سوال دونوں بڑے اہم تھے۔ سوال کرنے والے بھی معتبر اور تجربہ کار سپریم کورٹ رپورٹرز۔
پہلا سوال تھا‘ نواز شریف لندن کے ''گورا ہسپتال‘‘ میں داخل ہونے سے کیوں ڈر رہے ہیں؟ دوسرا سوال تھا‘ بیماری کے بارے میں اگر نواز شریف کی پچھلی رپورٹس مرض کی تشخیص اور علاج کا روڈ میپ ترتیب دینے کے لئے کافی ہیں تو پھر لندن یاترا کے لئے اتنے پاپڑ کیوں بیلے گئے؟ مجھے شاہراہِ دستور پہ ایستادہ سپریم کورٹ کی مین بلڈنگ سے نکل کر اسلا م آباد ہائی کورٹ پہنچنے کی جلدی تھی‘ اس لیے پہلے سوال کو گول کرنا چاہا‘ لیکن رپورٹر صاحب ڈٹ گئے۔ کہنے لگے، چلیں یہ بتا دیں‘ کیا نواز شریف وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان سے ڈر گئے کہ ابدی سکون تو ابدی نیند والی جگہ پہنچ کر ہی ملتا ہے؟ دوسرے سوال کے جواب میں عرض کیا‘ جناب فون پر بات نہ کر لیں؟ رپورٹر نے میرے سوال کو ٹوئسٹ (Twist) دیتے ہوئے کہا، جی ہاں، فون پر تو لازماً بات ہوئی ہو گی‘ تبھی تو شہباز شریف بھی بھاء جی کے ہمراہ لندن میں ڈٹ کر ووٹ کو عزت دے رہے ہیں۔
مجھے دریائے کابل اور دریائے سندھ کے سنگم پر واقع اٹک قلعہ کا واقعہ یاد آ گیا۔ اُن دنوں 12 اکتوبر 1999 کا عدالتی سند یافتہ آئینی مارشل لا نیا نیا لگا تھا۔ اٹک قلعے میں 8/9 مقدمات ملزموں سمیت ٹرائل کے لئے بھجوائے گئے‘ جن میں آلِ شریف کے قیدی آصف علی زرداری، اعظم خان ہوتی، احمد ریاض شیخ اور کراچی کے ایک بڑے تاجر کے مقدمات، مَیں وکیل صفائی کی حیثیت سے لڑ رہا تھا۔ احتساب کو تازہ سپیڈ لگی ہوئی تھی‘ لہٰذا ہفتے میں کبھی 2 مرتبہ کبھی 3 بار تاریخِ پیشی بھگتانے کے لئے اٹک قلعے کی عسکری بیرک میں قائم کی گئی 2 عدالتوں میں پیش ہونا پڑتا۔ ان عدالتوں کو لمبی بیرک کے درمیان کارڈ بورڈ کی عارضی دیوار بنا کر علیحدہ کیا گیا تھا۔ عدالتی کارروائی کے دوران کبھی کبھی دونوں عدالتوں میں پیش ہونے والے وکیلوں کی آوازیں ایسے مِکس ہو جاتیں جیسے پُرانے ریڈیو پر دو سٹیشن ایک ساتھ گڈ مڈ ہو جائیں۔ ایک سٹیشن پر مہدی حسن ''گُلوں میں رنگ بھرے، بادِ نو بہار چلے‘‘ کے سُر بکھیرتے تو دوسرے سٹیشن پر اُسی وقت '' زمیناں واہ، رَج کے کھاہ، کِساناں دیس دیا،‘‘ والا اشتہار چنگھاڑتا سنائی دیتا۔
نواز شریف اٹک قلعے میں مغلیہ شاہی حمام میں اسیر تھے‘ جو اکبر اعظم نے کُھلے کھانے کے بعد بے پردہ اشنان گھر میں نہانے کے لئے بنایا تھا۔ عدالت آتے تو اُن کا حُلیہ اور باڈی لینگویج ''تکبّر سے تحیّر‘‘ تک کی چشم کُشا تصویر بنی رہتی۔ ایک دن میں طے شُدہ وقت سے 40/50 منٹ پہلے پہنچ گیا۔ اُس دن کی کارروائی کے لیے تب احتساب کورٹ کے جج جنابِ پرویز ملک سے مقدمہ جلد سننے کی استدعا کرنا تھی۔ جنابِ پرویز ملک اُس وقت پنجاب کے سینئر ترین سیشن جج تھے۔ بعد میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس تعینات ہوئے۔ جسٹس پرویز ملک سائل دوست، وکیل نواز اور عدل و انصاف کی آبرو رکھنے والے جج کہلائے۔ وقفے کے بعد مجھے اسلام آباد واپس آ کر سپریم کورٹ میں پیش ہونا تھا۔ شاہی حمام قدرے اُونچائی پہ واقع ہے‘ جس کے عین سامنے شرقاً غرباً پھیلی لمبی، چوڑی اور اُونچی بیرک ہے‘ جس کے آغاز میں کمانڈ پوسٹ کا کمرہ وکیلوں کے بیٹھنے کے لئے عارضی بار روم بنا دیا گیا۔ جونہی بار روم میں داخل ہوا، سامنے پنجاب کے دو نامور لاہوری وکیل اُونچی آواز میں گپیں لگا رہے تھے۔ یہ دونوں سنیئر وکلا اب اس دُنیا میں موجود نہیں‘ اس لیے ان کا نام لکھنا نا مناسب ہے؛ البتہ اشارے کے طور پر ایک کو آپ پٹیالہ سے سمجھ لیں اور دوسرے کو بٹالہ سے۔ میں نے سوری کہہ کر واپس مڑنا چاہا تو وہ فوراً بول اُٹھے: نہیں، نہیں، اچھا ہوا، آپ پہنچ گئے۔ ہم دونوں کو غم غلط کرنے کے لئے کسی تیسرے کی تلاش تھی۔
