یہ عام لوگ نہیں۔ صرف مرد نہیں، بلکہ ان میں خواتین بھی شامل ہیں۔ معمولی حیثیت کی خواتین بھی نہیں بلکہ انڈین پارلیمنٹ کی ممبرز، ہندو سول سوسائٹی کی لیڈرز، نوجوان لڑکوں لڑکیوں کی مائیں، انڈین سنٹرل کیبنٹ کے رکن بھی ان میں شامل ہیں۔
غور سے سنیے گا۔ یہ سارے مل کر کہہ کیا رہے ہیں؟ اپنی آوازوں میں، ریکارڈ شدہ پریس ٹاک، V-log اور کھلے پیغامات کے ذریعے۔ ایسے پیغامات جو سوشل میڈیا کے ذریعے ساری دنیا میں وائرل ہو گئے۔ سچی بات یہ ہے اِن کا سارا کہا ہوا یہاں نقل ہی نہیں کیا جا سکتا۔ ایک جملہ کافی رہے گا، ''15 سال سے زیادہ عمر کے لڑکو جاؤ اور مسلمان خواتین کا گینگ ریپ کرو مقبوضہ کشمیر میں، علی گڑھ یونیورسٹی میں اور جہاں کہیں وہ تمہیں مل جائیں‘‘۔ دوسرا پیغام بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے دیا اور کہا کہ پاکستان پر ایٹمی حملہ کب کرنا ہے‘ اس وقت کی چوائس بھارت خود سے کرے گا‘ اب ہم نے No First Use کی پالیسی ترک کر دی ہے۔
تیسرا پیغام بھارتی میڈیا 24/7 دے رہا ہے اور یہ پیغام کسی طرح سے بھی ڈیکلریشن آف وار سے کم نہیں۔ چوتھا پیغام بی جے پی کے تھنک ٹینک سمجھے جانے والے سبرامنیم سوامی نے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے ٹویٹ کے ذریعے دیا‘ جس کے الفاظ یہ ہیں، ''پاکستانی مقبوضہ کشمیر واپس لینے کے لیے پہلے ہمیں UNSC میں داخل کردہ نہرو کی غیر قانونی پٹیشن واپس لینا ہو گی۔ اس کے بعد لائن آف کنٹرول غیر قانونی قرار پائے گی اور انڈین آرمی لائن آف کنٹرول پار کر سکتی ہے کیونکہ لائن آف کنٹرول باقی ہی نہیں رہے گی۔ مظفر آباد پر قبضہ کرنا آسان ہے۔ سکردو پر بھی‘‘۔
پانچواں پیغام لائن آف کنٹرول سے مسلسل آ رہا ہے۔ ہم اسے ceasefire line کہتے ہیں۔ جہاں سے روزانہ سویلین اور فوجی ٹھکانوں پر بلا جواز اور بلا اشتعال فائرنگ اور شیلنگ کر کے بھارت یہ پیغام دئیے جا رہا ہے۔ اسی لیے پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان نے AJK اسمبلی میں آزاد کشمیر پر چڑھائی کے مکروہ بھارتی منصوبے کو ایکسپوز کیا تھا۔ کل پاک فوج کے ترجمان نے اسی تسلسل میں کہا کہ ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی ہوئی تو بھارت کو زبردست سرپرائز دیں گے‘ تیاریاں مکمل ہیں‘ قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔اب آئیے ذرا مین لینڈ پاکستان پر کچھ گفتنی، کچھ نا گفتنی کی طرف۔ایک بڑے سیاسی مولوی صاحب چند دن پہلے تک روزانہ ہی پاکستان برباد ہو جائے گا اور اسلام آباد پر قبضہ کرنے والی بانگ دے رہے تھے۔ کشمیر ڈیڑھ عشرے تک اُن کی وجۂ روزگار بذریعہ کشمیر کمیٹی بنا رہا‘ بلکہ رہائش کا بندوبست، نوکر چاکر، مفت کی بجلی، فری ٹیلی فون، گیس، پانی، سرکاری گاڑیاں، ڈیزل، پٹرول فری اور بغیر تنخواہ کے گارڈز، پروٹوکول اور لاؤ لشکر بھی۔ اس سب کے ساتھ بلٹ پروف SUV بھی سرکار کی جانب سے عوام کے خرچے پر۔ پتا نہیں آج کل موصوف کہاں ہوتے ہیں۔ وہ جہاں بھی ہیں یقینا خوش ہوں گے اور شیریں زبانی سے دھیمے سُروں کا ترنّم یوں کہہ رہا ہو گا۔
خامشی عین ترنّم ہے سماعت کے لئے
ساز مت چھیڑ کہ لذت کا زیاں ہوتا ہے
یادش بخیر، دو پختونخوا رہنما اُن کے ہم نوا تھے جو قوم پرستی کو مذہب کا درجہ دیا کرتے۔ وہ دونوں بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے نئے حملے کے ساتھ ہی چُپ کے روزے پر چلے گئے۔ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی جن کا پسندیدہ فعل تھا۔ نیشنل ازم کے نام پر گلچھرے اُڑانے والے کشمیر کے نام سے ایسے بھاگے جیسے جلے ہوئے گاؤں سے جوگی بھاگتا ہے۔ مزید یادش بخیر، پاکستان میں سول سوسائٹی کی ایک Candle Vigil المعروف موم بتی تحریک ہوا کرتی تھی۔ اِدھر کوئی تھپڑ مارنے والی ویڈیو آئی اُدھر لاہور، کراچی، پشاور اور اسلام آباد کی سڑکوں پر پندرہ بیس موم بتیاں مدقوق اور مشکوک چہروں کے سامنے جل اٹھیں۔ لبرل ازم کے پرچارک فوٹو گرافروں نے وہ وہ اینگل بنائے کہ کینڈل بے چاری شرما کر رہ گئی۔ یہ موم بتی تحریک ہیومن رائٹس، حقِ انسان، میرا جسم میری مرضی اور تشدد کے خلاف عالمی تحریک بھی کہلائی۔ کوئی تلاش گمشدہ کے اشتہار دے کر معلوم تو کرے کہ موم بتیاں مفادات کے ساون میں بھیگ گئی ہیں‘ فنڈنگ کی برسات میں بجھ چکی ہیں یا بھارت کی عنایات پر خاموش ہیں۔ پلیز اُنہیں جا کر بتا دیں کہ آج مقبوضہ کشمیر میں انسانی ناکہ بندی اور کرفیو کا 16واں دن ہے۔ لاکھوں بچیاں، لڑکیاں، لڑکے، مائیں، مریض، زچہ اور بچہ بھوک پیاس اور دوا کے ہاتھوں نڈھال ہیں۔ پرانے بینرز نکالو، موم بتی لے آؤ، بھارتی سفارت خانہ موجود ہے اور UNO مبصر کا دفتر بھی۔
خموشی کا بدن ہے چادرِ بارود کے نیچے
اندھیرے راکھ کے پہلو میں محو استراحت ہیں
ہاں البتہ ایک ''سمسّیا‘‘ یوں سمجھ آتی ہے کہ انڈین مقبوضہ کشمیر کے لیے بولنا اور وہ بھی مفت میں۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر چلو چل کر موم بتی جلاتے ہیں۔
دو عدد بیان باز بابے بھی ہوا کرتے تھے۔ وہ بھی کشمیر پر ایسے چُپ ہیں جیسے منہ اشرفیوں سے بھر چکا ہو۔ دونوں انسانی حقوق کے چیمپئن۔ ایک سپریم کورٹ کو انصاف کی راہ پر ڈالنے کے لیے پٹیشنیں فائل کر رہا ہے دوسرا کشمیر کی ''کیاف‘‘ بولنے کے لیے بھی تیار نہیں۔مین لینڈ کے سیاسی منظر نامے پر ''گورنمنٹ اِن ویٹنگ‘‘ کے دو مد مقابل گھرانے دو ہی بیان دے رہے ہیں۔ پہلا یہ کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے کشمیر کا سودا کر کے اُسے بیچ ڈالا۔ دوسرا بیان کہتا ہے‘ حکومت نے کشمیر کا مقدمہ صحیح طریقے سے نہیں لڑا۔
یہ کوئی موقعہ نہیں‘ ورنہ خالصتان کے حامی سکھوں کی فہرستوں سے شروع کر کے مودی کے کان والے مذاکرات تک کی تفصیل لکھی جا سکتی تھی۔ پوری قوم کشمیر کے معاملے میں قومی اداروں کی طرح ایک پیج پر ہے‘ سوائے ان دو گھرانوں کے جن کی تین نسلیں صرف ایک ہی مالا جپ رہی ہیں ''جب اقتدار آتا ہے ساتھ پیسہ لاتا ہے۔ جب اقتدار زیادہ آتا ہے تو ساتھ زیادہ پیسہ لاتا ہے‘‘۔
دوسری جانب اقوامِ متحدہ نے کھل کر کہہ دیا کہ تنازعہ کشمیر کو حل کیا جائے۔ بھارت کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے UN آفیشل ویب سائٹ پر بیان جاری کیا گیا‘ جس کا ریفرنس UNSC کی میٹنگ اور مسئلہ کشمیر تھا۔ یو این کے الفاظ میں
"Kashmir conundrum would be addressed in line with the UN charter and UNSC resolution in the peaceful manner"
یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ 1965 کے بعد 54 سال کا عرصہ گزر ا مگر UNSC نے کبھی مسئلہ کشمیر پر بحث نہیں کی۔ بھارت اسے Dead Wood قرار دیتا رہا‘ جس کے جواز میں شملہ معاہدہ، لاہور ڈیکلریشن ون اور ڈیکلریشن نمبر ٹو پیش کیا گیا۔ بھارت نے مسلسل دعویٰ یہ رکھا کہ مسئلہ کشمیر عالمی تنازعہ نہیں رہا اب دونوں ملک آپس میں طے کریں گے کہ کشمیر کا مستقبل کیا ہے۔ یہ ایسا دعویٰ تھا جو اقوام متحدہ میں نہرو پٹیشن کی نفی ہی نہیں کرتا بلکہ UNSC کی قراردادوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر سے بھی متصادم ہے۔
اگلے روز آگ میں جلتے اننت ناگ سے ایک کشمیری بچی کا پیغام ملا۔ پیلٹ گن کی زخم خوردہ کشمیری معصوم کلی نے لکھا: ملالہ کہاں ہو؟ تم کہتی تھی میں سکولوں کی محافظ ہوں۔ کیا تم صرف NGO زدہ سکولوں کی محافظ ہو؟ مقبوضہ کشمیر میں تعلیم کے سارے مراکز بند ہیں۔ ملالہ تم کب بولو گی‘ میرے سکول نے تمھارا کیا بگاڑا ہے؟ میں ملالہ فنڈ میں حصہ نہیں مانگتی۔ ملالہ میرا سکول کُھلوا دو۔
خموشی توڑ دوں، اعلان کر دوں
بھرے جنگل کو میں حیران کر دوں
پرے رکھ یہ دکانِ حسن اپنی
مبادا میں کوئی نقصان کر دوں