یہ 26 مارچ 2019 کا ذکر ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی بینچ نمبر1 میں نواز شریف کی جانب سے دائر کی گئی سی پی نمبر639/2019 کی سماعت کر رہے ہیں۔ اس Civil Petition کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جاری کردہ 25 فروری کا آرڈر زیرِ بحث ہے۔ اس آرڈر کے صفحہ نمبر4 پر پیراگراف نمبر(i) کہتا ہے‘ ملزم (نواز شریف) کو احتساب عدالت نمبر2 اسلام آباد کی جانب سے ریفرنس نمبر19/2017 میں NAB Ordinance 1999 کے جرائم زیرِ دفعہ 9(a)(v) اور 14(c) مجریہ 1999 کے تحت دی گئی سزا کو معطل کیا جاتا ہے۔
عدالت کے حکم کے اگلے دو جملے یہ ہیں:
and he is admitted to bail for a period of 6 weeks from the date of his release as a consequence of this order.
اس کو سن سیٹ کلاز کہتے ہیں۔ اس کلاز کے تحت وقت کی تکمیل پر خودبخود آپریشن آف لاء کے ذریعے عدالتی حکم ختم ہو جاتا ہے اور نواز شریف کی ضمانت کے قضیے میں بھی اُصول قانون یہی ہے۔
سپریم کورٹ کے اوپر درج حکم کے اگلے الفاظ یہ ہیں:
it is made clear that during this period the petitioner shall not leave or allowed to leave the country.
اس طرح کے عدالتی حکم نامے کو self speaking آرڈر کہا جاتا ہے جس میں کسی ابہام یا مزید صر احت (clarity) کی ضرورت نہیں رہتی۔ جو اُصول قانون دوسری کلاز میں طے ہوا وہ یہ ہے کہ ضمانت کے عرصے میں نواز شریف نہ بیرونِ ملک جا سکتے ہیں اور نہ ہی ملزم کو ملک چھوڑنے کی اجازت ہو گی۔
نواز شریف صاحب کو ملنے والی 6ہفتے کی اس ضمانت کو عدالتی زبان میں Conditional Bail یعنی مشروط ضمانت کہا جائے گا۔ یہ محض حسنِ اتفاق تھا یا اتفاق فائونڈری کا باہم صلاح مشورہ کہ 6 ہفتوں میں بیمار نواز شریف کو بیماری کا علاج کروانے کی فرصت ہی نہ مل سکی‘ جس کا نتیجہ باقی کی سزا بھگتنے کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا تھا۔
پھر علاج بازی کا سکینڈ رائونڈ شروع ہوا‘ جس میں نواز شریف کے گھریلو دارالصحت کا تنخواہ دار ملازم ڈاکٹر ٹک ٹاک سٹار کی طرح سوشل میڈیا پر چھا گیا۔ بیماری کی کہانی پلیٹ لیٹس کائونٹ سے شروع ہوئی اور رہائی پا کر جاتی عمرہ اپنے کلائمکس پر جا پہنچی۔
اس رائونڈ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل ڈویژن بنچ نے نواز شریف کو 8 ہفتے میں بیماری کا علاج کروانے کا حکم دے کر ان کی سزا معطل کر دی۔ آج دو ہفتوں سے 3 دن اوپر گزر چکے ہیں۔ نواز شریف کا علاج گھریلو آرام گاہ میں ہو رہا ہے۔ ان کے بھائی شہباز شریف نے 7 نومبر کو انگریزی میں ٹائپ کی گئی ایک درخواست پر دستخط کیے۔ درخواست میں نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کی استدعا کی گئی تھی‘ جس کی کاپی شہباز شریف نے خود ہی نیب کو بھجوانے کا ذکر درخواست کے فُٹ نوٹ پر لکھ رکھا تھا۔ طرزِ تحریر سے ٹائپسٹ صاف پہچانا جا رہا ہے۔ یوں لگا، یہ درخواست اُسی نے لکھی ہے جس نے جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں جدہ جانے کی درخواست ٹائپ کی تھی۔ دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ ٹائپسٹ یا سٹینو گرافر ڈکٹیشن کی بنیاد پر درخواست لکھتا ہے اس لیے نفسِ مضمون ڈکٹیٹ کروانے والا شاید ایک ہی ہے۔
