فلسطین کی آزادی اور بیت المقدس کا تنازعہ اس ہفتے پھر اُبھر کر سامنے آ گیا۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ روح فرسا تفصیل بھی جان لیں کہ 1948 ء سے لے کر آج تک 5.1 ملین یعنی 51 لاکھ فلسطینی بیٹے اور بیٹیاں ارضِ فلسطین پر قربان ہو چکے ہیں۔
اس ہفتے دو مغربی مُلکوں کے بڑوں نے صدی کے اس پُرانے تنازعہ پر اپنے اپنے انداز میں بات کی۔ برطانیہ کے شہزادے چارلس نے اسرائیل کے دو روزہ دورے (22-23 جنوری) کے دوران 2 اہم خیال ظاہر کیے۔ پہلا یہ کہ فلسطینی عوام کو حقِ خود ارادی ملنا چاہیے۔ دوسرا، فلسطینی عوام کی ''مستقبل میں آزادی، انصاف اور برابری‘‘ کی خواہش (Wish) ہے۔ اس کے چند دن بعد 28 جنوری 2020ء‘ منگل کے روز امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے الفاظ میں مڈل ایسٹ کا long awaited پلان پیش کر دیا۔ ٹرمپ کے خیال میں یہ ''ڈیل آف سینچری‘‘ ہے۔ اس ڈیل کے غاصب فریق، اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے صدر ٹرمپ نے کہا ''میرا ویژن دونوں پارٹیوں کے لئے وِن-وِن (Win-win) سلیوشن پیش کرتا ہے‘‘۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس موقع پر مظلوم فریق سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ پھر کس بات کی وِن-وِن۔
اس پلان کو ٹرمپ فیملی پلاننگ بھی کہا جا سکتا ہے‘ کیونکہ پلان تخلیق کرنے والی ٹیم کو ٹرمپ کے Confidant داماد اور سینئر وائٹ ہائوس ایڈوائزر جیرڈ کُشنر (Jared Kushner) لیڈ کر رہے تھے۔ 9 جنوری 2017ء کو صدر کا سینئر ایڈوائزر بننے والا جیرڈ ایک ماڈرن آرتھوڈکس یہودی خاندان میں پیدا ہوا تھا۔ 2009ء میں جیرڈ کُشنر نے صدر ٹرمپ کی صاحب زادی ایونکا ٹرمپ سے شادی کر لی۔ 2009ء میں ہی ایونکا نے بھی یہودی مذہب اختیار کر لیا تھا۔ جیرڈ کُشنر وائٹ ہائوس میں ایڈوائزری سے پہلے ہی رئیل اسٹیٹ ڈیویلپر، نیوز پبلشر اور 800 ملین ڈالر worth کا مالک، امیر کبیر شخص تھا۔
فلسطینیوں کا شہر یروشلم انسانی تاریخ کی قدیم ترین بستیوں میں سے ایک ہے۔ اس شہر پر 52 مرتبہ بیرونی طاقتوں نے فوجی حملے کیے۔ 44 دفعہ یہ شہر فتح ہو کر تاراج ہوا۔ 23 بار یروشلم محاصرے میں آیا۔ ان جنگوں اور محاصروں کی تاریخ میں صلیبی جنگیں بھی شامل ہیں۔ اِسے Kingdom of Heaven بھی کہا جاتا ہے۔ اس شہر میں اسلام، عیسائیت، یہودیت، تینوں ابراہیمی سلسلۂ نسب کے مذاہب کی تقدیس کی نشانیاں موجود ہیں۔ تیرہویں صدی میں جب ہلاکو خان مسلم ایمپائر پر حملہ آور ہوا تو اُس نے یروشلم پر حملہ کرنا منافع بخش نہ سمجھا۔ سال 638ء میں حضرتِ عمر فاروقؓ ہوں یا سال 1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ‘ فتح القدس کے وقت عیسائیوں اور یہودیوں کو عبادت گاہوں سمیت مکمل امان دی گئی؛ تاہم صلیبی اور صہیونی فوجیں جب بھی القدس میں داخل ہوئیں‘ شہر کی گلیاں خونِ مسلم میں نہلا دی گئیں۔
بیت المقدس کی اس تاریخ میں تازہ موڑ سال 1917ء میں آیا۔ جب برٹش ایمپائر نے صہیونیوں (Zionists) سے فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کا معاہدہ کیا۔ تب فلسطین میں یہودی آباد کاروں کی تعداد صرف 8 فیصد ہوتی تھی۔ 30 سال بعد اقوامِ متحدہ نے فلسطین کی یک طرفہ تقسیم کا اعلان کر ڈالا۔ اُس وقت بھی مصنوعی آباد کاری کے باوجود یہودی ایک تہائی سے بھی کم تھے‘ جب کہ یہودیوں کے پاس فلسطین کا 7 فیصد سے بھی کم رقبہ تھا۔ اس کے باوجود فلسطین کا زیادہ تر علاقہ زبردستی یہودیوں کے حوالے کر دیا گیا۔
اوّلین اسرائیلی وزیر اعظم ڈیوڈ بین گورین (David Ben Gurian) نے سال 1937ء میں ایک لیٹر لکھا‘ جس کا ایک فقرہ 11 سال بعد آنے والے وقت کی مکمل تصویر کشی کرتا ہے۔ گورین نے لکھا ''ہم عربوں کو نکال (Expel) کر اُن کی جگہ لے لیں گے۔ ہر حملے میں ایک تباہ کُن (blow) وار کیا جانا چاہیے جو لوگوں کے گھروں کو تباہ کر دے اور انہیں (فلسطین سے) بھاگنے پر مجبور کر دے‘‘۔
