اگر آدمی کے اندر کی دنیا وہ نہ ہو جس کے بارے میں ارشاد ربانی ہے، ترجمہ ''اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر دبے پاؤں چلتے ہیں اور جب ان سے بے سمجھ لوگ بات کریں تو کہتے ہیں سلام ہے‘‘۔ (سورہ فرقان آیت نمبر63)‘ تو پھر کہیں بھی کسی معاملے پر بھی قلب کی دنیا کا دھارا تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ تو خیر اور مسیحائی کے مجسمے ہیں کیونکہ سب سے بڑی خیر کسی انسان کی زندگی بچانا ہے۔ اس لیے فرمایا گیا ہے ''جس نے کسی ایک انسان کی زندگی بچائی گویا اس نے پورے عالمِ انسانیت کو بچا لیا‘‘۔ ڈاکٹر سہیل عزیز بھی ایسے ہی ہیں۔ دوسروں کی زندگیاں بچا کر اپنے آپ کو شاد کام کرنے والے ایک سچے Happy healer۔
ڈاکٹر سہیل عزیز سے پہلے مجھے لاہور کے بہترین کارڈیالوجسٹ‘ جن سے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں برادرم میاں عامر صاحب نے ملاقات کروائی تھی اور نیم شب سے صبح دم تک یہ ملاقات ایک تعلق خاطر میں بدل گئی تھی‘ ڈاکٹر سرور چوہدری نے کچھ دن پہلے دلگیر ہو کر میرے WhatsApp پر پیغام بھیجا‘ جو یہ تھا‘
''ہم بدمعاش قوم کیوں بنتے جا رہے؟؟ آج لاہور کے شالامار ہسپتال میں ایک خاتون کی ڈلیوری کے دوران وفات ہونے کے بعد اس کے لواحقین نے ICU کے اندر توڑ پھوڑ شروع کر دی اور ڈاکٹرز کو خاص طور پر لیڈی ڈاکٹرز کو شدید زد و کوب کیا... اس سب کے بعد جان بچا کر سارا سٹاف ICU سے بھاگا اور نتیجتاً دو اور سیریس مریضوں کی وفات ہو گئی... یہاں پر ڈاکٹر ہونا بھی عذاب ہے۔
ہزاروں جانیں روزانہ بچاؤ اور ایک مریض کی موت واقع ہو جائے تو مار کھاؤ... ڈوب کے مرنا چاہئے ایسے لوگوں کو جو پہلے اپنی بیویوں کو دائیوں کے ہاتھوں میں دیتے اور جب کیس خراب ہو جائے یا خون زیادہ بہہ جائے تو ڈاکٹرز کے سر لا کر ڈال دیتے ہیں... اور پھر اپنی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب اس ملک میں قابل ڈاکٹرز نہیں ملیں گے اور انہی حکیموں اور دائیوںکے ہاتھوں ہم مریں گے... بہت جلد‘‘
ڈاکٹر سرور صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کیا ڈاکٹرز پر حملے کرنے والے لوگ قانون کی نظر میں قابل گرفت نہیں ہوتے؟ ساتھ یہ بھی سوال اُٹھا دیا کیا حکومتیں ان کو پراسیکیوٹ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی ہیں؟ میں نے دل کے مریضوں کے اس دوست کے سوالوں کے جواب تو دیئے لیکن اُنہیں مطمئن کرنے کی کوشش نہیں کر سکا۔ اور وہ اس لئے کہ جس سماج میں جان بچانے والوں کو ہسپتالوں کے اندر جان بچانے کے لئے بھاگنا اور چھپنا پڑ جائے۔ ایسی وحشت ناک ذہنیت کے حق میں کیا دلیل دی جا سکتی ہے؟ دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لوگ ہر ہسپتال میں ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی آنکھ اور اپنے ضمیر کی کھڑکی کھول کر بروقت ڈاکٹرز کی عزت اور جان کی حفاظت کرنا ہو گی ورنہ، جس خدشے کا اظہار کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر سرور صاحب نے کیا ہے‘ وہ سامنے دیوار پر لکھا ہے۔ ڈاکٹر سہیل عزیز مسلح افواج کے ادارہ قلب کے سربراہ ہیں‘ اور میڈیکل کور کے میجر جنرل بھی ہیں۔ اگلے روز میں روٹین کا میڈیکل چیک اپ اور ٹیسٹ کرانے وہاں گیا۔ تین ڈاکٹرز کی مہربان ٹیم نے میرے دل کا معاملہ کھنگال کر رکھ دیا۔ میں نے لندن کے QUEEN MARRY ہسپتال سمیت دنیا کے کئی بڑے ہسپتال دیکھ رکھے ہیں۔ اس لئے پوری ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں کہ پوٹھوہار میں واقع مسلح افواج کا یہ ادارہ قلب اُن عالمی ہسپتالوں میں سے کسی ہسپتال سے پیچھے نہیں ہے۔ ڈسپلن، صفائی، توجہ اور انسانی ہمدردی سمیت۔ وہ بھی 24/7 یعنی دن اور رات کی پروا کیے بغیر۔ اس روز ڈاکٹر سہیل عزیز نے ''پیشنٹ ڈاکٹر‘‘ ریلیشن شپ پر کمال کی بات کہی۔ کہنے لگے: ڈاکٹرز پیشے کے اعتبار سے happy healer ہوتے ہیں۔ اس لئے مسیحائوں کی ذمہ داریاں تین طرح کی ہیں۔