8 نومبر کو یہ درخواست وزیرِ داخلہ کے پاس پہنچی۔ درخواست بردار ڈاکٹر نے وزیرِ داخلہ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی جو مانی گئی۔ وزیرِ داخلہ کے پاس پہنچ کر ڈاکٹر نے موبائل نکالا، کہا: وزیر صاحب، نواز شریف سے بات کریں۔ وزیرِ داخلہ بولے: تفصیل آپ بتا دیں‘ بات کرنے کی ضرورت نہیں۔ عجب اتفاق دیکھیں‘ مشرف دور والی معافی کی درخواست بھی انہی شاہ صاحب کے ذریعے اوپر پہنچی تھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ تب اعجاز شاہ بریگیڈیئر تھے اور آئی بی کے سربراہ۔ اب وہ ممبر اسمبلی ہیں اور وزارتِ داخلہ کے سربراہ۔ اس کے بعد کے واقعات آپ جانتے ہیں اور نون لیگ کے وہ سارے بیانات بھی جو مشرف کے باہر جانے پر سب لیڈروں نے دیے۔ ان میں سے ایک ویڈیو کلپ آج کل سپر وائرل ہے۔ ٹی وی شو میں بیٹھ کر اس وقت کے وزیرِ داخلہ کو کیمروں نے یہ جملہ کہتے ہوئے دھر لیا ''پرویز مشرف کو باہر جانے کی اجازت دی گئی تو یہ آئین سے غداری ہو گی۔ میں ساری قوم کے سامنے کہتا ہوں۔ اگر اُسے ہماری حکومت نے بیرون ملک جانے کی اجازت دی تو میں سیاست سے ہمیشہ کے لئے استعفیٰ دے کر گھر بیٹھ جائوں گا۔ باقی قیدیوں کا کیا قصور ہے۔ قانون کی نظر میں کوئی وی آئی پی نہیں ہوتا۔ سب برابر ہیں‘‘۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے 29 اکتوبر 2019 کے فیصلے میں دو نکتے خاص طور سے قابلِ توجہ ہیں۔
پہلا نکتہ یہ کہ نواز شریف رہائی کے دن سے 8 ہفتے تک علاج کروائیں گے۔ دوسرا یہ کہ اگر ان کی بیماری جاری رہتی ہے تو وہ 8 ہفتے کا وقت ختم ہونے پر گورنمنٹ آف پنجاب سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 401(1) کے مطابق‘ جتنا عرصے تک پنجاب کی صوبائی حکومت نواز شریف کی درخواست پر فیصلہ نہیں کرتی ان کی ضمانت جاری رہے گی۔
یہ سب نا قابلِ تردید حقائق ہیں جن کی روشنی میں نواز شریف کو بیماری کے گرائونڈ پر یکے بعد دیگرے ریلیف ملتے رہے۔
اب چلئے، ایگزٹ کنٹرول لسٹ کے قانون کی طرف جسے ریگولیٹ کرنے کے لئے 2010 میں نئے rules بنائے گئے‘ جن کے ذریعے ECL لاء کی دفعہ 5 کے تحت 1983 والے رولز کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔
رول2(3) (c)
(3) Name of any person placed on the exit control list maintained by the Federal Government in pursuance of an order made under subsection (1) of section 2 of the said Ordinance and who:
(c) has been convicted by a competent court of law for any offence shall remain on such list so long as the said order is in force and till his conviction attains finality.
قانون واضح ہے‘ اگر کسی شخص کو کوئی مجاز عدالت سزا سنا دے‘ خواہ کسی بھی جرم میں۔ ایسے ملزم کا نام تب تک ای سی ایل میں شامل رہے گا جب تک سزا کا حکم موجود ہے یا قید کا عرصہ پورا نہیں ہوتا۔ ان حالات میں، نواز شریف کے معاملے میں انسانی ہمدردی کی بناء پر وزیر اعظم عمران خان نے بہت بڑا رسک لیا۔ یہ سطور چھپنے تک لاہور ہائی کورٹ اس معاملے پر شاید اپنا فیصلہ صادر کر دے۔ لیکن یہ بات تو طے ہو گئی کہ اس سیاست کے سینے میں دل نہیں سریا ہے۔ جو ایک کاغذی بانڈ کو جان سے زیادہ قیمتی سمجھتی ہے۔ یہ بھی اپنی طرز کا ویسا ہی ریکارڈ ہے جیسا ریکارڈ بڑے مولانا صاحب کے دھرنے نے بنایا۔ پہلی بار 35 لاکھ بندے 24 بسوں میں بیٹھ کر دھرنے سے گھروں کو روانہ ہو گئے۔ نواز شریف کے کروڑوں جان نثاروں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو 100 روپے کے سٹامپ پر ان کا ضامن بنتا۔ بانڈ کے ساتھ بینک گارنٹی تھی نہ کیش کی شرط۔ پھر سوال تو بنتا ہے۔ نون لیگ نے نواز کو کیوں روکا؟
لیڈرز کے علاج کیلئے باہر جانے کی بات پر ایک جواب سشما سوراج نے دیا۔ سشما سوراج کو ڈاکٹرز نے کڈنی ٹرانسپلانٹ کے لئے بیرون ملک علاج کا مشورہ دیا۔ آنجہانی نے انکار کرتے ہوئے کہا، ''انڈینز، انڈیا کے ڈاکٹرز اور ہسپتالوں پر اعتبار کرنا چھوڑ دیں گے اگر میں اپنے علاج کے لئے ملک سے باہر چلی گئی‘‘۔