ایک عرب دوست نے کمال کی ویڈیو بھجوائی ہے۔ 50 تیل کے کنوئوں کے مالک، قطری شیخ صاحب سیلولر فون پر کسی انڈین خاتون سے بات کر رہے ہیں۔ محل سرا کی بڑی نشست گاہ میں حضرتِ شیخ اکیلے ہیں۔ شیخ کی کال کے دوران اُن کا جوان بیٹا‘ جس نے نیم عرب اور نیم انگریزی لباس پہنا ہوا ہے‘ آ کر بیٹھ جاتا ہے۔ بیٹے کو دیکھ کر شیخ صاحب آواز دھیمی کرتے ہوئے اپنی بات اس جملے پر ختم کرتے ہیں‘ Love you too۔ بیٹے کو لگا کہ ابّا جی بڑے اچھے موڈ میں ہیں‘ اس لئے فوراً اپنی فرمائش پیش کر دی۔ کہا: ہم امیر لوگ ہیں؟ شیخ نے جواب دیا: ہم نہیں، ''میں‘‘ امیر آدمی ہوں‘ تمہارے پاس کیا ہے؟ بیٹے نے کہا: اسی لئے تو آیا ہوں‘ مجھے نئی لمبر گینی کار لے کر دیں۔ غرورِ فلوس و نقود میں ڈوبے ابّا بولے: نہیں ملے گی۔ لڑکا منمنانے لگا: یا شیخ آپ کے 50 تیل کے کنویں ہیں۔ شیخ نے فوراً بیٹے کی بات کاٹتے ہوئے کہا: 50 نہیں کُل 51 بنتے ہیں‘ میں نے ابھی ابھی تیل کا ایک اور کنواں خریدا ہے‘ میرے 7 عدد Virgin آئل فیلڈ بھی تو ہیں۔ بیٹے نے موقع غنیمت جانا اور عرض گزار ہوا: چلیں 25 کنویں مجھے دے دیں۔ شیخ نے کہا ''لاہ‘‘۔ لڑکے نے پھر کہا: چلیں 10 ہی دے دیں۔ شیخ نے پھر No کہہ دیا۔ لڑکا روہانسا ہو کر بولا: 1 کنواں تو دے دیں۔ ابا جی کا لہجہ شاہی ہو گیا۔ کندھے اُٹھا کر فاتحانہ انداز میں فرمایا، Nobody can touch my oil.۔ لڑکا مایوس ہونے کی بجائے مسکرانے لگا۔ جیب سے سمارٹ فون نکالا۔ کال ملائی اور کہا ''ہیلو، ایمیریکا... یس We want freedom۔ شیخ ہڑبڑا کر اُٹھ دوڑا، پہلے اپنے بیٹے کے گلے میں دونوں بانہیں ڈالیں‘ اُسے چھاتی سے لگایا اور فون کال بند کرنے کی درخواست کرتے ہوئے بد حواسی میں بولا: 25 کنویں تمہارے ہوئے‘ چلو تمہیں ابھی نئی لمبرگینی کار لے دیتا ہوں۔ لڑکا کہتا چلا گیا‘ یس... یس ایمیریکا We want freedom۔
ان دنوں ایشیا ایک بار پھر ایسی ہی آزادیوں کی لہر میں لپیٹا جا رہا ہے۔ ہمارے کالج کے زمانے میں ایشیا سرخ اور ایشیا سبز کے نعرے نقطۂ عروج پر پہنچ کر فصاحت اور بلاغت کے شاہکار بن گئے۔ ایک جانب سے فصاحت سے بھرپور نعرہ یوں لگتا، ''ایشیا سُرخ ہے۔ سبزوں کو کُھرک (خارش) ہے۔‘‘ اور دوسری طرف سے جواب آں غزالی نعرہ ایسے بُلند ہوتا ''ایشیاء سبز ہے۔ سُرخوں کو قبض ہے۔‘‘ بعض نعرے باز طالب علم لیڈر اس فصیح و بلیغ فنِ نعرہ زنی میں 100 فیصد یکتا تھے۔ ایسے کہ اُنہیں فرمائشی طور پر پنجاب یونیورسٹی سے اسلام آباد تک بھی بلا لیا جاتا۔ پنجاب یونیورسٹی ہی کے ایک عمر رسیدہ طالب علم رہنما (جن کا نام یہاں احتراماً نہیں لکھا) کو پنڈی میں میڈیکل کالج کی افتتاحی تقریب کے لئے جنرل ضیاء کی فرمائش پہ خصوصی طیارے سے پنڈی پہنچایا گیا۔ وہ بے چارے ''مردِ مومن، مردِ حق‘‘ کے نعروں پہ نعرہ لگاتے رہ گئے جبکہ اُن کے 3 عدد امیرالمومنین اُنہیں اطاعتِ نظم اور حفظِ مراتب سکھاتے سکھاتے اسمبلیوں اور حکومتوں کا لُطف اُٹھاتے چلے گئے۔
اپنے ہاں، اپنے اپنے ہیرو ہیں۔ اپنے اپنے سیاسی امام بھی۔ اس لیے وطنِ عزیز کے ارد گرد جو ہوتا ہے‘ اُس کا صحیح اظہار صرف متبادل میڈیا پر ہی ملتا ہے۔ باقی جگہ اکثر وسیع تر قومی مفاد اور مفاہمت راج کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، گُڈز ٹرانسپورٹ والے ٹرک، بس اور ٹرالر ڈرائیورز کی ہڑتال کے چرچے ہیں مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ کراچی سے ذرا پرے جزیرہ عرب میں ایک اور گرفتارِ کرپشن کی رہائی کا بندوبست ہو رہا ہے۔ ملائیشیا کے نجیب رزاق اور اُن کی بیوی we want freedom کی نئی قسط پہ جانے کے لئے پر تول چکے ہیں۔ دور دیس کے ایک خلیجی ملک میں شاہی طیارہ پھر سے اُڑان بھرنے کے لئے انجن گرما رہا ہے۔
