آج ضمانت کا سب سے دلچسپ سیاسی کیس ملک کی سب سے بڑی عدالت میں سُنا جائے گا۔ قانون کی زبان میں دراصل یہ مقدمہ (Suspension of Sentence) یعنی مجرم کی سزا کو معطل کرنے کے بارے میں ہے۔ بلا شبہ مقدمے کے میرٹ پر بحث عدالت میں ہی ہونی چاہیے‘ لیکن اس مقدمے کے سیاسی رُخ اسے بار بار ڈیبیٹ کا موضوع بنا دیتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس مقدمے کے سزا یافتہ قیدی نے رہائی کے لیے واحد گرائونڈ اپنی بیماری کو بنایا۔ 7 عدد سرکاری میڈیکل بورڈ اور 6 ہفتے تک ملزم کے ذاتی ہسپتال میں ملازم ڈاکٹرز کسی جان لیوا بیماری کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ آخر کار، بیمار نے از خود انگلستان کو اس مرضِ لا دوا کی منزل ٹھہرا کر سپریم کورٹ میں درخواست ضمانت دائر کر دی‘ جس کی سماعت آج کے دن مقرر ہے۔ لہٰذا آج کا وکالت نامہ قانون کے طالب علموں اور جیلوں میں بند ضمانت کے متلاشی ملزموں کی خاص توجہ کے لئے ہے۔ ملک کی تاریخ میں نا قابلِ ضمانت جرائم میں ضمانت کے سوال پر سب سے بڑا فیصلہ طارق بشیر کیس کہلاتا ہے۔ رپورٹ شدہ (PLD, 1995, SC, Page -34)۔ کسی زمانے میں سرکار بنام زبیر احمد کیس فوجداری تنازعات کی دنیا میں بڑا مشہور تھا‘ جس میں یہ ہدایت جاری ہوئی کہ اگر ملزم کی ضمانت کا مقدمہ کسی ایک جج کے روبرو ایک مرتبہ فِکس ہو جائے۔ پھر مقدمے میں میرٹ پر فیصلہ ہو۔ اُسے واپس یا (Withdraw) کر لیا جائے۔ کوئی بحث کا نکتہ باقی رہ جائے۔ ضمانت کی کوئی گرائونڈ اٹھائی جائے یا نہ اُٹھائی جائے‘ ان ساری صورتوں میں جس عدالت سے ضمانت کے مقدمے کا نوٹس جاری ہوا ہو، زبیر کیس کی روشنی میں وہی جج یا ججز ضمانت کی دوسری درخواست یا درخواست برائے منسوخیِ ضمانت کی سماعت کر سکیں گے۔ یہ فیصلہ کئی اعتبار سے قیامت خیز اصولِ قانون (Precedent) ثابت ہوا۔ صرف قیدی، حوالاتی، سائل، مستغیث اور ملزم کے لیے نہیں بلکہ وکیل برادری اور جج صاحبان کے لیے بھی۔ سینکڑوں کیسوں میں ایسا ہوتا رہا کہ کسی جج نے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میں ضمانت پر نوٹس جاری کر دیا۔ اگلے ہفتے وہ جج ہائی کورٹ کی پرنسپل سِیٹ پر لاہور چلے گئے۔ مدعی، ملزم فریق اور جانبین کے وکلا اُن کے پیچھے لاہور جا پہنچے۔ جہاں پتہ چلا کہ جج صاحب کی لِسٹ کینسل ہو چکی ہے جس کی وجہ، یہ بنی کہ ججز ڈیوٹی روسٹر میں ان کا نام ملتان بینچ کے لیے نکل آیا ہے۔ لہٰذا جج صاحب اب ملتان میں ضمانت کا یہ کیس سماعت فرمائیں گے۔ خُدا خُدا کر کے ہفتوں بعد ملتان سے نئی تاریخ کے نوٹس جاری ہو سکے۔ دونوں طرف کے وکیل، مدعی اور ملزم فریق ملتان پہنچا۔ پتہ چلا لاہور سے جاری ہونے والے اس ہفتے کے روسٹر میں جج صاحب کی عدالت بہاولپور بینچ میں لگے گی۔ سائل اور ان کے وکیل اس شعر کی زندہ تصویر بن کر رہ گئے ؎
شہرِ آسیب میں آنکھیں ہی نہیں ہیں کافی
اُلٹا لَٹکو گے تو پھر سیدھا دکھائی دے گا
زبیر کیس پی ایل ڈی سپریم کورٹ سال 1986ء کے صفحہ نمبر 173 پر رپورٹ شدہ ہے۔ تقریباً 2 عشرے بعد شدید مباحث کے نتیجے میں زبیر کیس پر سپریم کورٹ آف پا کستان نے نظر ثانی کر دی۔ اسی عرصے میں فو جداری کے ایک بہت قابِل مگر غصیلے جج صاحب نے مُجھ سے پوچھا: زبیر کیس میں وضع کیے گئے اصولِ قانون کی وجہ کیا ہے؟ عرض کیا، ہم بحیثیت معاشرہ اخلاقی عدم تعاون اور عدم تحفظ دونوں کا شکار ہیں۔ مغرب میں ایک جج اگر ضمانت مسترد کر دے تو دوسرے جج کا نام لکھ کر درخواست ضمانت دوبارہ، سہ بارہ، چہار بارہ بلکہ شش بارہ سنوائی اور دہرائی جا سکتی ہے۔ وہاں جج اور وکیل دونوں پر اعتبار کیا جاتا ہے۔ اپنے ہاں پولیٹیکل جسٹس کی اصطلاح رائج ہونے سے بے شمار مسائل نے جنم لیا۔ دوسرے مقدمے، طارق بشیر کیس میں ضمانت کے تصور اور ملزم کو جیل میں رکھنے کے بارے میں شاندار قانونی نکات وضع ہوئے۔ مثال کے طور پہ 2 اہم ترین نکتے یوں ہیں۔ پہلا، یہ کہ فوجداری ضابطہ کے قانون میں جیل ضروری ہے یا بِیل یعنی قید یا رہائی۔
S. 496/497 CrPC Bail- Grant of bail in bailable offence is a right while in non-bailable offences the grant of bail is not a right but concession/ grace --- grant of bail in offences punishable with imprisonment for less than 10 years is a rule and refusal an exception.
