یا تو ہم بولیں گے یا پھر ہم ہی بولیں گے۔ جمہوریت کو مضبوط کرنے کا یہی جمہوری راستہ ہے۔2018ء کے جنرل الیکشن کے بعد سے قومی پارلیمان میں یہی ہوتا آیا ہے۔ پورے 10 ماہ اور 8 دن، جب سے موجودہ پارلیمنٹ نے حلف لیا ہے۔ اگر ٹریژری بینچوں سے کوئی رُکنِ اسمبلی بولنا چاہے تو وہ جمہوریت دشمن ہو گا بلکہ کھلا کھلا فاشِسٹ بھی۔ فاشِزم سے بچنا چاہتے ہو تو بس چُپ کرکے سُنتے جائو۔ اسمبلی میں ہِلے جُلے بِنا‘ ایسی مُورتی کی طرح جو تقدیس کے کسی مندر میں سجائی گئی۔ فاشِسٹ نہیں کہلانا تو نیشنل اسمبلی کے فلور پر کوئی بِل پیش مت کرو۔ کسی قانونی ترمیم کا ذکر مت چھیڑو۔ آئینی نظام میں بہتری لانے کا بھی نہیں۔ بلکہ زینب الرٹ بِل کو بھی رہنے ہی دو۔ کبھی کوئی تحریکِ التوا اسمبلی فلور پہ مت لانا۔ توجہ دلائو نوٹس تو سیدھا فاشِزم ہو گا۔ گالی اور طعنے کے علاوہ یہی پچھلے 10 ماہ کی جمہور دوستی کا روڈ میپ، جمہوریت بھگت اور دیش بھگت ہونے کا مُسلسل اعلان تھا۔ سال 2019 میں قومی اسمبلی ''دَس ماہی‘‘ کیا ہوئی کہ قانون کے کوٹھے ٹَپنا شروع ہو گئی۔ 2 دن پہلے ملک کے طول و عرض سے فاشِزم کی جڑیں کاٹنے کے لیے مطالبہ جات کا موسم آ گیا۔ پہلے ہمارے ساتھ میثاقِ معیشت کرو اور فلور پر زیرِ بحث فنانس ایکٹ واپس لے لو۔ ذرا رُکیے... اس مطالبے کو پھر سے دیکھتے ہیں۔ یہ مطالبہ ہے میثاقِ معیشت کا۔ لفظ میثاق پڑھ کر آپ کو کچھ اور یاد آ رہا ہے؟ میرا دھیان بھی ادھر ہی ہے۔ میثاقِ جمہوریت کی طرف‘ جو محض (Brand name) تھا۔ اسی کے اندر سے مشہورِ زمانہ این آر او نے جنم لیا۔ این آر او کا اس سے کھلا مطالبہ کہیں اور سے آ سکتا ہے‘ جو میثاقِ معیشت کے بطن سے آیا۔ اِسے کہتے ہیں جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ سر سے یاد آیا جب کوئی شُترِ بے مہار کسی کے سر پر چڑھ دوڑے تو پھر اُسے زمین پر اتارنا ہی پڑتا ہے۔ 10 مہینے تک وزیرِ اعظم عمران خان کو پارلیمنٹ میں تقریر کرنے کا ماحول ملا نہ اجازت‘ لیکن گزشتہ 8 دنوں میں شہباز شریف کو 3 دن تک اِیسے ہی ماحول میں مائیک دیا گیا۔ نہ تقریر ہو سکی‘ نہ ہی ربط کے ساتھ دو جُملے ادا۔ اپوزیشن لیڈر نے فوراً اپنا انقلاب سمیٹا اور اسمبلی کا ماحول درست کرنے کو جِرگہ بٹھا دیا۔ اس سے پہلے ایسا ہی جرگہ اپوزیشن لیڈر کی سیٹ حاصل کرنے اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمینی کے لیے بٹھایا گیا تھا۔ باہر گالم گلوچ اور اندر مِنّت سماجت کی بہت تفصیلات میرے علم میں ہیں‘ جس پہ پھر سہی۔