کسی زمانے میں کچہریوں میں ہر طرح کے جرائم کی ضمانت کے لئے کرائے کے ضامن Guarantors ملا کرتے۔ اکثر باریِش، سر پہ ٹوپی، شلوار قمیص اور واسکٹ پہنے، یہ ضامن معززینِ علاقہ کا روپ دھار کر ہر قسم کے ملزموں کو چھڑوانے کے کام آتے۔ صرف کچہریوں سے کیا گِلہ، آج کی ریاستیں بھی اس کاروبار میں پیچھے نہیں رہیں۔ نئی نیشن سٹیٹس کے منیجرز بظاہر دوسرے ملکوں میں عدم مداخلت کی پالیسی کا پرچار کرتے ہیں‘ لیکن برادرانہ تعلق صرف بڑے کرپٹ کاروباری لیڈروں سے جوڑتے ہیں۔
OBL کے ذریعے پاکستانی سیاست میں regime چینج کے لئے ڈالروں میں انویسٹ منٹ کی گئی۔ ابھی چند گھنٹے پہلے کابل کے سابق صدر کرزئی مے فیئر کے باہر اظہارِ تشکر کرتے پائے گئے۔ جی ہاں، وہی مشہورِ زمانہ پانامہ والے مے فیئر اپارٹمنٹس۔ کابل کے سابق صدر نے اپنے بھائی، بڑے شریف صاحب کی خدمات پر دل سے شکریہ ادا کیا۔ وہی خدمات جن کے بارے میں نواز شریف نے بطور وزیر اعظم، پاکستانیوں کو ہَوا بھی نہ لگنے دی۔ ساتھ ہی حامد کرزئی نے ہمارے نظامِ قانون و انصاف تک یہ خوش خبری بھی پہنچائی کہ نواز شریف مکمل طور پر صحت مند پائے جاتے ہیں؛ البتہ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کرزئی والے برنچ (Brunch) کے لئے پائے لاہور سے گئے یا پھر ایسٹ لنڈن کے ''بنگالی پائے والا‘‘ کی دُکان سے۔
حالیہ یو ایس پرشیا جنگ بھی 7 پردوں سے باہر نکلتی آ رہی ہے۔ جنرل سلیمانی کے ماورائے قانون قتل‘ پھر اُن کی جگہ جنرل اسمٰعیل قانی کی تعیناتی والی کہانی بھی کھل رہی ہے۔ بہت سی ویب سائٹس، نیوز ایجنسیاں اُن خبروں کی رسانی کا ذریعہ ہیں‘ جن کی تصدیق صدر ٹرمپ نے ایک ٹویٹ سے کی۔ ایران کے بڑے شہروں میں بڑے احتجاجی مظاہرے پھر ہو رہے ہیں۔ یوکرائن کے پیسنجر جہاز کو ایرانی میزائل سے گرانے کا اعتراف عالمی سیاسی زلزلہ ہے۔ اس طیارے کے 9 کریو ممبرز کا تعلق یوکرائن اور دیگر ممالک سے تھا۔ مرنے والے 62 مسافر کینیڈا کے پاسپورٹ ہولڈرز تھے‘ جن کا تعلق دنیا کی مختلف اقوام سے ہے۔ ایک سال کے اندر مظاہروں کی یہ دوسری قسط آئی۔ پہلی قسط میں کیا ہوا۔ سب جانتے ہیں۔ تازہ قسط کا سب سے بڑا مطالبہ سب سے بڑے روحانی رہنما کا استعفیٰ ہے۔ اسی لیے امریکہ نے مظاہرین کی حمایت اور صورت حال پہ نظر رکھنے کا یقین دلایا۔
یہ ایک علیحدہ المیہ ہے کہ ایران امریکہ کشمکش میں قسمت عراقی سرزمین کی ہی پھوٹی۔ پہلے انکل سام نے حملے کے لئے عراقی دارالحکومت کا انتخاب کیا‘ پھر ایران نے بھی عراقی سرزمین پر ہی میزائل داغے۔ دونوں طرف سے پڑنے والی مار پر ''مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ والا محاورہ صادق آیا۔ میزائل حملوں کے بارے میں سرکاری بیان نے بتایا ''نہ تو کوئی مالی نقصان ہوا نہ ہی کوئی جان سے گیا‘‘۔
بات ہو رہی تھی عالمی ضامنوں کی۔ ایران میں ان کا کردار کاجر خاندان کے چھٹے شہنشاہ محمد علی شاہ کاجر (یکم جنوری 1907 تا 16 جولائی 1909) سے شروع ہوا۔ کاجر نے اپنے ہی ملک کی پارلیمنٹ پر بمباری کروائی۔ پارلیمنٹ نے کاجر شاہ کے 11 سالہ بیٹے احمد شاہ کو تاجِ شاہی پہنا دیا۔ محمد علی شاہ کاجر کو روس اور برطانیہ کے ضامنوں نے خود ساختہ جلا وطنی پر وصول کر لیا۔ گائو رکھشا کے عہد میں پورے بھارت سے ''یس we want freedom‘‘ کی آوازیں بُلند ہو رہی ہیں۔ رنگ، نسل اور مذہب سے ماورا۔ کون نہیں جانتا کہ زلزلے کسی سرحد اور بارڈر کو تسلیم نہیں کرتے۔
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ، زندگی میتوں پہ روتی ہے