جارج پُولن، روڈلف گمبینی اور جیرارڈ ٹی ہوف‘ تینوں غیر مسلم ہیں مگر فلکیات کے مستند عالم، ریسرچرز اور سائنسدان۔ انہوں نے حال ہی میں ثابت کر دیا کہ معراج النبیﷺ کا حیران کُن معجزانہ جسمانی سفر سائنسی طور پر طے کرنا ممکن ہے۔ یہ آج کی بات ہے۔
اس سے بھی ذرا پہلے، شہرۂ آفاق برطانوی سائنسدان اور فزسسٹ سٹیفن ہاکنگ نے بھی سفرِ معراج النبیﷺ کے سچ ہونے کے بارے میں اشارہ (Clue) دیا تھا۔ سٹیفن ہاکنگ نے کہا
"If you feel you are in a black hole, don't give up. There's a way out."
لیکن آج سے تقریباً 14 صدیاں پہلے، قرآن حکیم میں یہ سارا کچھ کیسے لکھا گیا۔ اس بات پر مغربی ریسرچرز حیران ہیں۔ اُس وقت انسانی دنیا میں راکٹ، ہوائی جہاز، چاپر، ڈرون وغیرہ کا تصور تک نہیں تھا۔ یہ سب ایجادیں پچھلے تقریباً 100 سال کے اندر اندر سامنے آئیں۔ واقعہ معراج النبیﷺ کی تائید میں سائنس کی تازہ ترین دریافت‘ Black Holes‘ اہم ترین ہے۔ بلیک ہولز خلا کا ایسا حصہ ہیں، جہاں کششِ ثقل اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ کوئی مادہ، ریڈی ایشن حتیٰ کہ روشنی بھی اُس سے بچ کر نہیں نکل سکتی۔
سال 2011 تک آسٹروفزسسٹ بلیک ہول میں ستاروں کے گرنے کے عمل کو پورے یقین کے ساتھ بیان کرنے سے کتراتے تھے جبکہ سال 2016 تک بلیک ہول میں گرنے والے ستاروں کی معلوم تعداد 3 بتائی گئی۔ علمِ فلکیات کے ماہرین کے لئے یہ حقیقت بھی دلچسپ ہے کہ اگرچہ قرآن پاک علم فلکیات کی کتاب نہیں‘ پھر بھی اس میں ایک سورہ کا عنوان ''النجم‘‘ (Star) ہے۔
اس سورہ کی پہلی آیت کہتی ہے ''ستارے کی قسم جب وہ گرا‘‘ (اس پیارے ستارے‘ محمدﷺ کی قسم جب یہ معراج سے اترے)۔ سورۃ النجم میں ایک ایسے مقام کی تفصیلات بیان ہوئیں جو سائنسی دریافت شدہ ''بلیک ہول‘‘ سے اتنی ملتی جلتی ہیں کہ انسان حیرت و خوف کے سمندر میں ڈوب جائے۔ اسلامی عقائد کے مطابق، اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ محمدﷺ کو آسمانوں اور جنت کے معجزانہ سفر پر بلایا۔ آپﷺ کے اس بظاہر نا قابلِ یقین شبینہ اور جسمانی سفر کی سائنسی طور پر حتمی شہادتیں سامنے آ رہی ہیں۔
تازہ ترین سائنسی دریافتوں اور قرآن کے صفحات میں بیان شدہ سفرِ معراج کا موازنہ اور تصدیق کچھ اس طرح سے ہوتی ہے۔
پہلا مرحلہ: سورۃ النجم کی آیت نمبر 16 سفرِ معراج کے نقطۂ آغاز کی جگہ کو ''حد سے زیادہ تاریک‘‘ بیان کرتی ہے۔ ایسی جگہ جسے تاریکی نے گھیر رکھا ہے‘ یا وہاں تاریکی مقید ہے۔ ظاہر ہے یہ کوئی عام تاریک جگہ نہیں ہو سکتی۔ سائنس نے معلوم کیا ہے کہ بلیک ہول سے زیادہ تاریک مقام کہیں اور واقع نہیں۔ جس کی وجہ بلیک ہول کی بے پناہ کششِ ثقل ہے‘ جوروشنی کو بھی بچ کر گزرنے نہیں دیتی۔ ایسی تاریکی میں بلیک ہولز براہِ راست مشاہدے سے پوشیدہ رہے۔ لیکن فلکیات کے ماہرین نے اب اپنے سپیشل آلات کے ذریعے انہیں دیکھنے کا طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے۔ اس دریافت کی وجہ یہ بنی کہ بلیک ہول کے قریب ترین ستارے بے پایاں کششِ ثقل کے باعث دوسرے ستاروں کے مقابلے میں مختلف طریقے سے چلتے ہیں۔ یوں بلیک ہولز کی لوکیشنز مل گئی۔
دوسرا مرحلہ: عام لوگ خلا میں اس تاریک جگہ کو دیکھنا چاہیں تو براہِ راست ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ انسانی آنکھ یا تو بائی پاس کرے گی یا اس کی حدود سے بھٹک جائے گی۔ یہ جگہ عملی طور پر ایک عدسہ ہے سائنس نے جس کو Gravitational Lens کانام دیا۔
