خالی برتن بھی نہیں۔ ٹین ڈبہ، وہ بھی ایسا جس میں روڑے ڈال کر اسے لُڑھکا دیا جائے۔ کیونکہ شور شرابا مطلوب ہے۔ سوچ اور تفکیر سے عاری۔ انا کے پہاڑوں پر مقیم لوگوں کے لشکر۔ دانہ دُنکا جہاں بھی نظر آئے اسی چھت پہ بسیرا کرنے والے جنہیں اب تو قصرِ سلطانی کی بھی ضرورت نہیں۔ ما سوائے ان کے جو درد مندوں کے دردی ہیں؛ چنانچہ اس اجتماعی لُڑھکاوے پر دل گرفتہ بھی۔
اس زمینی صورتحال کو 3 سطحوں پر دیکھا جا سکتا ہے‘ جن میں سے پہلا ہے: اپنا سماج۔ پھر ارد گرد جینے والے علاقائی ہم نفس اور تیسرے اُمتِ مسلمہ کا بلا شبہ ایک عالمی تناظر بھی ہے۔ اس تناظر کو کسی بھی قیمت پر خوش فہمی کی نذر نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان اس حوالے سے کیس سٹڈی ہے۔ سینکڑوں یونیورسٹیاں انفارمیشن ٹیکنالوجی میں دھڑا دھڑ ایم فِل اور پی ایچ ڈی کروا رہی ہیں۔ یہ ایک طرح سے اچھی بات ہے مگر آخرِ کار (Science of job opportunity) سے آگے کچھ بھی نہیں۔ مُلک کے اصل مسائل پر ادارہ جاتی تحقیق ہو تو صرف مقالے اور کتابیں ہی تخلیق نہیں ہوں گی بلکہ قوم کا قدرتی بیانیہ بھی تشکیل پائے گا جس کی بنیاد پر مِڈ ٹرم اور لانگ ٹرم منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔ بات ہے رُسوائی کی‘ مگر سو فیصد سچ یہ ہے کہ آج ہر کسی کا سچ اپنا اپنا ہے۔ طبقہ، فرقہ، محکمہ، قوم، علاقہ، برادری، محلہ یا نو گو ایریا کی قید نہیں رہی۔ بیانیے کا مطلب، اب صرف مطلب پرستی ہے‘ جن کے مطلب کی دم کہیں پھنسی ہوئی ہو۔ ان کی مطلب کشائی کے لیے رینٹ اے مطلب پرست کے برگیڈ مل جاتے ہیں۔ صرف ہتھیلی پر رگڑنے والی جادو اثر گرِیس المشہور نقدی کی روانی شرط ہے۔ جس کی جہاں وابستگی یا پام والی گرِیس پھنسی ہے وہی اس کا بیانیہ ٹھہرا۔ کامیاب معاشروں اور زندہ قوموں میں اجتماعی حیات کے اندر ریاست کو بلند ترین درجہ حاصل ہوتا ہے۔ اپنے ہاں گروہی، فروعی منیجرز اور ان کے مفادات ریاست پر حاوی نہیں چھائے ہوئے ہیں۔ آج کے وکالت نامے کا موضوع اگرچہ سیاسی نہیں‘ لیکن اسے سمجھنے کے لیے سیاست دانوں کے مقدموں یا الیکشنوں کے دوران ریاست کے خلاف لگائے جانے والے نعرے دیکھ لیں۔ سوشل میڈیا پر ایسے ویڈیو کلپس کے انبار پڑے ہوئے ہیں۔ ریاست کو گالی دے کر ریاستی عہدے دار (Public office holder) بننے والا گالی کھانے والی ریاست سے وفاداری کا فوری حلف اٹھاتا ہے۔ اسی عہد کی چند آوازیں سُن لیں (نقلِ کُفر، کُفر نہ باشد کے مصداق)۔ ''بھارت کو فوراً پاکستان پر حملہ کر دینا چاہیے، اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل پاکستان میں فی الفور بین الاقوامی افواج بھیج دے، پاکستان پر پابندیاں لگائی جائیں، میں پاکستانی نہیں افغانستانی ہوں، میرا علاقہ پاکستان کا حصہ نہیں‘ پڑوسی ملک کا علاقہ ہے، میں ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کرتا، میں انڈین ٹینکوں پر چڑھ کر واپس آئوں گا‘‘اور ایسی ایسی خرافات جسے نقل کرتے ہاتھ لرزتا ہے اور دل رنجیدہ۔ اسی قبیل کے ایک پاکستانی صحافی نے جو بیرونِ ملک رہتا ہے‘ پاکستان کا ایسا نقشہ کھینچا جس سے لگتا تھا موصوف کی گفتگو کے آخری جملے پر قیامت کا نزول ہو نے والا ہے۔ ساتھ امریکہ کی وہ تعریفیں جو سُن کر ٹرمپ تک کو گُدگُدی آ جائے۔ مجھ سے نہ رہا گیا۔ خطبے کے جواب میں صرف 2 پوائنٹ کہے۔ پہلا یہ کہ میاں! تمہاری تمام روٹیاں‘ ساری سہولتیں اور ہر جگہ آنیاں، جانیاں پاکستان کی وجہ سے ہیں۔ تمہارا امریکہ میں لا محدود سٹے المعروف گرین کارڈ پاک سر زمین کی وجہ سے ہے۔ آج اور ابھی تم ایک کام کرو‘ پاکستان کی تعریف میں ایک خبر بھجوا کر دیکھ لو۔ تمہاری پُشت پر کِک نہ پڑی تو گلہ کرنا۔ تمہارا چوکا چولہا چلانے کی ایک ہی گارنٹی ہے۔
اپنی دھرتی ماں کو گالی دیتے جائو اور ڈالروں کی جُگالی کرتے جا ئو۔ پھر غیر حکومتی ادارے آتے ہیں۔ جنہیں خود کو این جی اوز کہلانا پسند ہے۔ یہ ٹولے سچ اور جھوٹ کی پروا کیے بغیر ہر اس خبر کو اٹھاتے ہیں‘ جس کے ذریعے پاکستان کو درندہ سوسائٹی، بدمعاش ملک اور انسانیت کی تذلیل کرنے والا قرار دلوایا جا سکے۔ تفصیل میں جانے کی کیا ضرورت ہے‘ ہم سب یہیں رہتے ہیں‘ اس لیے سب کچھ سے واقف ہیں۔ ایسے میں ملینیم کا معجزہ ایک ہی ہے۔ یہی کہ اس سب کے باوجود پاکستان اپنے پائوں پر چل رہا ہے۔ امریکہ جیسے ممالک 50 سال کی پلاننگ کر کے بیٹھے ہیں۔ باقی ہر خطے کی ہر قوم، ہر مملکت، پانچ سالہ پلاننگ پر چلتی ہیں۔ اپنے ملک میں ابھی تک جو کچھ ہوتا آیا ہے یا اب ریاستِ پاکستان کی بیوروکریسی کا جو موڈ ہے‘ اس کا حتمی نتیجہ ہم سب کے علم میں ہے۔ اپنے ریجن پر نظر ڈالیں تو سامنے کی بات ہے ہر طرف آتش دان دہکائے جا رہے ہیں۔ آتش کدۂِ ایران کو پھر سے سُلگانے کی تیاری جاری ہے۔B-52 بمبار طیارے، پیٹریاٹ میزائل، تباہ کُن بحری بیڑے خلیج عرب سے گزر کر خلیج فارس میں پہنچ چُکے ہیں۔ ٹائمز جیسے اخبار نے سرِ ورق سٹوری یہ چھاپی کہ مودی نے خود ہی بھارت کو تقسیم کر دیا ہے۔ جس کے فوراً بعد ایک ماورائے ریاست گروپ نے بھارت کے اندر ''ولایتِ ہند‘‘ کی تشکیل کا دعویٰ کیا ہے‘ جس پر بھارت کی حکومت اور RAW نے چُپ سادھ رکھی ہے۔ ان دونوں کا سارا سٹریٹیجک زور سی پیک اور وَن بیلٹ منصوبے کے خلاف لگ رہا ہے۔
سی پیک میرجز بھارت کے سرکاری سوشل میڈیا کا ٹاپ ایجنڈا ہے جس کا بظاہر مقصد پاکستانی لڑکیوں کی ہمدردی بتایا جا رہا ہے‘ لیکن اصل میں اس کا ٹارگٹ دونوں ملکوں میں کردار کُشی کے اس حساس موضوع کو چھیڑ کر بد مزگی یا غلط فہمی کا آغاز کروانا ہے۔ پاکستان میں چینی سفارت خانے نے بھی اس کا بر وقت نوٹس لیا‘ جبکہ چین کی حکومت نے فوراً معاملے کی جان کاری کے لیے ٹاسک فورس بھجوانے کا عندیہ دیا۔ ایف آئی اے نے شادیوں کی خبروں پر جو ری ایکشن ظاہر کیا‘ اس پر بذاتِ خود کئی سوال اُٹھ رہے ہیں۔ کیا ایف آئی اے نے کبھی چین، امریکہ انڈیا سمیت شرق و غرب کے دوسرے ملکوں سے پاکستان پہنچ کر شادیاں رچانے والی دلہنوں پر ڈوزیئر تیار کیا۔ متعلقہ حقائق قوم کے سامنے رکھے۔ مشرق کا 70 سال پرانا ایک اور مورچہ بھی گرم ہے۔ اسرائیل کے جیٹ طیارے فضا سے اور ہیوی ڈیمولیوشن مشینیں زمین پر فلسطینیوں کے گھروں کو قبرستان میں تبدیل کر رہی ہیں۔ تیسری دنیا میں طاقت کا توازن اپنے حق میں کرنے کے لیے امریکہ اور روس مشرقی یورپ میں پانچ سال سے نبرد آزما ہیں۔ یہ صورتحال سرد جنگ سے بڑا آتش فشاں ہے۔ ایسے میں معتبر ((sane قلم ہو یا آواز اس پر مادرِ وطن کا حق بنتا ہے‘ کہ سیاسی چاٹ پکوڑے سے زیادہ اس طرف توجہ دیں۔ فی الحال قوم کے لیے قومی خیال کے کوچے مردانِ کار سے خالی خولی دکھائی دے رہے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ پارلیمنٹ کے 6 ایوانوں کی فلائٹ بھی قصرِ سلطانی کے گنبد کے ارد گرد ہے۔ مطلب براری آگے ہے اور ریاست سازی قومی ایجنڈے کے بیک برنر پر۔ پچھلے 11 سالوں کی تقریریں اُٹھا کر دیکھ لیں ہر طرف چُلّو بھر پانی کے حقدار نظر آتے ہیں‘ ان جگہوں کو اب ڈیبیٹنگ کلب کہلانے کا استحقاق بھی حاصل نہیں رہا۔ خالی برتن سے بھی گئے گزرے۔ ٹین ڈبہ والے مباحثے جس میں روڑے ڈال کر لڑھکا دیا جائے۔ یہاں تو صرف شور شرابہ مطلوب ہے۔ لیکن درد مندوں کے دردی کہاں ہیں۔ کیا ریاست ان کی ماں نہیں؟ اگر ہے تو پھر آج خاموشی کا روزہ توڑنے کا دن ہے ،Mother,s Day پر مادرِ وطن کے لیے۔
شہر خالی، جادہ خالی، کوچہ خالی، خانہ خالی
جام خالی، سفرہ خالی، ساغر و پیمانہ خالی
کوچ کردند دستہ دستہ آشنایاں، عندلیباں
باغ خالی باغچہ خالی شاخہ خالی لانہ خالی