As regards the first category of offences (punishable with Death, or imprisonment for life, or with 10 years Imprisonment) the provisions of Section 497 (1) are not punitive in nature. there is no concept of punishment before Judgment in criminal law of the land. the question of grant and refusal of bail is to be determined judicially having regards to the facts and the circumstances of the each case.
دوسرا، یہ کہ کیا ضما نت کو بھی ایک دوسری طرح کی حراست (Custody) قرار دیا جا سکتا ہے؟ طارق بشیر کیس میں ضمانت کے تصور کو پاکستانی قانون میں بہت بڑا کر دیا گیا۔ یوں نیا اصولِ قانون وضع ہوا۔ قانون و انصاف سے متعلقہ کون نہیں جانتا کہ ہمارے فوجداری نظام میں پراسیکیوشن کی جانب سے 4 بڑے جھوٹ سکہ رائج الوقت ہو چکے ہیں۔ پہلی جھوٹی FIR، ریفرنس یا استغاثہ۔ ذاتی دشمنی کی بنیاد پر یا سیاسی عناد کی وجہ سے۔ دوسرے سچی FIR میں جھوٹے گواہ۔ قا تل اور مقتول کی حد تک وقوعہ ٹھیک لکھا جاتا ہے مگر قدرتی گواہوں کو چھوڑ کر ایسے رشتے دار گواہی لکھواتے ہیں جنہوں نے نہ واردات دیکھی نہ وقوعے کے وقت کرائم سین پر موجود تھے۔ تیسرا جھوٹ تفتیشی کی ضمنیاں ہیں جِن کی بولی لگتی ہے۔ گرفتاری کہاں سے ہوئی، برآمدگی کدھر سے۔ پلیِ آف ایلی بائی، مُلزم کا پہلا مؤقف، شہادتِ صفائی کے بیان حلفی‘ جسمانی ریمانڈ کا عرصہ ہر چیز کا علیحدہ علیحدہ سے ریٹ لگتا ہے۔ چوتھا جھوٹ پراسیکیوشن کے مقدمے میں سُقم دور کرنے کے لیے سیاسی طور پر تعینات ہونے والے پراسیکیوٹرز گواہوں کو ٹیوشن کی طرح رٹہ لگواتے ہیں۔ اس ماورائے آئین پریکٹس کو فوجداری نظام میں Dishonest improvement کہتے ہیں۔
کسی گرفتار ملزم یا قیدی کی ضمانت پر رہائی کے لئے بیماری کی گرائونڈ سپیشل پِلی ہے جسے ثابت کرنے کی ذمہ داری ملزم کے کاندھوں پہ ہوتی ہے۔ اس کی بنیاد یوں سمجھی جا سکتی ہے۔ ہر صوبے میں میڈیکل گرائونڈ پر ضمانت کے لئے سٹینڈنگ میڈیکل بورڈ موجود ہیں۔ اگر یہ سوال پیدا ہو جائے کہ بیماری سے قیدی/ حوالاتی کی موت فوراً واقع ہو سکتی ہے تو میڈیکل بورڈ بیماری کی نوعیت کے تعین کا ذمہ دار ہے۔
حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے طلعت اسحاق بنام نیشنل اکائونٹ ایبلٹی بیورو نامی مقدمے میں احتساب عدالتوں کو ضمانت لینے کے اختیارات دینے پر ڈائریکشن جاری کی ہے۔ 5 رکنی سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کا یہ فیصلہ PLD, 2019, SC, page 112 پر رپورٹ ہوا ہے۔ اس ڈائریکشن کا مطلب خان اسفند یار ولی بنام فیڈریشن آف پاکستان ((PLD, 2001, SC, page 607 کے فیصلے کوReview کرنا ہے‘ جس کے ذریعے 4 ججز نے نیب کے مقدمات میں رِٹ پٹیشن کے ذریعے ضمانت کا راستہ کھولا تھا۔ میں نے اس مقدمے میں سپریم کورٹ کی معاونت کی۔ طلعت اسحاق کیس میں ضمانت کی گرائونڈز کا دائرہ پھر محدود کر دیا گیا۔
یادش بخیر! احتساب ایکٹ 1997ء نواز شریف دور میں بنا، پھر مشرف دور آیا تو خود آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا۔