یہ 38 سال پہلے کی تصویر ہے‘ جس میں بھارت کا موجودہ وزیرِ اعظم نریندرمودی دھرنا دیے بیٹھا دکھائی دے رہا ہے۔ مودی کے دھرنے کا سنگل پوائنٹ ایجنڈا اس کے ارد گرد لگے بینرز پر صاف لفظوں میں لکھا گیا تھا: آرٹیکل 370 ختم کرو۔
آج کا مودی راج راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS) کے خواب کی تعبیر ہے۔ وہ خواب جو بر صغیر کے مسلمانوں کو 1937ء میں پہلی بار سمجھ آیا تھا۔ اگرچہ آل انڈیا کانگریس کا چہرہ غیر مذہبی (Secular) تھا، لیکن ایجنڈا شُدّھی اور سنگھٹن والا تھا۔ یہ در حقیقت وقفے وقفے سے تقریباً 250 سال اور مسلسل 650 سال ہندو کے استھان پر مسلم راج کے بدلے کا نعرہ تھا۔
شُدّھی کا مطلب Ethnic Cleansing یعنی محمڈن تہذیب پر ایمان رکھنے والوں کا ٹوٹل جسمانی صفایا‘ جبکہ سنگھٹن کا مطلب Extermination of Indian Muslims تھا‘ یعنی مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال باہر پھینکنے کا ایجنڈا۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ کسی ایک کمیونٹی کے قتلِ عام اور اسے زمین سے باہر اٹھا کے پھینکنے کا ایشیا میں یہ پہلا کھلا اور برملا منشور تھا۔ بر صغیر کی آزادی کے کرانیکلز اور تاریخ لکھنے والے معتبر مغربی زعما نے اس کی زبردست تشریح کی ہے۔ مثال کے طور پہ یہ کہ ابتدا میں قائد اعظم محمد علی جناح ہندوستان کی برٹش راج سے آزادی کے سفیر کے طور پہ جانے گئے۔ حریت سے کمٹڈ، مضبوط اعصاب اور کلیئر ویژن رکھنے والے مسلم راہنما۔ تب کانگریس کا ایجنڈا، دام ہم رنگِ زمیں جیسا تھا۔ کانگریس کا نعرہ انتہائی دل فریب۔ کانگریس انگریزوں سے مطالبہ کر رہی تھی کہ ہندوستان کو One Nation Principle یعنی ایک قومیت کے طور پہ آزاد کر دیا جائے۔ پھر پورے ہندوستان میں مسلمانوں کو آزاد حکومت کی حیثیت (status) دے دی گئی۔ کانگریسی مولویوں نے اسی نعرے پر جوا کھیلا تھا اور پاکستان کے قیام کی تابڑ توڑ مخالفت جاری رکھی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ جونہی کانگریس کو اختیار ملے گا وہ مسلم سوادِ اعظم کے نام پہ کانگریس سے اقتدار میں اپنا حصّہ وصول کر لیں گے۔ مسلمانانِ ہند کی ایک معمولی سی اقلیت نے اسے پُر کشش نعرہ سمجھا‘ مگر یہ سارے لوگ بنیادی طور پر ایک ہی طبقۂ خیال کے حامی تھے۔ کانگریس سے اقتدار میں حصّہ وصولنے کے لیے انہوں نے پانچ، چھ سیاسی آؤٹ فِٹ بنا ڈالے۔
اسی کانگریسی جال میں بعض کشمیری راہنما اور سِکھ کمیونٹی کے سیاسی لیڈر بھی پھنس گئے۔ ان کا پھنسنا کوئی بھول چوک نہیں تھی‘ اقتدار میں حصّہ لینے کا ایک سوچا سمجھا (Considered) فیصلہ تھا‘ جس کی مثال شیخ عبداللہ اور ان کے خاندان سے واضح طور پر ملتی ہے۔
بانیٔ پاکستان حضرت قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ خود مختار ریاست کے حصول کا نصب العین واضح کیا تو یہی ٹولے ان کے پیچھے پڑ گئے۔ الزام یہ تھا کہ محمد علی جناح یک قومیتی ہندوستان کے نظریے کی نفی کر رہے ہیں۔ کانگریس کے لیڈروں اور ان کے گماشتوں نے بابائے قوم پر مسلم کارڈ استعمال کرنے کی پھبتی بھی کس ڈالی۔
مگر قائد اعظم کانگریس کے ''سٹوری بورڈ‘‘ پر سیاسی کردار ادا کرنے سے باغی رہے۔ بات تاریخی تناظر کی ہے، اس لیے آئیے آج سے 8 سال پیچھے چلتے ہیں۔ یہی اگست کا مہینہ ہے اور 13 تاریخ‘ یعنی یوم آزادی والی رات کا دن۔ پاکستان اور دو قومی نظریے کے مشہورِ عالم مہربان امتیاز عالم والی ساؤتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن (SAFMA) کی تقریب۔ مقامِ تقریب ہے لاہور۔ اُس وقت کے اپوزیشن لیڈر، پھر وزیر اعظم نواز شریف کی تقریب سے خطاب کے وڈیو کلپ کا Verbatim ترجمہ پیشِ خدمت ہے:
