مجھے لگا سامنے جمعہ بازار سجا ہے۔ ایسا منظر مال روڈ کے پنج ستارہ ہوٹل میں صرف افطاری کے دنوں میں نظر آتا ہے‘ جب Atrium کی لابی تک کنورٹیبل میز اور چومکھی کرسیاں لگائی جاتی ہیں۔ انتہائی خوشگوار حیرت سے دل شاد ہو گیا۔ مادرِ وطن کے لیے وہی دعا روح کی گہرائیوں سے نکلی جو ہر مرتبہ نیو اسلام آباد ائیرپورٹ دیکھ کر نکلتی ہے۔ اے مہربان مالک! اس ہوائی اڈے کو دنیا بھر کی ائیر لائینوں کے جہازوں سے بھر دے۔
حسبِ معمول زندہ دلان کے شہر لاہور آنے کا مقصد ہائی کورٹ کیسز تھے جن میں سے ایک پر بحث مکمل کر سکا۔ اتنی دیر لگی کہ دوسرا مقدمہ ملتوی ہو کر فاضل بینچ اُٹھ چکا تھا؛ چنانچہ صدر لاہور ہائی کورٹ بار حفیظ الرحمن، سیکرٹری فیاض رانجھا اور کوٹ مومن بار ایسوسی ایشن کے صدر ملک شہزاد نطہر کی کرٹسی میں لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے کمیٹی روم میں چائے پینے اور گپ شپ کرنے چلے گئے۔
بات شروع ہوئی تھی جمعہ بازار جیسے منظر سے۔ اِسے لنچ سرکس کا نام دیا گیا تھا۔ درجنوں گورے، گوریاں، سری لنکن ساڑھیوں اور حلیے والی خواتین اور تھائی لینڈرز۔ چائنیز مہمانوں سمیت اس قدر رش کہ میں سوشی اور عریبین سلاد کا آرڈر دے کر کمرے میں چلا گیا۔ پھر ہائی ٹی اور ڈنر پر بھی ویسا ہی ہجوم دیکھا۔ اگلی صبح، ناشتے کے لیے گیا۔ ایک اوورسیز پاکستانی فیملی میرے ٹیبل پر تشریف لے آئی۔ سلام دعا کے بعدکہنے لگے: ہم PIA کی فلائٹ سے آئے ہیں۔ سب کچھ پہلے سے بہتر لگا۔ ہوٹل میں رہائش کا پانچواں دن ہے۔ بہت خوشی ہو رہی ہے اتنے سارے فارنرز عرصے بعد لاہور پہنچے ہوئے ہیں۔ پھر فرمایا، آپ سے دو سوال کر لیں؟ عرض کیا: نہ کریں تو بہتر ہے لیکن اِسی اثناء میں پہلا سوال ہو گیا۔ سوال تھا: ہم جہاں جہاں اچھی خبر دیکھتے ہیں اسے بیان کیوں نہیں کرتے؟ بیان کرنے سے شرماتے کیوں ہیں؟ میں نے انہیں علمِ منطق سے مثال دی کہ اگر 6×4 فٹ سائز کی سفید چادر سامنے لگی ہو‘ تو اس پر کوئی سوال نہیں کرے گا۔ آپ سفید چادر پر ایک ڈراپ سیاہی سے آدھے اِنچ کا کالا نشان لگا دیں۔ پھر دیکھیں ہر بندے کی نظر سیدھی کالے نشان پر جائے گی اور وہ پوچھے گا: یہ کیسے ہوا۔ 100 فٹ سفید، لمبی دیوار کی طرف کوئی دھیان نہیں کرتا۔ ذرا سا سالن گر جائے یا بچہ لکیر مار دے تو سب کی آنکھوں میں بھاری بھرکم ''کیوں‘‘ نظر آنے لگتا ہے۔
