ اختیارات دفعہ 498-A کے ذریعے محدود کر دیے گئے ہیں۔ کہا گیا: یہ دو دفعات بھی عدالت کو نہ کہتی ہیں نہ اتھارٹی دیتی ہیں کہ وہ کسی ایسے شخص کو ضمانت دے یا ڈائریکشن دے کہ اِسے ضمانت دی جاتی ہے، ماسوائے تینصورتوں کے۔ اولاً؛ ملزم گرفتار ہو یا ملزم عدالت میں موجود ہو یا اس کے خلاف مقدمہ درج ہو‘ جس کی تفصیلات ضمانت یا ڈائریکشن کے آرڈر میں Specifiy کرکے لکھی جائیں۔
Nothing in section 497 or section 498 shall be deemed to require or authorise a Court to release on bail, or to direct to be admitted to bail any person who is not in custody or is not present in Court or against whom no case stands registered for the time being and an order for the release of a person on bail, or direction that a person be admitted to bail shall be effective only in respect of the case that so stands registered against him and is specified in the order or direction.
اگلا اہم ترین قانونی سوال یہ ہے کیا نیب آرڈیننس مجریہ 1999 میں ملزم کو پہلے اطلاع کرکے گرفتار کرنا قانونی تقاضا ہے؟ اس کا تازہ ترین جواب جسٹس شیخ عظمت سعید صاحب، جسٹس فیصل عرب صاحب اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل صاحب پر مشتمل سپریم کورٹ آف پاکستان کے فُل بینچ نے 19 مارچ 2019 کو دے دیا ہے۔
The grievance raised is that the said order, more particularly, its concluding lines may be misinterpreted to imply that NAB cannot arrest an accuse without informing first. On
(باقی صفحہ 11 پر)
examination of NAB ordinance 1999 reveals that no such limitation has been imposed upon NAB, in this Behalf. Needless to say, if sufficient material has been gathered to connect a person to the commission of an offence, obviously NAB can arrest such a person .However, we do not expect that NAB to misuse such power.
سپریم کورٹ کے اس تازہ فیصلے کے پیراگراف نمبر2 میں کہا گیا: ہمارے سامنے شکایت یہ رکھی گئی، خاص طور سے Concluding lines کی یہ غلط تشریح ہو سکتی ہے کہ نیب کسی ملزم کو پہلے اطلاع دیے بغیر گرفتار نہیں کر سکتی۔ سپریم کورٹ نے کہا: ہم نے نیب آرڈیننس مجریہ 1999 کا جائزہ لیا ہے‘ جس سے صاف ظاہر ہے کہ نیب پر ایسی کوئی پابندی کہ وہ ملزم کو پہلے اطلاع دے‘ قانون لاگو نہیں کرتا۔ عدالتِ عظمیٰ نے مزید کہا کہ اگر کسی ملزم کو جرم کے ارتکاب سے جوڑنے کے لیے کافی مواد موجود ہو تو نیب کو اجازت ہے کہ اُسے گرفتار کرے۔ ساتھ کہا: بلا شُبہ ہم نیب سے یہ توقع نہیں کرتے کہ وہ اپنے اس اختیار کا غلط استعمال کرے گا۔
پاکستان کے آئین کے مطابق اوپر درج 2 علیحدہ علیحدہ قوانین ہیں۔ ضابطہ فوجداری Statutory Law کہلاتا ہے جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ Precedent Law۔ فیصلہ خود کر لیجئے نیب نے چادر اور چاردیواری توڑی یا تہہ خانے کے شیروں نے نظامِ قانون پر لات ماری۔ رہا ضمانت کا معاملہ تو اس پر دونوں قوانین برملا بول رہے ہیں۔؎
خون بادل سے برستے دیکھا
پھول کو شاخ پہ ڈستے دیکھا
کتنے بیدار خیالوں کو یہاں
دامِ اخلاص میں پھنستے دیکھا
اب کہاں اشکِ ندامت ساغرؔ
آستینوں کو ترستے دیکھا