شکریہ دھرنا‘ بلکہ دونوں دھرنے۔ ایک غریبوں والا‘ دوسرا شاہی دھرنا۔ غریبوں کا دھرنا بارش میں بھیگتا رہا اور شاہی دھرنا محلاتی سازشوں میں مصروف رہا۔ غریبوں کے دھرنے کے لیے سائبان تھا نہ چھتری‘ نہ کمبل‘ نہ ٹینٹ۔ شاہی دھرنا‘ دربارِ شاہی کے سائے میں بالا خانوں پر برپا ہوتا رہا‘ جہاں 20 کروڑ غریبوں سے ماورا‘ بالائی لوگ اکثر قومی وسائل کی ''ملائی‘‘ چاٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بالا خانوں والے سارے عالم‘ مفتی‘ مولانا‘ قبلہ‘ فقیہہ‘ درویش‘ خاکسار اور امامِ دھرنا سمیت بارش کی چمک‘ گرج اور برسات سے 100 فیصد محفوظ رہے۔ (بلکہ بعض ویڈیوز میں محظوظ ہوتے ہوئے بھی نظر آئے)۔ دوسری جانب وہ خاکباز تھے جن میں سے دیہاڑی داروں نے مختلف کیمرہ مینوں کو 700 روپے سے 2000 روپے تک اپنا محنتانہ (cost of labour) بتایا۔ مجھے یقین ہے دھرنے میں کسی غریب کو حضرتِ علامہ اقبالؒ ضرور یاد آئے ہوں گے‘ جن کے دو مصرعے یوں فریاد کناں ہیں:
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
اسی طوفانِ باد و باراں کے دوران وزیر اعظم عمران خان کو پتہ نہیں کیا سوجھی‘ چیئرمین سی ڈی اے کو فوراً دھرنے میں بھیج دیا۔ ہدایت کی‘ پتہ کرو‘ دھرنے میں بیٹھے عام لوگوں کو بدلتے موسم کی وجہ سے خوراک اور سہولیات کی ترسیل کا بندوبست کیوں کر ہو سکے گا۔
لیکن بارش میں بھیگتے‘ زمینی دھرنے والوں تک یہ خبر پہنچنے سے پہلے ہی شاہی دھرنے والوں نے اپنی انسان دوستی کا اعلان کر دیا۔ واضح الفاظ میں کہا ''حکومت کی امدادی پیش کش کو ہم جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں‘‘۔ اسی دوران کسی کیمرہ مین نے ایک ڈنڈا بردار نوجوان کی 'جوتی کی نوک‘ کو وائرل کر دیا۔ سالخوردہ اور بوسیدہ پشاوری یا کوہاٹی چپل کو اس نوجوان نے سفید رنگ کی ڈوری کے ذریعے اپنے پائوں پر باندھ رکھا تھا۔ مساوات کا ایسا منظر شاید ہی کوئی دوسرا دیکھنے کو ملے۔
مساوات سے یاد آیا کہ اس کا دائرہ دھرنے کے ایک ترجمان نے مقامی سے اٹھا کر عالمی سطح تک بڑھا دیا۔ نوجوان اینکر کو انٹرویو کے دوران ٹوکتے ہوئے بولے: ذرا صبر...۔ اینکر جتن کر کے بولا‘ ذرا سن تو لیں‘ سر! دسمبر 2007ء میں این ڈبلیو پیٹرسن کے ساتھ آپ کے قائد کی گفتگو وکی لیکس میں آئی ہے‘... قبلہ نے فرمایا: مجھے معلوم ہے‘ میں خوب سمجھتا ہوں‘ کیا کہنا چاہتے ہو۔ پہلے مجھے سن لو۔ پھر گلیکسی میں بلیک ہول جتنا بڑا انکشاف کرتے ہوئے کہنے لگے: یہ وکی کزن ہے جمائما کا۔ یہ بھی اس سازش کا حصہ ہے۔ اور یہ وکی عمران خان کے ساتھ مل کر یہودیوں کا ایجنڈا آگے بڑھا رہا ہے۔
ملینیم کے اس انکشافِ اعظم کی براہِ راست تفصیل جاننے کے لئے وائرل ویڈیو دیکھی جا سکتی ہے۔ اس انکشاف پر جمائما خان بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں؛ چنانچہ اُن کی رگِ ظرافت پھڑکی اور وہ اپنے کزن وکی کے حق میں بول اٹھیں: ''وہ لوگ جو اردو نہیں بولتے‘ apparently میرا ایک فرسٹ کزن وکی ہے... جس نے وکی لیکس بنائیں۔ عمران خان‘ جمائما‘ گولڈ سمتھ فیملی‘ ہنری کسنجر اور وکی لیکس یہودی ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ ایک اسلامی عالم نے کہا ہے... وکی کزن ہے جمائما کا... ہاہاہاہا‘‘۔ پھر کہا ''اس دن کا انتظار کریں‘ جب ان کو میرے دوسرے دو کزنز پانامہ لیکس اور وکی پیڈیا کے بارے میں پتہ چلے گا‘‘۔
