ہمارے دیہاتی سماج کا زرعی کیلنڈر بکرمی ہے۔ آج بکرمی سال 2076 کے مطابق ہاڑ کی 24 تاریخ ہے جس کے بعد مِڈ جولائی سے لے کر مِڈ اگست تک ماہِ ساون کا مِینہ برسے گا جبکہ مِڈ اگست سے مِڈ ستمبر تک بھادوں کے بادل گرجیں گے۔
ساون، بھادوں کے مہینے شاعرانہ، رمزیہ، عشقیہ اور فلمی مہینے سمجھے جاتے ہیں۔ اردو شاعری، ساون بھادوں کے ذکر پر رومانوی لٹریچر سے بھری پڑی ہے۔ میرے جیسے پّکے پینڈو مگر اس میں ایک کمی ہمیشہ محسوس کرتے آئے ہیں۔ ان 2 مہینوں میں سیپلنگ، پلانٹ، پودا، بیج، ینگ ٹری تو ایک طرف‘ اگر کسی درخت کی ٹہنی کاٹ کر اسے زمین میں دبا دیا جائے تو وہ بھی شجر بن جاتی ہے۔ پچھلے سال میں نے آم کے ایک نئے پودے کو مرتے ہوئے دیکھا۔ اسے گرنے سے بچانے کے لیے پاپولر کے درخت سے ایک دو شاخہ ڈنڈا کاٹا اور اسے 6 انچ زمین میں گاڑ کر آم کے پودے کو سہارا دینے کے لیے لاٹھی بنا دیا۔ یہ گزرے سال کے نومبر کی بات ہے۔ جنوری شروع ہوا تو میں بیمار آم سے ملنے چلا گیا۔ یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ دو شاخہ ڈنڈا بھی پودا بن چکا ہے جبکہ آم اور پاپولر دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے بھرپور کوشش کر رہے تھے۔ بالکل ویسے ہی جیسے مختلف برادریوں کے 2 کاشت کار کسی مشترکہ شاملاتی زمین پر قبضے کے لیے زور آزمائی کر رہے ہوں۔ زندگی مصروف ہو جائے تو وہ اپنی قدرتی ڈگر سے میلوں پرے ہٹ جاتی ہے۔ جن خاندانوں نے زرعی سماج کو چھوڑنا ترقی سمجھ لیا اور شہر کے فلیٹوں میں آ بسے‘ اُن کے بچے زمین کی خوشبو اور اس میں سے ابھرنے والی چاشنی کو جانتے ہی نہیں۔ بہت ساروں کے لیے زمین کپڑے گندے کرنے والی جگہ کو کہتے ہیں جس کے نتیجے میں امی کے چانٹے اور باپ سے جھڑِکیاں ملتی ہیں جب کہ ٹی وی والے کہتے ہیں، داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔ اپنی کیمسٹری مگر اس سے بالکل مختلف ہے۔ اکثر عدالتی کیس ختم کر کے گائوں کی طرف نکل جاتا ہوں جس کے وسط میں اونچی جگہ والد صاحب سمیت بزرگوں کی قبریں ہیں۔ کچھ مزار اتنے پُرانے ہیں کہ ان پہ ایستادہ لوحِ مزار کے پتھر اب پورے علاقے میں کہیں سے نہیں ملتے۔ کلچر کی کمرشلائزیشن نے کھنکتی مٹی کے گونجنے والے ان ہالو پتھروں کی جگہ سیمنٹ اور سریے کی ریڈی میڈ قبریں دکانوں پر سجا رکھی ہیں۔ جو لوگ زمین سے رشتہ استوار رکھتے ہیں، ان کے لیے اگلے 70 دن پرائم ٹائم ہے۔ قابلِ برداشت موسم، وقت، بے وقت بارشیں۔ مون سون میں گُندھی ہوئی مٹی۔ اس سال کی پہلی شجر کاری کا پرائم ٹائم بھی یہی ہے۔ جمعہ کے روز میں شام کی چائے پینے ہوتھلہ چلا گیا۔ میرا گائوں وسیع و عریض وادی کے درمیان ایک پہاڑی پہ واقع ہے جس کی چھت سے مشرق کی طرف کہوٹہ شہر ہے‘ جس کے عین پیچھے 4 پہاڑیاں چھوڑ کر ہلواڑہ کا بھارتی ایئر بیس واقع ہے۔ گائوں کے عین مغرب کی طرف روات ریڈیو سٹیشن کی وسیع عمارت ہے‘ جس سے تھوڑا آگے جا کر بائیں طرف توپ مانکے آلا میں بدھ مت کا بہت بڑا سٹوپا واقع ہے۔ یہ دونوں لینڈ مارک میرے گائوں سے نظر آتے ہیں جب کہ شمال مغرب میں پنڈی اور اسلام آباد کی نئی آبادیاں دکھائی دیتی ہیں۔ اسی جانب کی پہاڑی کے پیچھے نیلور فیکٹری ہے۔
کہوٹہ اصل میں ایک نہیں 2 ہیں۔ ایک KRL والا مشہورِ زمانہ کہوٹہ جو میرا گائوں بھی ہے، اور میری یونین کونسل بھی۔ یہ ہے پہلا کہوٹہ۔ پھر آزاد جموں و کشمیر کے ضلع پلندری سے آگے گزر کر دوسرا کہوٹہ آتا ہے۔ اسے فارورڈ کہوٹہ کہتے ہیں۔ مگر ان دونوں کہوٹہ کو جانے والا راستہ میرے گائوں ہوتھلہ اور ہماری اراضی سے ہو کر گزرتا ہے‘ جسے لعل پڑی ٹرائی اینگل کہتے ہیں۔
