اس میں کوئی شک ہے کہ قبضہ مافیا‘ چائنا کٹنگ‘ سٹیٹ لینڈ مکائو مہم ‘ جعلی کلیم ‘ 100فیصد فرضی انتقال اور نقلی رجسٹریاں صرف اپنے ہاں ہی ممکن ہیں۔مہذب دنیا میں صدیوں پُرانے لینڈ ریکارڈز میں بھی کوئی فالتو یا جعلی نام ڈالنا یا اصل مالک نکالنے کا تصور ہی نہیں ۔ ہاتھ کٹ جائیں تو بھی ایسا نہیں ہو سکتا۔
اس میں بھی کوئی شک ہے کیا 1947ء کی ''دی گریٹ مائیگریشن‘‘ کے بعد کھیت کھلیان ‘ حویلی ‘ دیوان تو ایک طرف چراگاہ سے عبادت گاہ تک پہ ناجائز اور غیر قانونی قبضہ Business As Usual بن گیا۔ وہ بھی سرکاری سر پرستی میں۔ نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ پشتو میں طورخم اور اُردو میں مغربی بارڈر والے کالے موڑ سے لے کر مہران کے کالا پُل ڈیفنس کراچی تک‘ ہر طرف قبضہ اور فرضی انتقالِ اراضی کے منحوس پھریرے لہرا رہے ہیں۔
2002 ء کے قومی الیکشنز میں انتخابی جلسے کیلئے گولڑہ سٹیشن جانا ہوا۔ دور دور تک ہرے بھرے کھیت اور ریلوے لائن کے دونوں جانب کھلی ڈُلی سینکڑوں ایکڑ سرکاری زمین موجود تھی۔ 2019ء میں چند ہفتے پہلے ‘یہیں شادی کی تقریب میں مدعو تھا۔ ایک انچ آزادسرکاری زمین نظر نہ آئی۔ ہر طرف قبضہ‘ بے ڈھنگے تجاوزات اور گندگی ایسی‘ الامان الحفیظ۔ پارٹیشن سے پہلے کے پنجاب میں پوٹھوہار کا مشہور ترین ریلوے سٹیشن '' رکھ تارا سنگھ‘‘ کہلایا۔ جی ٹی روڈ پر پنڈی سے 35/40منٹ کی ڈرائیو پر مندرہ کا قصبہ یا سیمی اربن سنٹرواقع ہے۔ اس کی دائیں جانب مڑنے والا ٹرین ٹریک چکوال سے ہوتا ہوا بھون قصبے تک جاتا‘جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانے میں چھوٹے طیاروں کے اترنے کیلئے ایئر سٹرپ بنایا گیا۔بتایا جاتا ہے‘ اس علاقے میں تیل اور معدنیات کے ذخائر تھے‘ یہی اثاثے ایسٹ انڈیا کمپنی کی دلچسپی کی وجہ اور مرکز بنے۔ جی ٹی روڈ سے مندرہ چکوال ریلوے ٹریک پر پہلا ریلوے سٹیشن '' رکھ تارا سنگھ‘‘ہی ہے۔ درمیان میں بہت سے دوسرے سٹیشن بھی۔
1977ء کے مارشل لاء کی نرسری نے ایسے لکڑ ہضم ‘ پتھر ہضم معدہ رکھنے والے لیڈر پیدا کیے‘ایسی نایاب مخلوق جو تمام ریلوے سٹیشن ‘ پورے کا پورا ریلوے ٹریک کا لوہا ‘ایک مکمل اور تاریخی ریلوے لائن بھی ہڑپ کر گئے۔ ان لوہا خور لیڈروں میں سے کچھ تو اگلے جہان سدھار گئے‘ جومالدار باقی بچے وہ انگلستا ن پدھار گئے‘لیکن خونِ خاک نشیناں کی طرح پاکستان کے قیمتی اثاثوں پر پڑنے والی اس دلیرانہ ڈکیتی کا نہ کوئی مدعی تھا ‘نہ محاسب ۔ اس لیے حساب پاک ہوا۔ ایسی الف لیلیٰ کی ہزار داستانیں ملک کے کونے کونے میں بکھری پڑی ہیں۔