دھرنے کی شان میں اردو ادب کی ایک نئی صنف بھی ایجاد ہوئی ہے۔ آپ اسے ''قصیدہ ٔکاروباریہ ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ قصیدۂ کاروباریہ میں ایسے ایسے قلابے ملائے جا رہے ہیں کہ پتہ چلتا ہے لیڈی جمائما اور مائیک ٹائی سن دونوں ہم شکل ہیں اور ایک سازش کے ذریعے انہوں نے اپنے کزن ہونے کا رشتہ چھپا رکھا ہے۔ صنفِ قصیدۂ کاروباریہ علیحدہ سے ایک پورا اینٹرٹینمنٹ سیزن بن چکا ہے‘ لیکن اگلے روز اس صفحے پر چھپنے والے جناب رسول بخش رئیس (جن سے میری یاداللہ نہیں ہو سکی) نے پاکستانی ریاست اور مقتدرہ کے مراکز کو کھوکھلا کرنے کے لئے جن لشکروں کی نشاندہی کی ہے‘ میں اپنی تھوڑی بہت معلومات کی بنیاد پر ان کی 100 فیصد تائید کرتا ہوں۔ یہاں چونکہ شاہی دھرنے کے لشکریوں کو خوش کرنا مقصود نہیں‘ نہ ہی پاکستانیوں کو ہراساں کرنا درکار ہے‘ مگر دھرنے کا واحد مقصد رئیس صاحب نے بیان کر دیا ہے۔ پوٹھوہاری سپاہیوں کی طرح جو اپنے خط کے آغاز میں گھر والوں کو لکھتے ہیں: تھوڑے لکھے کو زیادہ پڑھا جائے۔ صرف وہ ہی نہیں‘ اسی تناظر میں اگلے روز آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل آصف غفور کا کہا ہوا یہ جملہ جو روزنامہ 'دنیا‘ کی شہ سرخی میں آیا‘ بڑا اہم ہے۔
'' فضل الرحمن پاکستان سے محبت کرتے ہیں تو جو بین الاقوامی سطح پر نقصان پہنچا‘ اُسے سمجھیں‘‘۔
اس وقت ہماری مشرقی سرحد کے دوسری جانب بھارت کے اندر کیا ہو رہا ہے‘ اس کی تفصیل حفیظ جالندھری کے شہر جالندھر سے وائرل ہونے والی ایک ویڈیو سے ملتی ہے۔ ویڈیو میکر گورمکھی زبان میں کہہ رہا ہے: '' یہ جالندھر میں 66 فٹی روڈ سے آگے وائٹ ڈائمنڈ ہے‘ جس کے پاس ہے وجے کالونی۔ وجے کالونی میں پاکستان کے جھنڈے لہرا رہے ہیں۔ وہ بھی ایک نہیں کم سے کم 8‘10 ۔ لو جی جالندھر میں بھی منی پاکستان بن رہا ہے‘‘۔
کیپٹن ریٹائرڈ امریندر سنگھ انڈین پنجاب کا چیف منسٹر ہے۔ کیپٹن امریندر سنگھ نے شاہی دھرنے کے دوران ایک ہنگامی پریس کانفرنس بلائی۔ کرتار پور کاریڈور پر لفظی حملہ‘ پریس کانفرنس کا سنٹرل تھیم تھا۔ امریندر سنگھ نے کرتار پور کو پاکستان کی ٹاپ ایجنسی آئی ایس آئی کی سازش قرار دیا۔ اب آئیے ہم سب کانوں کی کھڑکیاں اور چشمِ بینا کے دروازے کھول کر پریس کانفرنس میں بولے گئے انڈین بیانیے کو غور سے دیکھیں۔ یہاں غور سے مراد یہ دیکھنا ہے کہ ہمارے آس پاس‘ اس بیانیے کا پرچار کس کے حصے میں آیا۔ انڈین پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے کہا:
نمبر1: پاکستان کو 70 سال پہلے یہ کاریڈور کھولنے کا خیال کیوں نہیں آیا؟
نمبر2: اب جب 2020ء میں انڈین سکھوں نے خالصتان کے لئے ریفرنڈم کا اعلان کر رکھا ہے تو پاکستان انڈین مخالف خالصتان کی تشکیل کے لئے زیادہ سے زیادہ سکھوں کی حمایت حاصل کرنا چاہتا ہے‘ لہٰذا کرتار پور کاریڈور کھول رہا ہے۔
نمبر3: پاکستان‘ انڈیا کے بارڈر پر تقریباً 60 فیصد سرحد انڈین پنجاب سے ملتی ہے۔ پاکستان اپنا پڑوسی بدلنا چاہتا ہے۔
اپنے یہاں کے چند لیڈروں کے بیان نکال کر ضرور پڑھ لیں۔ میں ان کے بیانات کو یہاں نقل کرنا پسند نہیں کرتا۔ یہ ہیں (ن) لیگ کے احسن اقبال‘ پی پی کے بلاول صاحب اور شاہی دھرنے کے شاہانہ کردار۔ انڈیا کے بعض تجزیہ کاروں نے اس پر بہت دل چسپ تبصرہ کیا ہے۔ بھارتی پتر کار جو تجزیہ گر بھی ہیں‘ گُر کی بات بتاتے ہیں۔ کہا: خالصتان کی تحریک کو جو نقصان سکھوں کی لسٹوں کے لیک ہونے سے پہنچا تھا وہ پاکستانی پردھان منتری عمران خان نے کرتار پور لاھنگا والے چھکے سے پورا کر ڈالا ہے۔
میں آج وکالت نامہ کا ایکسٹرو نہیں لکھوں گا۔ آج کے حالات پر حبیب جالب نے گزرے کل میں کیا خوب کہا:
بہت میں نے سُنی ہے آپ کی تقریر مولانا
مگر بدلی نہیں اب تک مری تقدیر مولانا
نہیں میں بول سکتا جھوٹ اس درجہ ڈھٹائی سے
یہی ہے جرم میرا اور یہی تقصیر مولانا
شکریہ دھرنا... جمائما کو کزن مل گیا