ہوا یوں کہ مرحوم مجید نظامی صاحب کو اطلاع ملی کہ شریف فیملی جنرل مشرف سے ''فراری کیمپ‘‘ المعروف سُرور پیلس تک پہنچنے کے لئے تحریری معافی نامے پر ملک سے باہر جا رہی ہے۔ جنابِ نظامی صاحب نے کچھ دوستوں سے بات کی اور فیصلہ ہوا کہ دونوں نامور وکلا اٹک قلعے جائیں گے۔ ''قائدِ جمہوریت‘‘ سے مل کر قلعے کے اندر کی پُراسرار سرگرمیوں کو تصدیق کا لبادہ پہنائیں گے۔ ان دونوں حضرات کی خصوصی آمد اسی سلسلے میں تھی۔ میں نے کُرسی کھینچی مگر میرے بیٹھنے سے پہلے انہوں نے اپنی کتھا سنانا شروع کر دی۔ قہقہے اور چسکے لگا لگا کر۔ بتایا، ہم نے نواز‘ مشرف سودے بازی پہ جو سوال پوچھا‘ اُس کے جواب میں کبھی مٹھائی کا ڈبہ کُھلا، کبھی لُنڈے دریا کی توا تلی مچھلی والی پلیٹ۔ کبھی کشمیری مٹھائی ''گلگلے‘‘ اور کبھی ''رشمالو‘‘ پیش خدمت کی گئی۔ دونوں نامور ایڈووکیٹس نے ہنستے ہوئے کہا ''آج ہماری جرح زندگی میں پہلی بار فیل ہو گئی بلکہ ہم آپ کو گواہ بنا کر اعتراف کرتے ہیں‘ ہم نواز شریف کاKnuckle-head crack کرنے میں ناکام ہو گئے۔‘‘
یہ ساری گفتگو خالص پنجابی زبان میں ہوئی۔ کاش میں اُس کے سیاق و سباق کو واضح کرنے والی چاشنی سے بھرپور اصطلاحیں، استعارے اور ہاتھ کے اشارے آپ کو سُنا، پڑھا اور دکھا سکتا۔ اس سے آگے لکھنے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ نواز شریف کا اسلام آباد ائیر پورٹ سے جدہ جانا۔ پھر براستہ لندن اسلام آباد ائیر پورٹ تک لوٹ آنا۔ سعودی پرنس مِقرن کا پاکستان آنا۔ شاہ عبداللہ ابنِ سعود (مرحوم) کے داماد، لبنان کے شہید وزیر اعظم رفیق حریری کے بیٹے، سابق وزیر اعظم سعد حریری کو ساتھ لانا۔ پھر ٹی وی کیمروں کے سامنے پریس ٹاک میں نواز شریف کا معاہدہ برائے معافی نامہ لہرا لہرا کر دکھانے کی تاریخی ویڈیوز سوشل میڈیا کے آرکائیوز پر وائرل ہیں۔
بات ہو رہی تھی دوسرے اہم سوال کی۔ وہ یہ کہ اگر نواز شریف کی پچھلی رپورٹس مرض کی تشخیص و علاج کا روڈ میپ ترتیب دینے کے لئے کافی ہیں‘ پھر لندن یاترا کے لئے اتنے زیادہ پاپڑ کیوں بیلے؟ اس پاپڑ سازی کی تاریخ 2 مئی 2019 کو شروع ہوئی‘ جب سپریم کورٹ نے نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست خارج کی۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ بنچ ہیڈ کر رہے تھے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس سجاد علی شاہ بنچ کا حصہ تھے۔
نواز شریف بیماری کی تلاش میں پہلے 6 رُکنی میڈیکل بورڈ روانہ ہوا۔ دوسرا فرمائشی بورڈ 10 رکنی تھا۔ تیسرا صوبہ پنجاب کی حدوں کو پاس کر گیا۔ پھر بورڈ تھا اور ''چل سو چل‘‘ تھی۔ قوم کو ایسے لگا جیسے کسی طاقت ور چوہدری کے بیٹے کو ڈٖائریکٹ ''پنجویں‘‘ پاس کروانے کے لئے ایک کے بعد دوسرا امتحان منعقد کروایا جا رہا ہے۔ تلاشِ امراض کا سیزن ٹو ہائی کورٹس میں ضمانت کی درخواستوں سے شروع ہوا۔ تب تک نواز اور مریم دونوں ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے سے تائب ہو چکے تھے۔ نیا نعرہ نکلا ''اگر وہ مر گیا تو عمران خان ذمہ دار ہو گا‘‘۔ آخر کار پاپڑ ساز 70 سالہ تجربہ کار سنیاسی باوے پاپڑ سمیت لندن جا پہنچے۔ بڑا بیمار اور چھوٹا تیماردار۔ ڈیکلیئر ہو گیا۔ دونوں کے نام ECL سے خارج ۔ چارٹرڈ ڈریم جیٹ کہاں سے آیا؟ کرایہ کس نے دیا؟ پوچھنے کی ضرورت ہے؟ ایسے موقع پر مرحوم سابق اٹارنی جنرل پاکستان شہزاد جہانگیر یہ مصرعہ پڑھا کرتے:
چور تو چور کو ہی اذنِ رسائی دے گا
سوال مگر باقی ہے۔ نواز شریف ہسپتال کیوں نہیں جاتے؟