خیر سے اب توقبضہ مافیا ایک کارپوریٹ دنیا ہے۔ساتھ ساتھ بہت اچھا Pay master بھی‘اسی لیے بڑے بڑے اداروں سے ریٹائر ہونے والے نامور افسران اسی کارپوریٹ دنیا میں باعزت مقام اورپُرشکم ملازمت پاتے ہیں۔ کراچی کا تو زیادہ پتا نہیں‘مگر لاہور ‘ اسلام آباد میں ان اداروں کے گماشتوں نے باقاعدہPublic Relationing کمپنیاں بنا رکھی ہیں‘ جن کے کارندے پہلے بغل میں بستہ دابے گھومتے تھے‘ پھر بستے کی جگہ رپورٹنگ ڈائری آگئی اور اب ہینڈی کیم۔
آج لینڈ مافیا‘ چائنا کٹنگ ‘ قبضہ گروپوں کا بیانیہ سب سے پُر تاثیر اور بالا دست ہے۔ بڑا سادہ ‘ انتہائی د ل نشین بھی۔ اس بیانیے کے اوتار ٹی وی سکرین سے لے کر ایوانِ عدل تک دھڑلے سے کہتے ہیں: '' بے کار سرکاری زمین پر غریبوں کو پناہ اور چھتیں مل گئیں ۔ مسکینوں کے ڈیرے آباد ہو گئے‘‘۔ اوریوں سَلم ڈاگ علاقوں میں 9/9،14/14منزلہ عمارتیں تعمیر ہو گئیں۔ اب نظریۂِ ضرورت کے تحت کھانے اور لگانے والے دونوں کو بھول جائو۔
رکھ تارا سنگھ والی مندرہ تا بھون ریلوے لائن تلاش کرنے کی باری کب آئے گی ‘ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں‘ البتہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب گلزار احمد نے شہرِ پاکستان کو تلاش کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ یہ روٹین آرڈر نہیں‘ بلکہ آئینی اختیارا ت کاایسا سونامی ہے‘ جو 72سال بعد دیبل کے ساحلوں سے جاٹکرایا ۔ جمعے کے روز سپریم کورٹ کے فُل بنچ نے اربوں کھربوں روپے کی سرکاری زمین پر تعمیر شدہ غیر قانونی بلڈنگز گرانے کا تاریخی حکم دیا۔ڈائریکٹر لینڈز کنٹونمنٹ کی گوشمالی ہوئی۔ سپریم کورٹ نے کراچی کی کچی آبادیوں کو ختم کر کے ان آبادیوں کے مکینوں کو ہائی رائز بلڈنگز میں منتقل کرنے کابھی کہا۔
چیف جسٹس گلزار احمد‘ جسٹس فیصل عرب او ر جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل بنچ کے سامنے اس لینڈ مارک کیس کی سماعت میں موجود سرکاری اداروں کے پیروکار بے دلی کی چلتی پھرتی تصویر بنے نظر آئے۔ساتھ ہی عدالتِ عظمیٰ نے کراچی پورٹ ٹرسٹ کی زمین کی بندر بانٹ لیز کو غیر قانونی قرار دے ڈالا‘ جس کے نتیجے میں KPTکی زمین پہ ہائوسنگ سوسائٹی بھی ختم ہوئی۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے دُکھے دل سے ریمارکس دئیے کہ سٹی حکومت کام نہیں کرتی‘کوئی ادارہ ٹھیک نہیں چلتا‘ عدالت کیا کرے‘ کسے بُلائے۔شہرِ قائدحکومتوں کی توجہ سے محروم ہے۔ پی آئی اے کو دی گئی زمینوں اور اُن پر قائم سٹرکچر کی رپورٹ بھی مانگ لی گئی۔ پنچاب کالونی ‘ دہلی کالونی ‘ PNTکالونی اورگِذری روڈوالی سرکاری زمین پر قائم غیر قانونی تعمیرات گرا دینے کا حکم بھی جاری ہوا۔