دوسرا سوال، ذاتی خوشیوں کے بارے میں تھا۔ میں نے کہا: اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے‘ میں نے آج تک اپنے وطن میں کوئی ہم وطن بھوک سے مرتے نہیں دیکھا۔ دیہاتی وسیب میں یخ بستہ رات کے دوران کسی مسافر کو کھلے آسمان تلے کھیت کنارے بنّے پر سوتے نہیں پایا۔ دال، ساگ، لسی‘ مکھن، گھی شکر، گوشت، مچھلی سب کچھ کھا سکتا ہوں۔ اس لیے اپنے آپ کو بہت خوش بخت سمجھتا ہوں۔
اگلے روز ایک فاضل ٹی وی اینکر کے ساتھ گھنٹہ بھر گفتگو کی۔ ٹرینڈ یہ چل نکلا ہے کہ سب سے بڑھیا doomsday یعنی قیامت کا نقشہ کون پیش کر سکتا ہے۔ یہ کہنا 100 فیصد جائز ہو گا کہ بیروزگاری زیادہ ہے اور مہنگائی پر کنٹرول نہیں ہو سکا‘ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ سارا پاکستان بھوکا مر گیا، ساری دنیا بیروزگار ہے، معیشت، معاشرت، سفارت، تجارت، صنعت و حرفت سب بند ہو گئے ہیں تو ایسے طرزِ کلام کو مرض کی تشخیص نہیں‘ مبالغے کی انتہا کہا جائے گا۔ علم الکلام کی مہارت، دُشنام اور اتہام کے بجائے ایک اور انداز میں بھی ثابت کی جا سکتی ہے۔ جیسے بہت سال پہلے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان نے ماورائے آئین جمہوریت پر یوں طنز کے تیر برسائے تھے:
اِک برقِ َبلا کوند گئی سارے چمن پر
تو خوش ہے میری شاخِ نشیمن ہی جلی ہے
غارت گریٔ اہلِ ستم بھی کوئی دیکھے
گلشن میں کوئی پھول، نہ غنچہ، نہ کلی ہے
مبالغہ آپ کو یہاں بھی ملے گا لیکن تہذیب اور علمیت کے دائرے میں۔ کسی بھی حکومت، نظامِ حکمرانی یا طرزِ راج نیتی کو فیل(Fail) کیا جا سکتا ہے‘ لیکن فتوے جاری کرنا کہاں کی شرافت ہے۔ اپنے سمیت ایسا کون سا ماہر ہے جس کے پاس ہر مرض کی تشخیص، ہر خرابی کا علاج موجود ہو۔ جو ہر چیز جانتا ہو اور ہر علم کا ''گرو‘‘ ہو۔ اس کی سادہ مثال عدالت اور وکالت کی دنیا سے بھی ملتی ہے۔ LLB کا امتحان پاس کرنے والے وکیل بارہ مضامین پڑھتے ہیں جن میں کنٹریکٹ، آئین، ضابطہ دیوانی، فوجداری قانون، فیملی لاء کے جھگڑے، انٹرنیشنل لاء، ثالثی، شرعی قوانین، بینکنگ، کارپوریٹ، لیبر تنازعات سمیت سارے قوانین شامل ہیں۔ لیکن پھر بھی وکیل کو کسی خاص فیلڈ میں specialize کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹرز کی دنیا میں بھی ایسا ہی ہے۔ پوسٹ گریجویشن کے بعد ایم فِل اور پی ایچ ڈی میں بھی۔ پانچوں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں کمپنی، فوجداری، نیب، سول، آئینی پٹیشنز کے لیے خاص بینچ تشکیل پاتے ہیں جن میں خاص میدان کی مہارت والے ججز کو متعلقہ فیلڈ کے بینچ میں بِٹھایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ہر ماہر کی راج دھانی میں اس کا ہنر نہیں، شہنشاہی چلتی ہے‘ جسے پشتو زبان میں اَخپل بادشاہی کہتے ہیں۔