سائنس دانوں نے ایک اور نکتہ ثابت کیا۔ بلیک ہولز روشنی کی شعاعوں کو موڑ کر cosmic magnifying glass یعنی کائناتی محدب عدسہ تخلیق کرتے ہیں؛ چنانچہ ماہرینِ فلکیات بلیک ہولز کے پیچھے چھپی ہوئی دُور دراز کی کہکشائوں کو پہلی بار دور سے دیکھ پائے۔ یہ حقیقت سورۃ النجم کی آیت 17 میں ان لفظوں میں بیان ہوئی
'' نہ اُنﷺ کی نظر بہکی نہ آر پار ہوئی۔ انہوںﷺ نے یقینی طور پہ اپنے رب کی عظیم ترین نشانی کو دیکھا‘‘۔
یہ آیت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ رسول اللہﷺ در حقیقت بلیک ہول تک تشریف لے گئے اور اُسے براہِ راست ملاحظہ فرمایا۔
تیسرا مرحلہ: قرآن پاک میں سورۃ النجم کی آیت 14 ''سدرۃ المنتہیٰ کے پاس‘‘ کہہ کر بیان کی گئی یعنی بیری کا درخت اوپر سے پھیلا ہوتا ہے‘ شاخوں اور پتوں کا جھرمٹ اور گول تنا دیکھنے میں قیف نما لگتے ہیں۔ دوسری طرف بلیک ہول خلا اور وقت (space-time) میں ڈینٹ/ شگاف ڈالتا ہے‘ جس کی شکل اوپر سے پھیلی ہوئی ہوتی ہے۔ اطراف ڈھلوانی اور پیندے میں تنگ نالی/ ٹیوب نما‘ بیری کے درخت کی شکل سے بالکل ملتی جلتی۔ بلیک ہول کا ''خلا اور وقت میں شگاف‘‘ Event-Horizon کے پیچھے چھپا رہتا ہے۔ اس لئے براہِ راست مشاہدے میں نہیں آتا۔
چوتھا مرحلہ: پھر سورۃ النجم کی آیت نمبر 14 میں بیان ہوا ''بیری کے درخت کے پاس‘‘ میں سے لفظ ''عند‘‘ یعنی 'پاس/ قریبی‘ محدود جگہ۔ کچھ عرصہ پہلے تک سمجھا جاتا رہا کہ بلیک ہول کے پاس لا محدود طاقت ہے‘ اور اس کی گہرائیوں میں Gravitational Force Field کے اندر سے روشنی سمیت کچھ بھی نہیں گزر سکتا۔ اس لئے بلیک ہول میں جانا one-way جرنی یعنی یک طرفہ سفر ہے۔ ایک دفعہ آپ Event Horizon پار کر لیں تو پھر واپسی کی راہ کوئی نہیں۔ تازہ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ بلیک ہول لا محدود کثافت (density) کے طور پر کام نہیں کرتے بلکہ یہ دوسری کائنات میں کھلنے والا ایک دروازہ یا آئی ٹی کی زبان میں ''پورٹل‘‘ ہیں۔
پانچواں مرحلہ: قرآن حکیم سورۃ النجم میں ستارے ''النجم‘‘ کی قسم اٹھاتا ہے۔ اُس وقت جب وہ (ستارہ) گرتا ہے‘ یعنی بلیک ہول سے گزرتا ہے۔ جارج پُولن، روڈلف گمبینی، جیرارڈ ٹی ہوف اور سٹیفن ہاکنگ نے ثابت کیا کہ توانائی/ انرجی بلیک ہول سے گزر سکتی ہے۔
رسول اللہﷺ خلا میں سفر طے کر کے ایک ایسی جگہ تشریف جاتے ہیں جو قرآن حکیم کے مطابق اللہ کی بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ ایسی جگہ جو اپنے آس پاس موجود ہر شے سے کہیں زیادہ تاریک ہے۔ اس گُھپ اندھیرے کے نیچے قیف نما یا بیری کے درخت جیسی کوئی چیز چھپی ہوئی ہے‘ اور کوئی اس جگہ کو براہِ راست نہیں دیکھ سکتا کیونکہ دیکھنے والے کی نظر اس جگہ کی حدود کے ارد گرد پلٹ جاتی ہے۔ ٹک نہیں سکتی۔ آخر میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہ جگہ اپنی حدود میں رہتی ہے اور یہیں سے دوسری کائنات میں جانے کا راستہ کھلتا ہے۔ جسے ہم ابھی نہیں جانتے۔ لیکن حضرت محمدﷺ نے اس کا مشاہدہ جسمانی طور پر کر رکھا ہے۔ بظاہر یہ پیشہ ورانہ تحقیق خاصی پیچیدہ ہے۔ لیکن قرآن اور آسٹرو فزسسٹ متفق ہیں کہ قرآن پاک میں اس پُر اسرار جگہ کی دی گئی تفصیلات اور بلیک ہول کے بارے میں اب تک کی ثابت شدہ معلومات ملتی جلتی ہیں۔
تاہم بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی ۔ اللہ کا آخری پیغام اس سے بھی آگے کی بات کرتا ہے۔ اور بتاتا ہے کہ یہ Heavens تک جانے کا راستہ ہے۔ ماضی کے سائنسی اور فلکیاتی تجربات مسلسل ایک بات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ مستقبل قریب میں سائنس قرآن میں پہلے سے بیان کئے گئے سارے سائنسی معجزات کی سچائی تک ضرور پہنچ جائے گی۔
میرا گھر خاک پر‘ اور تری رہ گزر
سدرۃ المنتہی... تو کُجا من کُجا