یہاں لطف کی بات یہ ہے کہ بات بے بات بگڑ جانے والے عوام دوست‘ہر مہینے نئے مارچ والے قوم پرست ‘ ہر روز نیا احتجاج اور ہر موضوع پر جدید دھرنے سجانے والے حریت پسند پاکستان کے اثاثے لُٹ جانے پر خاموش ہیں۔ سچ بات یہ ہے کہ خاموش تماشائی ۔ایسے تماشائی جو پُرکھوں کی لٹتی کمائی کو شیرِمادر سمجھتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے کراچی کیلئے نیا پلان بنانے کا عندیہ دیا۔ سول انجینئرز ‘ ٹریفک ماہرین اور ٹائون پلانرز سے مدد لے کرشہرِپاکستان کو دنیا کے جدید شہروں کے برابر لانے کاحکم بھی۔ یہ سارے جوڈیشل اقدامات اور عدالتی احکامات ہیں۔ ایک ڈیوٹی اس سے سِوا بھی مگر لازماً ادا کرنا ہو گی‘ ملک کے شہریوں کو ۔جو اس لُٹی جاگیر کے اصل وارث ہیں‘ بلکہ پاکستانی سماج کو بھی۔ موم بتی گروپ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ غیر ملکی این جی اوز کے فنڈز ایجنڈے کے علاوہ بھی کچھ سر گرمی کر دکھائیں۔
چند ماہ پہلے پنجاب کے ضلع ساہیوال میں36سال تک صوبہ داری کرنے والی شریف فیملی کے قبضے سے 37سال بعد 36کنال سرکاری زمین واگزار کروائی گئی۔ یہ لاوارث پاکستانی زمین اتفاقیہ طور پر دوڑتی ہوئی اتفاق شوگر ملز میں گھس گئی تھی۔ اسی طرح اسلام آباد میں گزشتہ ایک سال کے عرصے میں 83ہزارکنال قیمتی ترین سرکاری زمین قبضہ مافیا سے چھڑوائی گئی‘ مگر حرام ہے سرکار کی تنخواہ پہ پلنے والے شرمیلے‘ لچکیلے اور ڈھیلے بلکہ معذور و مجبور اداروں نے نیشنل لینڈ بینک لوٹنے والے کسی ڈاکو کو ہتھکڑی لگائی۔
2018-19ء چھوڑ کر پچھلے دس سال سردیوں میں گیس کی شدید لوڈ شیڈنگ ہوئی‘جس پہ احتجاج متشدد مظاہرہ بن جاتا۔مار دھاڑ ‘ جلائو گھیرائو ‘آتش زنی سے بھرپور گیس کمپنیوں کے دفاتر اور تنصیبات پر باقاعدہ Mob attacksہوئے۔ اب کے سال پونم میں چولہے جلے ‘ فیکٹریاں اور سی این جی سٹیشن بھی چلے‘ مگر کمال ہے آزاد میڈیاکو یہ خبر ملی ہی نہیں ۔ بجلی کی لوڈ مینجمنٹ میں بھی ٹرننگ پوائنٹ آیا‘ لائین لاسزاور بڑی بجلی چوری پہ کنٹرول کر کے‘ اسے بھی کسی نے قابلِ اشاعت خبرنہیں جانا۔ بالکل ویسے ہی جیسے سنٹرل لندن میں شہباز شریف کے علاج ِ غمِ دوراں والی تازہ ویڈیو یار لوگ پی گئے۔ کراچی کی بظاہر معتبر ہستیاں تجاوزات کے حق میں سرگرم ہیں۔ شاعر نے انہیں یوں تاڑا۔؎
زاہد کی سُرخ آنکھوں سے معلوم ہو گیا
رندوں سے جو بچی تھی وہ حضرت نے نوش کی