زیادہ نہیں تو کم از کم 2 اعتبار سے سال 2019/2020 کا بجٹ بہت منفرد ہے۔
پہلے یہ کہ حالیہ میزانیہ ریفارمز بجٹ ہے جس کی بنیاد معیشت کو ڈاکیومنٹ کرنے پر رکھی گئی۔ دوسرے نمبر پر باجوہ ڈاکٹرائن آتی ہے جسے معیشت سے متعلقہ ماہرین کے قومی سیمینار میں آرمی چیف نے کھل کر کہہ ڈالا، جو ایک طرح سے قومی اداروں کا آئینی میثاقِ معیشت ہے۔ اسی لیے جنرل قمر جاوید باجوہ نے بر وقت قوم اور اداروں کے نام توجہ دلائو نوٹس کے طور پہ کہا‘ پچھلے ادوار کی غلطیوں نے ہمیں اس مشکل حالت تک پہنچایا‘ جس کا علاج تازہ قومی میزانیے کی صورت میں تجویز ہوا ہے۔ اس لیے سارے ادارے بجٹ میں طے شدہ اہداف کی کامیابی کے لیے یکسو ہو کر زور لگائیں۔ ملکی معیشت کے لیے بر وقت اور مُثبت باجوہ ڈاکٹرائن کا دوسرا نکتہ‘ اُن کے اپنے الفاظ میں یوں ہے:
"Let us stand together like a nation"
ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہر سال کے بجٹ پر 2 زوردار آوازیں سنتے آئے ہیں۔ ایک دوسرے کی ٹکر میں پہلی آواز بجٹ بنانے والوں کی طرف سے جس کے ذریعے بجٹ کی شان میں قصیدے پڑھے جاتے رہے۔ ایسی تقریر اور بیان سُن کر یوں لگتا جیسے ہر گلی میں نان کباب اور بریانی کے لدے ہوئے ٹرک کھڑے ہیں۔ لہٰذا بھوکوں کو بد ہضمی کا شدید خطرہ ہے۔ ساتھ ہی ماہرین یہ بھی بتاتے رہے کہ بد ہضمی سے بچنے کے لیے ہاضمے کی پھکی فوراً خرید لو، پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ اپوزیشن نو، نو اور گو، گو کے نعرے لگا کر بجٹ تقریر کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اُچھالتی رہی۔ میں نے 12 بجٹ تقریروں کے دوران پارلیمنٹ کی نشست پر بیٹھ کر عجب تماشے دیکھے۔ بجٹ کو اچھا یا بُرا کہنے والے بجٹ ڈی بیٹ کے بعد بجٹ کی بھاری بھرکم کتابوں کا سبز رِبّن سے بندھا ہوا بنڈل کھولنے کی زحمت تک نہ کر سکتے چنانچہ ان وزنی کتابوںکا بوجھ صفائی کے عملے نے اسمبلی ہال سے اُٹھا کر آبپارہ میں پکوڑے کی دکان پہ دے مارا۔
یہ بات رُسوائی کی ہے مگر سچ ہے کہ GB اور AJK سمیت 8 اسمبلیوں کے ارکان میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو، جس نے کبھی بجٹ تقریر سے پہلے 100 فی صد تفصیل سے بجٹ پڑھا۔ ضروری ہے کہ بجٹ کی بنیاد بننے والی چند معاشی اصطلاحوں کا مطلب سمجھ لیا جائے۔ اِن میں سے پہلی اصطلاح ہے۔
1۔ جی ڈی پی (GDP):
جی ڈی پی ملک کی مجموعی اندرونِ ملک پیداوار کو کہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک میں جتنی بھی Goods and services یعنی اشیاء اور خدمات فراہم کی جاتی ہیں‘ ان کی ٹوٹل ویلیو یعنی ملک میں ٹوٹل جتنا کاروبار ہوتا ہے اس کا ٹوٹل سائز۔
2۔ بیلنس آف پیمنٹ یا ادائیگی کا توازن:
یہ دراصل وہ رقم ہے جو آپ کی امپورٹس یعنی درآمدات اور ایکسپورٹس یعنی برآمدات کو مائینس کر کے نکالی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ نے 20 ڈالر کی چیزیں بیچی ہیں اور 25 ڈالر کی چیزیں بیرونِ ملک سے خرید لی ہیں تو آپ کا بیلنس مائینس 5 ہو گا۔
3۔ قرض اور GDP (جس کی وضاحت اوپر موجود ہے) کے درمیان توازن کی شرح:
ایک ملک کی ٹوٹل سالانہ پیداوار کے مقابلے میں قرضہ جو اس ملک نے ایک سال کے عرصے میں ادھار کے طور پر لیا۔
4۔ TAX to GDP ratio
چوتھے نمبر پر ٹیکس ٹو GDP ریشو کی اصطلاح آتی ہے‘ جو سادہ لفظوں میں ملک کی ساری سالانہ پیداوارکے مقابلے میں وہ ٹیکس یا ٹیکسز ہیں‘ جو عوام اپنے ملک کو دیتے ہیں۔