بُدھ کے دن قومی اسمبلی نے ہزاروں واٹ بجلی جلا کر اپوزیشن لیڈر کی 150 منٹ لمبی کی تقریر سُنی‘ جس کا لبِ لُباب معاشی دوستی کی آڑ میں این آر او لینے کی نئی درخواست کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ ہاں مگر اس تقریر میں سُبکی ضرور تھی۔ جب اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ 5 سال میں پی ٹی آئی کی کے پی حکومت نے نہ کوئی ہسپتال بنایا نہ کوئی یونیورسٹی۔ اس پر سپیکر اسد قیصر نے کہا: جناب آپ غلط کہہ رہے ہیں‘ صرف میرے حلقے میں 2 یونیورسٹیاں بنی ہیں، ایک ہسپتال تعمیر ہوا‘ ساتھ میڈیکل کالج بنا ہے‘ باقی 9 یونیورسٹیوں کے نام بھی گِنوا سکتا ہوں۔ اس تقریر کا نظریاتی کلائمیکس تب دیکھنے کو ملا جب ممبران نے ہاتھ جوڑ کر کہا: تقریر ختم کر دو‘ جس کا جواب تھا ''فاشزم نہیں چلے گا‘‘۔ پارلیمنٹ کی کارکردگی پر اس سے بھی بڑی سُبکی کا لمحۂ فکریہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب آصف سعید خان کھوسہ کے ریمارکس میں آیا۔ چیف جسٹس نے پارلیمنٹ کی کارروائی کو جائز طور پر پریشان کُن قرار دیا۔ ساتھ دُرست طور پر اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ اداروں کے اندر سے اچھی خبریں نہیں مِل رہیں، ماسوائے عدالتوں کے۔
فاشزم کے خلاف جہاد کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ فتویٰ بھی صادر ہوا کہ جو بجٹ وزارتِ خزانہ نے مرتب کیا‘ وہ نالائقی کا مجموعہ ہے۔ ہوش، عقل اور خِرد کی اتفاقیہ فونڈری کے مالک ہم ہیں۔ جمہوری نازی ازم کے سٹاک ہولڈر اور بے نامی معیشت کے بانی مُبانی بھی۔ اس لیے ملکی وسائل کا میزانیہ بنانا ہمارا خاندانی وصف ہے۔ جس فاشِسٹ کو یقین نہ آئے یو اے ای کی ایمرٹس ہلز چلا جائے۔ فرانس کے شیٹوز دیکھ لے یا پھر مے فیئر کے اپارٹمنٹس۔ جدہ کا سرور پیلس یا عزیزیہ کی سٹیل مِل سے پوچھ لے۔ اس کے باوجود فاشِزم کی بیماری دور نہ ہو تو جمہوری خاندان کے جونیئر پارٹنر کے معاشی سپہ سالار مشتاق چینی والے کا اعترافی بیان پڑھ لے۔ یہ بیان چینی والے نے عامر رضا بِیٹو جوڈیشل مجسٹریٹ کے روبرو قلم بند کرایا۔ بیان میں ہوشرُبا منی لانڈرنگ‘ گندے مال اور کالے دھن کو صاف سُتھرا کرنے والے اکائونٹس کے نمبرز‘ قومی خزانے کے خلاف بنائی گئی فرنٹ مین کمپنیوں کے نام ہیں۔ یہ کمپنیاں شہباز اینڈ سنز کے خدمت گزار ملازموں کو آگے رکھ کر بنیں۔ ان ٹرانزیکشنز کو قانونی رنگ دینے کے لیے اپنے تنخواہ دار نوکروں کے ساتھ مفروضی معاہدے برائے قرض ہوئے۔ کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ منی لانڈرنگ کے بادشاہوں اور ان کے ایک ملازم بلکہ اس کے بیٹے سے بھی قرض کا کتنا لین دین ہوا؟ 60 کروڑ روپیہ چینی والے نے اپنے مالک کو بطور قرض دیا جبکہ اس کے یاسر نامی بیٹے نے باپ سے بھی زیادہ غریب پروری کر دی‘ اور اپنے بھوکے ننگے، قلاش، بیروزگار مالک کو 31 کروڑ روپے سے زائد کا قرض دے دیا۔ چینی والے نے عدالت کو بتایا کہ یہ رقم بھی منی لانڈرنگ کے ذریعے مالکوں کے اکائونٹس میں چلی گئی‘ جسے انہوں نے بڑے فخر سے جائز کاروباری کمائی بتایا۔ مگر یہ نہ بتا سکے کہ پاکستان میں ایسا کون سا کاروبار ہے‘ جس میں2 نیم خواندہ نوکر 1 ارب روپے کے قریب قرض اپنے مالک کو دینے کے قابل ہو جائیں۔ چینی والے کا گُڑ جیسا میٹھا یہ بیان پڑھ کر کئی لوگ دعا کریں گے کہ قُدرت انہیں بھی ایسے نوکر نصیب کرے‘ جو بوقتِ ضرورت 31 کروڑ یا پھر 60 کروڑ قرضِ حَسنہ دینے جوگے ہوں۔ یہ وہ والا قرضِ حسنہ نہیں‘ بلکہ مالک نے اپنے پیسے نوکر کے اکائونٹ میں سے گُھما کر دوبارہ اپنے اکائونٹ میں ڈال لیے۔ اور پھر نوکروں کی بے بسی پر ہنسنا شروع ہو گیا؛ چنانچہ یہ ہوا قرضِ ہنسنے والا ہنسنا۔
ہم جانتے ہیں بجٹ سال بھر کی متوقع آمدنی اور درپیش اخراجات کے حساب کتاب کا میزانیہ ہے۔ کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ پچھلی حکومت کو چھوڑو، تُم ہمیں موج میلے والا میزانیہ بنا دو۔ اگلے روز اسی سوچ کے ایک نمائندے نے سپریم کورٹ بار میں کہا: ٹیکس لگانے سے کاروباری طبقے ہراساں اور پریشان ہو گئے۔ دوسرے وکیل نے جواب دیا، خُدا کا خوف کرو! ٹیکس چوری بھی بھلا کوئی کاروبار ہے۔ ایسے دلائل کی مثال ایسے چور سے ملتی ہے‘ جس نے گھر والوں کی غفلت سے فائدہ اٹھایا۔ چوری کرکے گھر کا صفایا کیا۔ پھر یہ مال باہر جا کر چھپا دیا۔ جب آس پاس کے لوگ مظلوم خاندان سے ہمدردی کرنے پہنچے تو چور بھی اگلی صف میں جا بیٹھا۔ لُٹنے والے رو رہے تھے اور چور کہہ رہا تھا: گھر کے بڑے ہمدرد بنتے ہو‘ اب اس مہینے کا بجٹ بنا کر دکھا دو۔
جس طرح یحییٰ خان کے اسلامی تصورات، ضیاالحق کی نفاذِ شریعت کو بھی حمایتی دستیاب تھے‘ مشرف کے ماڈرن لبرل جمہوری نظام میں سیاست کے سارے بڑے داعیانِ اسلامی انقلاب شامل تھے‘ اُسی طرح آلِ شریف کی دُھلی دھلائی شفاف جمہوریت کے دلدادہ، آج کل فاشزم کا رونا رو رہے ہیں۔
آیا جو امتحان کا اک وقت آپ پر
ظاہر ہوا کہ شیر نہ تھے، گوسفند تھے
ہم رنگ تھا زمیں کے اگرچہ یہ دام زور
طائر سمجھ گئے تھے وہ اس سے بلند تھے