گورننس کے فن کے ماہرین کہتے ہیں‘ چپڑاسی اور فٹ کانسٹیبل کے لیے بھی کم از کم تعلیمی قابلیت اور جسمانی اہلیت کی شرط ہے۔ بدنامِ زمانہ ٹھیکیداری نظام میں کنٹریکٹر کے لیے پری کوالیفکیشن کا پلِ صراط عبور کرنا بڈنگ (Bidding) پراسیس کے لیے ضروری ہے۔ ہمارے ہاں اخپل راج میں ایک ہی چہرہ ضیاء الحق، بے نظیر بھٹو، نواز شریف، جنرل مشرف، آصف زرداری، عمران خان کو باری باری درد مندانہ عقیدت سے مجبور ہو کر مفت مشورے دیتا ہے۔ مشورہ قبول نہ ہو تو دھمکی بھی۔ Rat-Race نے اپنے ساتھ ریٹنگ Rat-ing کا لاحقہ لگا لیا۔ دو ہفتے پہلے کراچی کے ایک معروف شخص نے اندرونِ سندھ کی ایک ویڈیو بھجوائی۔ دل دُکھا دینے والی ویڈیو میں 4/5 سال کی بچی کے ہاتھ میں ایک پرات دکھائی گئی جس پر شیرا نما چیز لگی تھی۔ اس بیچاری قسمت کی ماری کو گندگی کے ڈھیر پر بٹھایا گیا؛ چنانچہ، لا تعداد مکھیاں شیرے والی اس پرات پر ٹوٹ پڑیں۔ پھر اس منظر کو شوٹ کر کے وائرل کیا گیا۔ میں نے ویڈیو بھیجنے والے کو لکھا: کیا ہی اچھا ہوتا، ویڈیو بنانے کے بجائے بچی کا مُنہ دھلوا کر اسے سکارف، کپڑے، سلیپر لے دیتا اور کھانا بھی۔
جس سے بات کرو کہتا ہے ماضی کی حکومتیں رہنے دو‘ تبدیلی سرکار کی بات کرو۔ اس سوال کا جواب ایک نہیں پچھلے دو وزیر اعظم یوں دیتے ہیں۔ وزیر اعظم گیلانی صاحب (4 جون 2010) فرماتے ہیں:
''آپ لوگو ں نے منتخب کیا ہے پانچ سال کے لئے۔ حساب آپ مانگ رہے ہیں ڈیڑھ سال کے بعد۔ جب پانچ سال مکمل ہو جائیں۔ اگر کوئی کام آپ کا رہ گیا۔ تو ہم الیکشن لڑنے نہیں آئیں گے‘‘۔
وزیر اعظم نواز شریف نے (9 اگست 2014) کو فرمایا تھا:
''بے شک آپ لانگ مارچ بھی کر لیں یا جو بھی مارچ آپ چاہتے ہیں وہ کریں۔ لیکن یہ وقت نہیں ہے کہ ہم... اور پھر ایک سال کے بعد... (پھر ہنس کر کہا) ایک سال یعنی یہ باتیں 3/4 سالوں کے بعد ہوتی ہیں۔ tenure کے کسی آخری وقت میں ہوتی ہیں۔ جب ان کو کوئی سیاسی فائدہ بھی نظر آنا شروع ہوتا ہے کہ اگلے سال الیکشن ہیں۔ چلیں جی اس کے اوپر ذرا سا تھوڑا اور زور لگائیں۔ اپنی سیاسی طاقت کو بڑھائیں۔ اب ایک سال کے بعد آپ... آںآں... کن باتوں پہ آ گئے‘‘۔
سوشل میڈیا پر دونوں ویڈیوز وائرل ہیں۔ دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں، آج کے وزیر اعظم کا جواب کل اور پرسوں کے وزیر اعظم دے رہے ہیں۔
اُمید ہے اقوالِ زریں کے شائقین کو پسند آئے گا۔