5۔ IMF: انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ ایک بین الاقوامی بینک ہے۔ سود پر قرض دینے والا۔ جس کا نعرہ دنیا بھر کی اکانومی کو مستحکم کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ غریبی کو مٹانا ہے۔
6۔ ٹیکس کی شرح:
یہ شرح کرۂ ارضی پر مختلف ملکوں میں مختلف ہے۔ پاکستان میں ٹیکس چوری کو بزنس بنا لیا گیا۔ ہمارے تیل کی ملکی پیداوار تقریباً 30 فی صد کے قریب ہے۔ ایک سروے کے مطابق دنیا کے 160 ملکوں میں سے 140 ملک پاکستان کے مقابلے میں پٹرول پر ٹیکس زیادہ لیتے ہیں۔ ہم بقیہ 70 فی صد پٹرول انٹرنیشنل مارکیٹ سے ڈالر میں خریدتے ہیں۔ اور ڈالر کی قیمت بڑھنے یا گھٹنے سے پٹرول کی قیمت متاثر ہوتی رہتی ہے۔
7۔ ڈالر کی مہنگائی:
ڈالر کے بارے میں طرفہ تماشہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں ٹریڈ ڈالر میں ہوتی ہے۔ پاکستان جتنے ڈالر سالانہ کماتا ہے اس سے کہیں زیادہ ڈالرز ہم خرچ کر دیتے ہیں۔ اس کی آسان مثال یوں ہے ہم ہر سال 48 ارب ڈالر کی امپورٹ کرتے ہیں یا بیرونی دنیا سے چیزیں منگواتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ساری دنیا ہم سے صرف 22 ارب ڈالر کی چیزیں خریدتی ہے۔ ہم ملک میں اپنی بنائی ہوئی اشیا کو نظر انداز کر کے امپورٹڈ برانڈز اور اشیاء کو خریدنے کی وجہ سے اپنے مال کی فروخت سے زیادہ خریداری کر لیتے ہیں‘ جس کی بڑی وجوہات میں غیر ملکیوں سے مرعوب ہونا اور پاکستان میں کوالٹی کنٹرول کا نہ ہونا ہے۔ اسی لیے یہ محاورہ مشہور ہوا، سستا روئے بار بار، مہنگا روئے ایک بار۔
حالیہ بجٹ میں بیرونی چیزوں پر ٹیکس لگایا گیا تا کہ لوگ پاکستانی چیزیں خریدیں لیکن ناقص مال اور گھٹیا کوالٹی بیچنے والوں کو روکنے کا کوئی بندوبست کہیں نہیں۔ یہ تکلیف دہ بات افسوس سے کہنا پڑتی ہے۔ پاکستانی ایکسپورٹر جو مال انٹرنیشنل مارکیٹ میں بیچتے ہیں‘ وہ معیاری ہوتا ہے جس پر خریدنے والے ملک اپنا برانڈ لیبل لگا کر اسے بیچ ڈالتے ہیں مگر یہی بزنس مین اور صنعت کار جب یہی مال اپنے ہم وطنوں کے لیے بناتے ہیں تو وہ نقص دار، گھٹیا اور بین الاقوامی معیار سے میلوں نیچے گِرا ہوا ہوتا ہے۔ ایک اور یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ اگر آپ 100 روپے کی کوئی چیز خریدتے ہیں تو اس کے 5 سے 10 روپے امپورٹر کو، 10 سے 15 روپے دکاندار کو ملتے ہیں‘ جب کہ باقی 75 سے 80 روپے منا فع پاکستان سے باہر چلا جاتا ہے۔
ایسے میں تاجروں اور صنعت کاروں کو سوچنا ہو گا کہ وہ کب تک غیر ملکی خریداروں کے سامنے بھیڑ اور لوکل مارکیٹ کے صارف کے سامنے منافع خور شیر بنے رہیں گے۔ پاکستان کی معیشت سے 2 معاشی ہِٹ مین 3 مرتبہ ہاتھ کر گئے۔ اس واردات کا آغاز مشرف کے وزیرِ خزانہ شوکت عزیز کی ٹیم نے کیا۔ پھر 2008 میں اسحاق ڈار نے دوسرے ہِٹ مین کا رول ادا کیا جب وہ پی پی پی کے ساتھ کولیشن حکومت میں وزیرِ خزانہ بنے۔ پھر ملک کی معاشی بد قسمتی 2013 سے 2018 تک یہی معاشی ہِٹ مین 7 مرتبہ ملک کو اسی منحوس معاشی چکر ((vicious economic circle میں گھسیٹتا رہا۔ بین الاقوامی اداروں نے معاشی ہِٹ مین کے جھوٹے اعداد و شمار (Fudged figures) پر پاکستان کو جُرمانے کیے۔ سزائیں دیں، تضحیک بھی کی۔ مگر اپنے پیٹ کا یہ بندہ معیشت کو مافیا کی طرح چلاتا چلا گیا۔
اب ایک سپاہی نے ہم وطنوں کو وطن سے محبت کا سندیسہ بھیجا ہے۔ اسے دل سے سُنئے!
محبت خود بتاتی ہے کہاں کس کا ٹھکانہ ہے
کسے آنکھوں میں رکھنا ہے کسے دل میں بسانا ہے
اسے معلوم ہوتا ہے، سفر دشوار کتنا ہے؟
کسی کی چشمِ گِریہ میں چھپا اقرار کتنا ہے
شجر جو گِرنے والا ہے وہ سایہ دار کتنا ہے