سب سے پہلے نمبر پر مریض سے خوش دلی کے ساتھ میڈیکل ہسٹری لینا۔ پھر اسے کونسلنگ کے ذریعے بیماری کے بارے میں آگاہ کرنا اور صحت یابی کی امید دلانا۔ یہ کام خوش دلی سے کرنے والا ہے۔ دنیا میں ڈاکٹرز سے اضافی ڈیوٹی نہیں لی جاتی۔ overtime کا تصور ہی کہیں نہیں‘ کیونکہ ڈاکٹرز سے مسیحائی کرائی جاتی ہے۔ ہمار ے ہاں ڈاکٹرز مسلسل کام کے اوقات اور لمبی ڈیوٹیوں کی وجہ سے over stress میں دبے ہوتے ہیں۔
دوسرے نمبر پہ، مریض کو خوش دلی سے heal کرنے کے بعد ڈاکٹرز کو مریض کے کیئر ٹیکر کو بھی healing happy کی ڈوز دینا ہوتی ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ مریض کے ہسپتال پہنچنے کے بعد اس کے کیئر ٹیکر کو تسلی ہو جائے کہ اب اس کا پیارا یا پیاری محفوظ ہاتھوں میں آ چکے ہیں۔
سرکاری ہسپتالوںکے حوالے سے کچھ کہنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے یہ تین کیٹیگریز میں آتے ہیں:
1) فوج اور اس سے منسلک اداروں کے زیرِ انتظام چلنے والے ہسپتال اور میڈیکل کے ادارے۔ یہاں PAF اور پاکستان نیوی کے ہسپتال اس کے علاوہ ہیں۔
2) صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومتوں کے زیرِ انتظام چلنے والے ہسپتال‘ جن میں مختلف کارپوریشنز، سوشل ویلفیئر اور نوری جیسے ادارے شامل ہیں۔
3) وہ ہسپتال جنہیں سرکار سے گرانٹ سے ملتی ہے اور بیت المال سے زکوٰۃ فنڈ۔ ان تینوں سطحوں پر علاج مفت ہے یا بے نام سے خرچ پر ہو رہا ہے بلکہ لیڈی ڈاکٹرز کے خلاف بھی۔ ہمارے سماجی رویوں کا المیہ یہ ہے کہ violecne against doctors کی سب سے بے رحمانہ اور بے شرمانہ واردتیں انہی مفت ہسپتالوں کے ڈاکٹرز کے خلاف ہو رہی ہیں۔ ہر واردات کے بعد میڈیا لاش کی تصویر کے ساتھ ساتھ غنڈہ گردی کرنے والوں کی مردانہ وار حمایت دکھاتا ہے اور ڈاکٹرز کو medical negligence کا ذمہ دار ٹھہرا چھوڑتا ہے بغیر کسی تحقیق، تفتیش یا ٹرائل کے۔
یہاں یہ بات کہنا ضروری ہے کہ اپنی سرزمینِ باآئین میں ایک سے زیادہ قوانین medical negligence کے انتہائی تکنیکی شعبے کے بارے میں موجود ہیں لیکن ہر ہسپتال کی ایمرجنسی میں سٹریٹ جسٹس ہو رہا ہے۔ اب آپ خود فیصلہ کر لیجئے کہ ڈاکٹر سرور کا کہنا درست ہے یا غلط۔ شعبہ ایمرجنسی رسپانس میں تشدد اور روڈ سائیڈ ایکسیڈنٹ کے مریض آتے ہیں جنہیں دیکھنا‘ ان کے خون، بھیجے اور ہڈیوں کو ہاتھ تک لگانا بھی ہمت کا کام ہے۔ ایسے میں ڈاکٹرز عمومی طور پر اور لیڈی ڈاکٹرز جس خصوصی احترام اور ادب کی مستحق ہیں‘ اگر وہی ان سے چھین لیا جائے تو پھر happy healing کہاں سے آئے گی؟
پسِ نوشت: سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کو ہٹانے کے لئے تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہو گئی۔ اس الیکشن پراسیس کے دواران وزیرِ اعظم پاکستان کے کہنے پر میں نے چیئرمین سینیٹ سے ملاقات کی‘ جن کی کارکردگی اور غیر جانبداری پر ممبران کو معترف پایا۔ عدم اعتماد کی یہ تحریک اپوزیشن ارکان کے لیے فوڈ گالا ثابت ہوئی۔ ناشتے، استقبالیے، ظہرانے، عصرانے‘ ہائی ٹی اور عشایئے‘ سب ناکام ٹھہرے۔ لگتا ہے‘ اپوزیشن کے چودہ ارکان لوٹے ہوئے مال کی ریکوری چاہتے ہیں بلکہ قومی مفروروں کی واپسی بھی۔ اپوزیشن تقسیم ہوئی اور پانچ ووٹ مسترد بھی۔ اور ایسے میں امیر زادے لیڈر ساغر صدیقی سے راہنمائی لیں۔
جامِ عشرت کا ایک گھونٹ نہیں
تلخیٔ آرزو کی مینا ہے
زندگی حادثوں کی دنیا میں
راہ بھولی ہوئی حسینہ ہے!