''ایک زمانے میں مشہور تھا کہ یہ سب... سب... یہ کیا ہے سب؟ یہ صرف... وہ جو بیچ میں بارڈر آ گیا ہے۔ بس وہ یعنی کہ... ایک بارڈر آیا۔ باقی تو آپ ہم اِسی سوسائٹی کے ممبران ہیں۔ آپ ہم جو ہیں... ایک ہی کلچر ہے۔ ایک ہی... جو ہے... وہ ہمارا جو ہے... وہ بیک گراؤنڈ ہے۔ تو کھانا بھی اسی قسم کا آپ کھاتے ہیں۔ ہم بھی اُسی قسم کا کھانا کھاتے ہیں۔ اور میں نے یہاں خود کہا ہے... اور میں نے... خود جب واجپائی صاحب نے اس بات کا گلہ کیا کہ جناب دیکھیے ایک طرف لاہور ڈیکلیریشن ہو رہا ہے اور دوسری طرف... جو ہے... وہ کارگل کا... وہ ایڈونچر... مس ایڈونچر کر کے میری پیٹھ پر چھرا گھونپا گیا۔ میں نے کہا... اور میں نے کہا... اور میں، میں، میں نے کہا بالکل واجپائی صاحب ٹھیک کہتے ہیں۔ اُن کی پیٹھ میں چھر ا واقعتاً گھونپا گیا۔ اگر میں ان کی جگہ ہوتا، میں بھی یہی بات کرتا کہ بالکل... یعنی کہ ایک... جو ہے وہ... پیٹھ میں چھرا گھونپنے والی بات ہے۔ لیکن میں اب یہ گلہ کس سے کروں؟ پاکستان کے اندر آپ جانتے ہیں، یہ گلہ کس سے کرنا چاہیے اور کون اس کا ذمہ دار ہے۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کو یقینا شاباش ملنی چاہیے۔ کہتے ہیں ہم بھی اُسی کو رب کہتے ہیں جس کو آپ پوجتے ہیں... رب کو! اس کو ہم بھی پوجتے ہیں‘‘۔
ایسی خوشامد پرستانہ اور کاروباری تقریروں کے باوجود بھی پاکستان کو ہندو قیادت نے کبھی دل سے قبول نہیں کیا۔ جس کی بنیاد کچھ بھی نہیں بلکہ دو قومیتوں پر مشتمل ہندوستان کا نظریہ ہے۔ جسے عرفِ عام میں Two Nations Theory کہا گیا۔ ورنہ اگر ہندو لیڈرشپ کے دل میں انڈین مسلمانوںکی نفرت کی وجہ کوئی حملہ ہوتا تو آج نارتھ کی ریاستوں سے ہندو لیڈرشپ کو ویسی ہی نفرت ہوتی جیسی انڈین مسلم کمیونٹی سے ہے‘ جسے بھارت میں مسلمان کے بجائے محمڈن لکھا، بولا اور پڑھا جاتا ہے۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی آبادی کو پاپولیشن سروے کم دکھا کر پیش کرتا ہے۔ اسکے باوجود بھارت میں مسلمان پاکستان اور بنگلہ دیش کی کل آبادی سے زیادہ ہیں۔
یہاں سوال یہ ہے کہ آج ہندوستان میں کوئی مولوی یا مسٹر قومی سطح کا لیڈر کیوں نہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کا کردار عملی سیاست میں ثانوی بھی نہیں کیونکہ ثانوی کردار سِکھ اقلیت کے پاس ہے۔ بھارت کے سیاسی گاڈ فادر پنڈت جواہر لعل نہرو نے امریتا بازار پتریکا، کلکتہ میں ایک تحریری بیان جاری کیا تھا۔
2 جنوری 1952ء کے دن ہندوستان کے بانی وزیرِ اعظم نے کشمیری مسلمانوں سے دو وعدے کیے تھے۔ پہلا وعدہ ان لفظوں میںکیا،
''کشمیر بھارت یا پاکستان کی جائیداد نہیں ہے۔ یہ کشمیر کے لوگوں کا ہے۔ جب کشمیر نے بھارت کو تسلیم کیا، ہم نے کشمیری لوگوں کے حکمرانوں کو صاف باور کرا دیا کہ ہم ان کی رائے عامہ کے فیصلے کی ہر صورت پابندی کریں گے۔ اگر ہمیں وہ چلے جانے کا کہیں گے تو مجھے کشمیر کو چھوڑنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہو گی‘‘۔
آج کوئی ہے جو اس حقیقت سے انکار کر سکے کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کے لیے ہے مسلمانوں کے لیے نہیں۔
دوسرا وعدہ کرتے ہوئے پنڈت جواہر لعل نہرو نے کہا تھا،
''ہم نے اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں اٹھایا ہے اور پر امن حل کے لیے اپنا وعدہ دیا ہے۔ ایک عظیم قوم کی حیثیت سے ہم اس پر واپس نہیں جا سکتے۔ ہم نے آخری حل کے سوال کو کشمیر کے لوگو ں پر چھوڑ دیا ہے اور ان کے فیصلے کی پابندی کرنے کے لیے ثابت قدم ہیں‘‘۔
آج ہندوستان عالمی، اخلاقی، قانونی اور سیاسی تنہائی کے کنویں میں گر گیا ہے۔ تبھی سیکولر بھارت کو ترجیحاً عالمی پذیرائی ملتی تھی۔ اب بھارتی ہندوتوا کے کشمیر ایکشن کو پہلے ہی دن ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مسترد کر دیا۔ چوتھے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 49 کی رو سے بھارت کے فیصلے کو عالمی عدالت میں لے جایا جا سکتا ہے۔ بھارت کے گلے میں کشمیر کا ہارا ہوا مقدمہ ہمیشہ طوق کی طرح لٹکتا رہے گا۔ کوئی دوسرا پلوامہ یا آزاد کشمیر میں مِس ایڈونچر ہارے ہوئے اس مقدمے میں بھارت کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