"SBA" (space) message & send to 7575

راجہ گِدھ ثانی …(1)

بھینس مکّو مُصّلی کی تھی یا نہیں مگر میں نے پہلی بار اس کی کھال کھنچتی دیکھی۔ پتہ نہیں مری کیسے تھی۔ میرے گائوں ہوتھلہ کو نہ جانے کیوں بـڑا گِراں کہتے ہیں‘ حالاں کہ آبادی کے لحاظ سے یہ ہرگِز بڑا نہیں۔ اس کے اطراف میں اچاری، سندوری اور مالدہ آموں کے لا تعداد درخت ہیں۔ آم کے ایسے ہی صدیوں پرانے درخت کے پاس کھال کے بغیر بھینس پھینکی گئی۔ تھوڑی دیر بعد ہی سفید رنگ کے 2 بڑے بڑے پرندے مردہ گوشت پر اترے پھر فوراً اُڑ گئے۔ پوٹھوہار میں ان سفید پرندوں کو گِدھ کا نائی کہتے ہیں۔ دیہاتی سماج میں شادی و مرگ کی اطلاع دینا نائی کے ہی ذمہ ہوتا ہے۔ چند منٹوں بعد ایک بڑا گِدھ چنگھاڑتا ہوا اُترا اور مردہ بھینس کا پیٹ پھاڑ کر اس کے اندر گھستا چلا گیا۔ پھر ہر طرف گِدھ ہی گِدھ اُتر رہے تھے۔ مردار کھانے والے کریہہ المنظر گدھ۔ بے رحم اور چیر پھاڑ کرنے کے ماہِر۔ ماحولیات کے ماہرین انہیں Earth cleaners کہہ کے پُکارتے ہیں۔
عشروں بعد میں نے اخبار میں پڑھا، گِدھ پاکستان سے ہجرت کر گئے یا پھر مُردار کی بسیار خوری نے انہیں مار ڈالا۔ میں نے اوائل عمری سے ہی پہاڑ گشتی، نیچر، درختوں، تتلیوں اور بلبلوں جیسے پرندوں سے عشق کے رشتے استوار کر رکھے ہیں۔ کل شام افطاری سے 2 گھنٹے پہلے گوجر خان سے فون آیا۔ ہماری ینگ لیڈی وکیل ایسوسی ایٹ ہُما راجہ نے خیر خیریت پوچھنے کو کال کی تھی۔ ساتھ کہا: روزے سے پہلے کا وقت کیسے گزرتا ہے؟ بتایا: مارگلہ کی طرف نکل رہا ہوں۔ جہاں پہنچ کر وقت اُڑان بھر لیتا ہے۔ وہی وقت جو گھر میں پائوں گھسیٹ گھسیٹ کر چلتا ہے۔ برسات میں قراقرم رینج کی فُٹ ہلز، مارگلہ کی تتلیاں لاکھوں کی تعداد میں شہر کا رُخ کرتی ہیں۔ مارگلہ پہاڑ کے قریب کچھ سیکٹروں میں یوں لگتا ہے جیسے تتلیوںکے اولے برس پڑے ہوں۔ عندلیب یہاں درجنوں کے نہیں سینکڑوں کے غول میں بھی اُڑتے ہیں۔ اپنے یہ پہاڑ چھوٹے سے زمینی باغِ ارم کا ارفع نمونہ ہیں۔ پھر بھی 100 سے زائد ٹی وی چینلز ہماری ثقافتی تفریح کے لیے ان پر ڈاکومنٹری بنانے کی زحمت نہیں کرتے۔ کون کیمرے پکڑے، او بی وین نکالے، لائٹ سائونڈ کا جھنجٹ پالے۔ اس سے بھی پہلے شُوٹ لوکیشنز کا سروے اور انتخاب کرے۔ طلوعِ آفتاب سے پہلے پھر تپتی ہوئی دوپہروں اور ملگجی شاموں کا انتظار کرتا پھرے۔ تاروں کی روشنی میں قدرتی حُسن کی جادوگری کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے کی تکلیف برداشت کرے۔ پھر ایڈیٹنگ جیسا جان لیوا چیلنج اس سے بھی سِوا ہوتا ہے۔ اتنی مشقت کے آخر میں ڈاکومنٹری کی ریٹنگ آئے یا نہ آئے۔ اتنے سارے خرچہ و ہرجہ سے بچنے کا آسان اور متبادل نُسخہ یہ ہے کہ لوگوںکو بسیار خوری اور بلا نوشی کے ریکارڈ شُدہ پروگرام دکھائیں‘ وہ بھی پھٹوں والے سٹوڈیو میں۔ زیادہ محنت کرنی ہو تو ''پگڑی سنبھال جَٹا‘‘ والا گالی، تھپڑ، تہمت‘ الزام اور ہاتھا پائی والے ماہرین کو بُلا کر ایک جگہ بِٹھا دیں۔ جہاں انڈر میٹرک فارن پالیسی کے گُر سکھائے گا۔ سیلز مین اکانومی کے امور سمجھائے گا اور اکنامک کرائم کا مُلزم اچھی حُکمرانی کے راز۔ بد تمیزی پر ریٹنگ شروع۔ تو تکار پر سکائی ہائی ریٹنگ‘ جبکہ گالی گلوچ اور مُکا بازی کے نتیجے میں ریٹنگ لائف ٹائم اچیومنٹ کی سند میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
افریقہ کے ماسائی مارا وائلڈ لائف علاقے کے برعکس، اسلام آباد دنیا کے 2 بلند ترین پہاڑی سلسلوں کے قدموں میں آباد ہوا۔ شمال مشرق میں ایورسٹ رینج اور ہمارے دارالخلافہ کے شمال مغرب میں قراقرم رینج واقع ہے۔ ایک اور نا قابلِ تردید حقیقت یہ ہے کہ شہرِ اقتدار ٹیِکٹانک پلیٹس کی فالٹ لائن پر ایستادہ ہے۔ اور سارے گِدھ ان دونوں پہاڑوں سے ہی اسلام آباد پر منڈلانے کی عرصہ پرانی تفریح کے عادی ہیں۔ راجہ گِدھ ثانی کہاں پایا جاتا ہے۔ یہ ڈھونڈنے کے لیے انسانی بستیوں کا رُخ کرنا ہو گا۔ شعبۂِ گیس کی ایک خبر کے مطابق ملک میں 83 لاکھ کمرشل کنکشن لگے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے ہر کمرشل کنکشن پر ہزاروں سے لاکھوں روپے روزانہ کمائے جا رہے ہیں۔ انڈسٹریل کنکشنز بھی لاکھوں میں ہیں سمال ، میڈیم اور لارج انڈسٹریل یونٹس کے لیے۔ لیکن 20 کروڑ 50 لاکھ لوگوں میں سے صرف 14 لاکھ پاکستانی لوگ اپنے ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں۔ ان 1.4 ملین میں سے ٹیکس دینے والے صرف 8 لاکھ 57 ہزار افراد ہیں ۔ اس میں بھاری اکثریت صرف تنخواہ دار طبقے پر مشتمل ہے۔ جِن کو چیک کے ذریعے ماہانہ ادائیگی ہوتی ہے اور ان کا ٹیکس چیک بناتے وقت ایڈوانس کاٹ لیا جاتا ہے۔ دو دن پہلے توانائی کے انچارج وزیر عمر ایوب نے بتایا: پچھلی 3 سہ ماہیوں میں اربوں روپے کی گیس چوری ہوئی ہے۔