اس دفعہ گائوں میں اپنے ہاتھوں سے لگائے ہوئے پودوں اور درختوں کا ایک ویڈیو بلاگ بھی بنایا جو بابر اعوان آفیشل پر دیکھا جا سکتا ہے۔ چیڑ کے کچھ درخت 30 سے35 فُٹ اونچے ہیں، کچھ ینگ ٹری اور کچھ پودے۔ آملے کے 2 بُوٹے ٹیل برڈز اور بُلبُلوں کا جنجال پورہ ہیں۔ زیتون کے ایک اونچے درخت پر چھوٹی مکھی کا بڑا شہد کا چھتہ نظر آیا۔ آم اور اخروٹ کے درمیان ویڈیو ریکارڈنگ ہو رہی تھی کہ 2 بُھورے تیتروں نے اپنی آواز بھی ریکارڈ کروا دی۔ میں پچھلے 37/38 سال سے سال میں دو مرتبہ پودے لگاتا ہوں‘ جن کا گروتھ ریٹ 85 اور 90 فی صد کے درمیان ہے۔ پودے بچوں کی طرح پلتے ہیں مگر بڑے ہو کر آپ پر بڑوں کی طرح سایہ نثار کر دیتے ہیں۔ اس لیے جتنی محبت سے پودا لگایا جائے اُسے پالا جائے۔ وہ اتنی ہی شفقت کے ساتھ آپ کے آنگن کو آکسیجن، ائیر کنڈیشننگ سے زیادہ ٹھنڈک، سایہ اور پھل دیتا ہے۔ شجر کاری کے گزشتہ موسم میں، میں نے بارانی ایگریکلچرل سینٹر مری روڈ، زرعی مرکز چکری سے ٹاہلی کے پودوں کے بارے میں پوچھا۔ دونوں جگہ سے نصابی اور کتابی قسم کی معلومات مل سکیں جن سے اندازہ ہوا یہ پمفلٹ یا کتابچہ لکھنے والے بابو نے زندگی بھر میں ایک پودا بھی نہیں لگایا۔ ایم سی آئی پھر اسلام آباد کے ہارٹی کلچرل ڈائریکٹر سے پوچھا۔ عرفان نیازی کا تعلق بھکر سے ہے؛ چنانچہ بھکر جا کر اور 12 دن لگا کر میرے دو آدمیوں نے ٹاہلی کے 15 ہزار پودے خریدے۔
اسی ہفتے برادرم خورشید ندیم نے 2 سال پہلے کی ایک تصویر واٹس ایپ پر بھیجی جس میں ہم دونوں اپنے ہاتھ کے لگائے ہوئے درختوں کے جھنڈ میں بیٹھے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں سال بھرمیں اتنی رقم کے کپڑے یا جوتے نہیں خریدتا جتنی رقم کے پودے لے کر انہیں خود لگواتا ہوں۔ چھوٹے پودے یا ینگ ٹری پلانٹ کرنے کے 3 طریقے ہیں۔
پہلا طریقہ... جس فلیٹ، گھر یا ڈھوک میں آپ رہتے ہیں۔ وہاں فالتو کونہ، غیر ضروری کنکریٹ اکھاڑی جا سکے تو 2 فُٹ چوڑا اور ڈیڑھ فُٹ گہرا کھڈا بنائیں جس میں تھوڑی سی ریت، تازہ مٹی اور پانی بھر کر 24 گھنٹے کے لیے کھلا چھوڑ دیں۔ پھر اس گڑھے میں پودے کے تنے کے سائز کی جگہ بنائیں، جس کے نیچے تھوڑا سا پانی ڈالیں۔ پودا رکھیں اور گڑھے کو خشک مٹی سے بھر دیں۔ پھر ہاتھ یا پائوں سے اس مٹی کو ایسے دبائیں کہ پودے کی جڑوں تک ہوا نہ پہنچ سکے۔ پھر گڑھے کے کنارے سے پانی ایسے ڈالیں جیسے قدرتی بارش کا پانی نالی میں بہتا ہے۔ جہاں صرف کنکریٹ کا فلیٹ ہے، وہاں لمبے بنے ہوئے گملے‘ جو ڈیڑھ فُٹ سے 4 فُٹ سائز کے ہوتے ہیں‘ رکھیں اور ان میں آکسیجن دینے والے چھوٹے پودے لگائیں۔ جیسے ایلوویرا، تُلسی، پودینہ اور سیزنل پھول وغیرہ۔
دوسرا طریقہ... گھر سے ملحقہ خالی جگہ کو باڑ لگا کر ہر3 ماہ بعد آرگینک موسمی سبزیاں اگائی جا سکتی ہیں۔ کیاریوں میں پانی دینے کا طریقہ بارش جیسا رکھیں۔
تیسرا طریقہ... باقاعدہ شجر کاری ہے۔ اپنے علاقے میں گھوم پھر کر دیکھیں‘ فروٹ یا سائے والے جو پودے گاڑھے سبز اور پھلتے پُھولتے نظر آئیں وہی لگا دیں۔ لیجئے! آپ آرگینک لائف سٹائل کے سفیر بن گئے۔ آپ کی مٹی کی خوشبو، ہائپر ٹینشن، دل ڈوبنے، خفقان اور شکر سازی جیسی بیماریوں کو شرطیہ بھگا دے گی۔ اس سیزن میں اپنے ہاں یا کسی دوست کی زمین پر یا محلے کے نالے کے کنارے 100 پودے لگائیں اور انہیں پال لیں۔ اگلے سال آپ کہہ اٹھیں گے:
یہ موسم کونپلوں کے پھوٹنے کا
مری آنکھوں میں اب بھی جاگتا ہے