سال 1948ء کی یک طرفہ جنگ کے دوران یہودیوں نے بچے کھچے فلسطین کے آدھے سے زیادہ علاقے پر غیر قانونی قبضہ جما لیا۔ 80 فیصد فلسطینی مسلمانوں کو اِن مقبوضہ علاقوں سے نکال باہر کیا گیا۔ سال 1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے باقی ماندہ 22 فیصد فلسطین پر بھی قبضہ کر لیا۔ ساتھ ساتھ مصر کے جزیرہ نما (Peninsula) سینائی اور شام کی گولان ہائیٹس (Golan Heights) پر بھی اسرائیلی فوج بیٹھ گئی۔ 1980ء میں صہیونیوں نے مشرقی یروشلم کو بھی اسرائیل میں ضم کر لیا۔
1993ء کے پہلے اوسلو معاہدے نے فلسطینیوں کو معینہ (limited) خود مختاری دی۔ فلسطینی علاقے الگ الگ جزیروں کی شکل میں اسرائیل بستیوں کے عین درمیان بکھرے تھے‘ جو رفتہ رفتہ Settlementsکے نام پر ہڑپ کر لیے گئے۔1995 ء میں مصر کے شہر طابا میں دوسرے اوسلو معاہدے پر دستخط ہوئے‘ جس کے تحت اسرائیلی ریاست کے وجود کو تسلیم کیا جانا تھا‘ مگر ان معاہدوں میں فلسطین کی علیحدہ خود مختار ریاست کی بات نہ کی گئی۔ امریکی صدر بل کلنٹن نے مشرقِ وسطیٰ میں امن کے نام پر پہلے منصوبے کا اعلان کیا۔ یہ عمل 19 تا 23 دسمبر 2000ء کے عرصے میں مکمل ہو سکا۔ فلسطین کے مرحوم صدر یاسر عرفات نے 2 جنوری 2001ء کے دن وائٹ ہائوس میں یہ معاہدہ قبول کر لیا۔ معاہدے کے ''پیرا میٹرز‘‘ بل کلنٹن کے نزدیک مسئلہ فلسطین کا بہترین حل تھے‘ مگر فلسطین کی ریاست کو فوج رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی‘ جبکہ اسرائیلی فوجی کنٹونمنٹ فلسطینی علاقوں میں قائم کروائے گئے۔ اس معاہدے نے اسرائیلی توسیع پسندی پر جیسے مہر لگا دی۔ وادیٔ اردن میں بین الاقوامی فوج بھیجی گئی جو اسرائیل کی مرضی کے تابع کر دی گئی۔ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ فلسطینیوں نے مسلم مہاجرین کے ''غیر محدود حقِ واپسی (Unlimited right of return)‘‘ کو ترک کر دیا۔ اسرائیل نے اخلاقی اور مادی (moral and material) مصائب کے شکار فلسطینیوں تک بین الاقوامی کمیونٹی کی مدد بھی روک ڈالی۔ بہرحال اس کے نتیجے میں 2 سٹیٹس منصوبے پر عمل درآمد ضرور ہو گیا۔
حالیہ ٹرمپ پلان کو فلسطین کے لیڈروں نے ''صدی کا تھپڑ‘‘ قرار دیا ہے کیوں کہ اس پلان کے نتیجے میں فلسطینی ریاست ویسٹ بینک اور غزہ کی پٹی تک محدود ہو جائے گی جبکہ اسرائیل یروشلم کو اپنا دارالخلافہ بنا ڈالے گا۔ یہی نہیں بلکہ تمام اسرائیلی سیٹل منٹس اور وادیٔ اُردن بھی اسرائیل کا حصہ بن جائے گی۔ اس طرح اسرائیل ویسٹ بینک کا چوتھائی حصہ اور پوری جارڈن ویلی کے ساتھ ساتھ فلسطینی علاقے کا مشرقی بارڈر بھی کنٹرول کر لے گا۔ عملی طور پر فلسطین کی ننھی مُنّی ریاست طاقت ور اسرائیل کے نرغے اور حصار میں رہے گی۔ فلسطین کے اصل مالک مسلمان جو اکثریت میں ہیں‘ مرغی خانہ ڈربہ نما ایک چوتھائی علاقہ میں قید ہو کر رہ جائیں گے۔
اگرچہ یہ حقیقت تسلیم شُدہ ہے کہ اسرائیل میں آج بھی فلسطینی مسلمانوں کی آبادی یہودیوں سے کہیں زیادہ ہے‘ لیکن پھر بھی''ٹرمپ فیملی پلاننگ‘‘ گریٹر اسرائیل کی تکمیل کے لئے روڈ میپ اور عملی طور پر finishing touch فراہم کرتا ہے۔ یوں یروشلم مکمل طور پر اسرائیل کے قبضے میں چلا جائے گا۔ فلسطینی مسلمانوں کی بے کسی کا یہ عالم ہے کہ فلسطینی صدر محمود عباس نے 29 جنوری کو ایک فلسطینی وفد کے ہاتھوں اسرائیلی وزیر اعظم کو اپنا احتجاجی مراسلہ بھجوایا‘ جس میں اس ڈیل آف سینچری کو سلیپ (slap) آف سینچری قرار دیا گیا؛ تاہم باقی پوری عرب دنیا نے اس امریکی ڈیل آف سینچری اور فلسطینی سلیپ آف سینچری پر چُپ کا روزہ رکھ لیا ہے۔
کون سیکھا ہے صرف باتوں سے
سب کو اِک حادثہ ضروری ہے