آئیے ایک اور بستی کی طرف چلتے ہیں جس کے بارے میں ایف بی آر کے نئے سربراہ شبّر زیدی نے توجہ دلائی ہے۔ سکیورٹی ایکس چینج کمیشن آف پاکستان کے پاس 95000 کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں سے 37130 کمپنیا ں اپنی کمائی میں سے پاکستان کو ٹیکس دیتی ہیں۔ ایسا ہی ایک مقدمہ میں نے رمضان سے کچھ دن پہلے اعلیٰ عدالت میں لڑا‘ جس میں وزارتِ مذہبی امور نے سالوں پہلے ایسے منصوبے کو آ گے بڑھایا جس کے مطابق حج کوٹے کا میرٹ طے کرنے کے لیے ٹیکس دینے والے حج آپریٹر اور ٹیکس نہ دینے والے حج آپریٹر کو میرٹ کے برابر، برابر نمبر ملتے ہیں۔ یاد رہے کہ حج آپریٹرز یا آرگنائزرز بھی پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں ہی ہیں۔ سکیورٹی ایکس چینج کمیشن آف پاکستان کے پاس رجسٹرڈ شُدہ۔ ساتھ ہی ایک دوسری بستی واقع ہے جسے سٹاک ایکس چینج کہتے ہیں۔ اس کے بروکرز نے ڈالر فلائٹ کے دوران ایف بی آر اور وزارتِ خزانہ سے مطالبہ کیا ہے کہ صرف 20/22 ارب کا فنڈ بنا دیں۔ وہ بھی غریبوں کی جیبوں سے نکلنے والے مال میں سے اور پھر ان کے نقصان کو عوامی خزانہ پورا کیا کرے۔ ایاز امیر صاحب نے اس پر بہت اچھا تبصرہ کیا کہ کوئی یہ تو بتائے جب اربو ں روپے کا بزنس ہوتا ہے تو اس نفع خوری میں سے قومی خزانے میں کتنا جاتا ہے۔ اگلی بستی بھی ساتھ ہی ہے، جہاں اپنی ہڈ بیتی سُن لیجیے۔ اسلام آباد کی سب سے بڑی ہوٹل لانڈری نے میری 3 عدد پرانی جینز کی پتلونیں گُم کر دیں۔ میں نے جناح سُپر مارکیٹ کا رُخ کیا۔ دن کے تقریباً ساڑھے 12 بجے پوری مارکیٹ سُنسان پڑی تھی اور تالہ بند بھی۔ پتہ چلا کہ بڑی مارکیٹیں ڈیڑھ بجے دن سے رات ڈیڑھ، 2 بجے تک کھلی رہتی ہیں۔ نائی اور کپڑے کی ایک، ایک دکان پر درجنوں بلب، ٹیوب، مرکری لائٹس، الیکٹرک نیون سائن بورڈ جلتے ہیں۔ پورے مغرب میں ان سے ہزاروں گُنا بڑے شاپنگ سینٹرز، برانڈز اور دکانیں صرف روشنی میں کھلتی ہیں۔ صبح 7 بجے سے لے کر شام 7 بجے تک۔ ذرا تصور کریں‘ اگر اپنے ہاں پورے پاکستان کی ساری مارکیٹیں سورج کی روشنی استعمال کرنا شروع کریں۔ دکان سے شاپنگ مال تک طے ہو جائے کہ وہ آدھی سولر الیکٹرسٹی استعمال کریں گے اور آدھی سرکاری بجلی۔ قمقموں کا نمبر طے ہو کہ کتنے لگانے اور جلانے ہیں۔ کوئی ماہرِ برق و آب شمس الملک صاحب سے پوچھ لے کہ بجلی بچے گی یا لوڈ شیڈنگ باقی رہے گی۔
دور جبلِ علی پر دھُواں اُٹھ رہا ہے آئیے پہلے وہاں چلیں۔ (جاری)
برسات میں مارگلہ کی تتلیاں لاکھوں کی تعداد میں شہر کا رُخ کرتی ہیں۔ اس پہاڑ کے قریب کچھ سیکٹروں میں یوں لگتا ہے جیسے تتلیوںکے اولے برس پڑے ہوں۔ عندلیب یہاں درجنوں کے نہیں سینکڑوں کے غول میں بھی اُڑتے ہیں۔ اپنے یہ پہاڑ چھوٹے سے زمینی باغِ ارم کا ارفع نمونہ ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں