بات ہو رہی تھی وادیٔ کوئٹہ کے آئی کون پہاڑ چلتن کی اور حوالہ ہے اُس خواب نگر کا جہاں چاند اور چکوری ملتے ہیں۔ چلتن کے پہاڑ کے نام سے مختلف کاروباری ادارے بھی منسوب ہیں۔ اگر مجھے صحیح طرح سے یاد ہے تو اس کے سامنے کوہِ ''تکا تُو‘‘ واقع ہے۔ ''تکا تُو‘‘ پر بھی کافی تعداد میں مار خور بسیرا کرتے ہیں۔ کوئٹہ وادی کا تیسرا پہاڑ کوہِ مُردار کہلاتا ہے۔ اس مُردار کے پائوں میں سال 1935 میں ایسی جُنبش آئی کہ اُس نے کوئٹہ کی آبادی کو ملیامیٹ کر کے رکھ دیا۔ یہ اس علاقے کی معلوم تاریخ کا پہلا خوفناک زلزلہ تھا۔ اب بھی اس وادی میں ذرا سی سیسمک جُنبش ہو تو 1935 کی تڑپا دینے والی یادیں لوٹ کر آ جاتی ہیں۔ کوئٹہ ایئر پورٹ پہ وکلاء اور پی ٹی آئی کے کافی دوست ریسیو کرنے کے لئے موجود تھے۔ پُرانے کوئٹہ میں ایئر پور ٹ روڈ کی دونوں جانب چند سال پہلے تک مٹّی اور گارے کے قلعے نظر آتے تھے۔اس بار 6 رویہ شاہراہ، کوئٹہ شہر اور کینٹ کی طرف دوڑتی ملی۔ دونوں جانب سلیقے سے بنائی گئی دیواریں، ہائوسنگ پراجیکٹس، خوبصورت شاپنگ سنٹرز اور رواں دواں ٹریفک دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔ میں نے جہاں ٹھہرنا تھا وہ کوئٹہ کا سب سے خوبصورت لینڈ مارک ہے۔ اسماعیلی روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خان کی خصوصی توجہ سے کچے قلعوں کی روایات برقرار رکھنے والا ایک پنج ستارہ ہوٹل۔ جس کے اندر کی دُنیا کسی بڑے نروان گھر جیسی لگتی ہے۔ خواب ناک لائٹنگ، وہ بھی سیندور میں گُندھی ہوئی کسی شہزادی جیسی۔ باہر سے یوں لگتا ہے جیسے ہم کسی کچی بستی میں داخل ہو رہے ہیں۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس کی ایک راہ داری کے باہر چندا اور چکوری کا لائیو شو مجھے دکھائی دینے کے لئے بے تاب ہے۔
دوستوں کا ایک ہجوم یہاں بھی منتظر تھا۔ تقریباً 40 منٹ بعد اجازت لی۔ ڈپٹی سپیکر قاسم سُوری کو کسی بڑے گھر سے فون تھا کہ مجھے کھانے کے لیے ساتھ لے کر وہاں پہنچے؛ چنانچہ ہم دونوں کینٹ کے اندر ہی ایک انتہائی مُنظّم کمپائونڈ میں گئے‘ جہاں کمان دار کے ساتھ گھنٹہ بھر ورکنگ لنچ سمیت گپ شپ ہوئی۔ مٹن پلائو، رائتہ اور تازہ کٹی ہوئی سلاد کے بعد رَس ملائی پر مشتمل ون ڈِش لنچ۔ اُٹھنے لگا تو ان کے دو دوست اور بھی آ گئے‘ جن کے اصرار پر دوبارہ بیٹھک جم گئی۔ کچھ اُن کے استفسارات اور زیادہ میرے سوالات۔ میں وہ سب کچھ جاننا چاہتا تھا جو بلوچستان کے بارے میںکہا اور بولا جاتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس پہ کہنے اور بولنے والوں نے ابھی تک بلوچستان کے پانچ شہر بھی نہیں دیکھے ہیں۔ اگر میری بات پہ یقین نہ ہو تو کسی ایسے بولو رام سے پوچھ کر دیکھ لیں۔ یہ ظہرانہ میرے اور قاسم سُوری کے لئے سب سے با معانی بریفنگ ثابت ہوئی۔ خوش آئند ترین بات یہ کہ پاکستان کی نئی عسکری اور قومی لیڈر شپ‘ دونوں ہی پڑوسی ملکوں کے ساتھ working relationship نہیں بلکہ مستقبل کے لئے workable relations کے لئے کام کر رہے ہیں‘ جس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایران کے ساتھ بارڈر فینسنگ پر جہاں جہاں امیگریشن پوسٹس بنائی جائیں گی‘ اُس علاقے میں نئے بازار اور مارکیٹیں بھی بنیں گی۔ بالکل ویسے جیسے میران شاہ میں افغانی بارڈر ''خان غلام‘‘ کے سامنے جائز کاروبار کو سہولت فراہم کرنے کے لئے میر علی بازار میں نئی مارکیٹیں بنی ہیں۔
واپس آ کر فریش اپ ہوئے۔ پھر جِم اور سوئمنگ کے لئے چل نکلے۔ تقریباً 90 منٹ بعد مغرب کی جانب سورج غروب ہو رہا تھا۔ میں نے فرنٹ آفس سے پوچھا: دیسی دُودھ کی چائے ملے گی۔ ایک ویَلے (valet) کہنے لگا: کیوں نہیں! آئیے، آپ کو گُلستان کورٹ لے چلتے ہیں۔ گلستان ایک چھوٹا سا باغ ہے‘ جس کی تصویر آپ میرے یو ٹیوب چینل پر دیکھ سکتے ہیں۔ سر سبز اور ٹھنڈے چمن کی آئوٹ ڈور ٹیبل پر بیٹھتے ہی میں چکرا سا گیا۔ مجھے یاد آیا کہ چند منٹ پہلے ہی میں مغرب کی طرف سورج ڈوبتا دیکھ کر آیا ہوں۔ تو پھر یہ مشرق سے سورج کیسے طلوع ہو رہا ہے؟ ویَلے کہنے لگا ''سامنے ''کوہِ زرغون‘‘ کی چوٹی ہے اور مشرق سے سورج نہیں چاند طلوع ہوا ہے‘‘۔ میں نے غور سے دیکھا تو دُور پہاڑی پر سے چھوٹے چھوٹے سائے چاند کی طرف اُڑان بھر کے نیچے کی طرف گرتے نظر آئے‘ جیسے ساون کے مہینے میں پروانے سٹریٹ لائٹ کی طرف اُڑتے ہیں اور پھر نیچے زمین پر گر جاتے ہیں۔ میری حیرانی دیکھ کر ویَلے بولا '' سر آپ بہت لکی آدمی ہیں۔ اس وقت چکوری پیار سے چاند کی طرف اُڑ رہی ہے‘ جہاں ان پرندوں کی قوتِ پرواز ختم ہوتی ہے‘ وہاں سے یہ زمین پر واپس آ گرتے ہیں‘‘۔ میں مبہوت ہو کر اس چوٹی کو تکتا رہا جہاں چاند اور چکوری ملتے ہیں۔
میرے اس اشتیاق کو دیکھ کر ویَلے کہنے لگا کہ چکوری پہاڑ کی چوٹی سے کبھی نیچے نہیں اُترتی‘ اگر آپ چکوری کا کوئی بریڈنگ جوڑا رکھ لیں۔ وہ آپ کے گھر میں بے شک دو دفعہ بھی بریڈنگ کرے‘ انڈے دے ، بچے نکالے‘ مگر جونہی چاند بڑا ہو گا وہ آپ کو دغا دے کر اپنے محبوب کی طرف بھاگ نکلے گا۔ میری کیفیت یوں ہو گئی:
چاند تکے چُھپ چُھپ کے اُونچی کھجور سے
ملنے کو آئی تھی، میں تو حضور سے
میری دل چسپی کے پیش نظر وَیلے بولتا چلا گیا۔ پوچھنے لگا: آپ نے سِیسی دیکھی ہے۔ میں سمجھا رومانوی کریکٹر سسّی کا پوچھ رہا ہے۔ جواب دیا: نہیں‘ میں سسّی کے زمانے سے بہت بعد میں پیدا ہوا ہوں۔ وَیلے پھر بولا کہ اس کا گوشت بڑا میٹھا ہوتا ہے۔ میں نے ہنسنا شروع کر دیا۔ سِیسی دراصل بلوچستان کا دوسرا مشہور ترین پرندہ ہے‘ جو پہاڑوں سے نیچے اُترنے کا عادی ہے۔ چکور سے ذرا سا چھوٹا۔ سِیسی شکاریوں کا بھی بہت محبوب گوشت ہے۔ تیسرا ممتاز ترین پرندہ ایران سے اُڑ کر بلوچستان میں داخل ہوتا ہے۔ اسے فارسی زبان میں ''ہزار داستان‘‘ اور بلوچستان میں '' جَل‘‘ کہتے ہیں۔ ہزار داستان کی خوبی یہ ہے کہ جب تک اُس کے پنجرے پہ پردہ نہ ڈال دیا جائے وہ بے تکان بولتا رہتا ہے۔
دوسرے دن صبح بلوچستان ہائی کورٹ پہنچے‘ جس کی تین منزلہ خوبصورت عمارت میں، شہرِ اقتدار کی شاہراہِ دستور پہ ایستادہ، سپریم کورٹ بلڈنگ سے بہت بہتر لفٹس لگی ہوئی ہیں۔ اس کا ایک دروازہ جو پیدل چلنے والوں کے لئے ہے، وہ ہوٹل کی کمپائونڈ وال کے ایگزٹ کے عین سامنے ہے۔ کورٹ روم میں بلوچستان کے بہت سارے قبائل کے میر، سردار اور نواب پہنچے ہوئے تھے۔ 80-90 وکلاء حضرات بھی۔ صبح پونے 9 بجے سے لے کر سوا 3 بجے تک سارا وقت یہیں گزرا۔ میرے عین اُوپر والا پنکھا ناکارہ تھا۔ جیسے ہی رش پڑا، اے سی بے چارہ ٹھپ ہو گیا۔ میرے لئے اس Hearing کا واحد ریلیف 30 منٹ کا وقفہ تھا جس میں، میں نے لابی میں واک کی اور شکنجبین کے ایک گلاس سے استفادہ کیا۔ اس دوران ہماری طے شُدہ فلائٹ 3 بجے اسلام آباد کے لئے پرواز کر گئی تھی۔ مجھے فلائٹ چھن جانے کی خوشی ہوئی۔ اب تقریباً ڈیڑھ دن مزید میرے ہاتھ آ گیا تھا۔ بلوچستان کے ایڈووکیٹ جنرل بعد از سماعت مجھے ملنے آ گئے۔
چاند اور چکوری ملتے رہیں گے۔ بلوچستان کا سفر جاری رہے گا، بریک کے بعد بھی... (ختم)
میں نے غور سے دیکھا تو دُور پہاڑی پر سے چھوٹے چھوٹے سائے چاند کی طرف اُڑان بھر کے نیچے کی طرف گرتے نظر آئے‘ جیسے ساون کے مہینے میں پروانے سٹریٹ لائٹ کی طرف اُڑتے ہیں اور پھر نیچے زمین پر گر جاتے ہیں... میں مبہوت ہو کر اس چوٹی کو تکتا رہا جہاں چاند اور چکوری ملتے ہیں۔