"SBA" (space) message & send to 7575

Hunting with Mafia

یہ محاورہ انگریزی زبان کی طرح، بہت پرانا ہو گیا۔ ''دوڑنا خرگوش کے ساتھ اور شکار، شکاری کتوں کے ساتھ‘‘۔
یہ محاورہ یاد آنے کی وجہ روزنامہ دنیا میں شائع ہونے والی دو عدد خبریں ہیں۔ پہلی عکسی طور پر اور دوسری بیانیہ رپورٹ۔ یہ دونوں اطلاع و ابلاغ کی انتہا ہیں بلکہ ساتھ ساتھ 'غُلوُ‘ کی واضح تردید اور کھلی نفی بھی۔ وہی غلو جس سے بچنے کو محسن انسانیتؐ نے اپنے الوداعی خطبۂ حج میں انسانیت کا چارٹر بنا دیا۔
تمہید باندھنے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ دونوں خبریں بڑی منہ پھٹ ہیں۔ پہلی خبر کی شہ سرخی ہے کہ 'جناب‘ ٹماٹر 5 روپے کلوکے ریٹ پر بکنے لگے، دوسری لائن میں درج کیا گیا ہے، کسان پریشان۔ انسانوں کی خوراک کے بجائے ،ٹماٹر صاحب جانوروں کا چارہ بن گئے۔ خبر کے مطابق سندھ کے علاقوں بدین، ٹھٹہ وغیرہ میں کسانوں نے ٹماٹر کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں پر ڈمپ کر دیے۔ کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ ٹماٹر کھیت سے منڈی تک لے جانے کا کرایہ بھی پورا نہیں ہو رہا۔ ہم اب ٹماٹر کی توقیر اس لیے نہیں کر سکتے کہ اس کی کوئی قدر اور قیمت منڈی میں بھی نہیں رہی۔
دوسرے نمبر پر تصویری خبرنامہ ہے۔ دو کالمی تصویر میں بڑے بلکہ جہازی سائز کے میگا ٹرالر دکھائی دے رہے ہیں‘ جن پر اونٹ کی کوہان کی طرح اوور لوڈنگ کی گئی ہے۔ یہ ہے کیمرے پر پکڑی گئی چینی کی بوریاں جس کو افغانوں کا کڑوا مُنہ میٹھا کرنے کے لیے کابل‘ قندہار لے جایا جا رہا تھا۔ انگریزی زبان میں غُلو کا مطلب ہے Exaggeration یا پھر بات کا بتنگڑ بنا لینا۔ پوٹھوہاری زبان میں کہتے ہیں ''پھنگاں ناں ڈار‘‘۔ کسی دیہاتی نے نالے کے کنارے پرندے کے دو عدد پر، پڑے ہوئے دیکھ لیے۔ گائوں پہنچا تو کہنے لگا: ندی کے کنارے کونجوں کی پُوری ڈار دیکھ کر مزہ آ گیا۔ اب کیا فرماتے ہیں ''راگ ٹماٹری‘‘ کا الاپ کرنے والے غریبوں کے محسن کلاکار؟ جن دنوں نا جائز منافع خوروں نے ذخیرہ اندوزی کے ذریعے ٹماٹر مہنگا کیا تھا‘ تب عمران خان نا اہل تھے۔ اب اُنہیں کی حکومت میں ٹماٹر بے مول گائے‘ بکریاں بھی چکھ رہی ہیں۔ اب کون اہل ہے اور نا اہل کون؟ مگر اس بحرانِ ٹماٹری میں دو فریق ہرکولیس اور ریمبو بن کر سامنے آئے۔ پہلا فریق وہ جس نے بحران پیدا کر کے فائدہ اٹھایا۔ اور دوسرا وہ جس نے بحران کے نام پر اپنی اپنی تجوریاں بھر لیں۔ ان کی کامرانی بلکہ شادمانی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ہمارے آزاد بولنے والوں کے ناخدائوں نے نہ ان پر کوئی الزام دھرا اور نہ ہی ان کی مذمت کی۔ یوں یہ مال خور اپنی طاقت کا لوہا منوا کر پتلی گلی سے کھِسک گئے‘ اور سارا ملبہ ان پر آن گرا جنہوں نے ٹماٹر چھپائے اور نہ ہی منافعے کمائے۔
ملبے والی تیکنیک سے اورنج ٹرین یاد آتی ہے جس کا پہلا تخمینہ اور پروجیکٹ خرچ ہی مہنگا ترین یعنی 1200 ملین ڈالر کا تھا۔ ان ڈالروں پر جس نے پہلا ہاتھ مارا اس کے ہاتھ، پائوں گھی میں اور منہ 'سر‘، کڑاہی میں پہنچ گئے۔ اس لذت آگاہی کی وجہ سے اورنج ٹرین کی لاگت بڑھا کر 3000 ملین ڈالر کر دی گئی۔ بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ اس کا ایک ٹھیکے دار چائنیز کمپنی تھی جس نے آ کے شکمی ٹھیکے دار (Petty Contractor) دو عدد لگا دیئے۔ ان کنٹریکٹروں کی ذِمہ داری تھی کہ وہ خادمِ اعلیٰ کی تصویریں لگا کر پروجیکٹ کی خوب مشہوری کریں۔ لیکن یہ مشہوری پنجابی فلم ہیبت خان والی ثابت ہوئی۔ تب ریڈیو پاکستان کا دور تھا‘ اشتہار باز انتہائی رعب دار انداز اور آواز میں کہتا: گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے بند کر لو‘ ہیبت خان آ رہا ہے۔ پھر اس کے بعد وحشی گھوڑوں کی ٹاپوں اور ہنہنانے کی آواز سنائی دیتی۔ فلم کا پریمیئر شو منعقد ہوا جسے دیکھنے کے بعد لاہور کے ایک تہلکہ باز سینئر رپورٹر نے اپنے فلم ریویو میں یہ سرخی جمائی، ''گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے کھول لو ہیبت خان چلا گیا ہے‘‘۔ فلم کے ہیرو پڑھے لکھے فلم سٹار حبیب تھے‘ جن کا گیٹ اپ خون خوار وحشیوں والا جبکہ چہرہ خوف زدہ پٹواری جیسا تھا۔ اس مالٹا ٹرین پروجیکٹ کا ہیبت خان بھی امکانات کی کھڑکیاں اور دروازے کھول کر، حصہ بقدرے جُثہ سمیٹے انگلستان واپس جا چکا ہے۔ 
27 کلومیٹر لمبے اورنج ٹرین ٹریک کو لاہوریے پیار سے پیلی ٹیکسی گڈی بھی کہتے ہیں‘ جس میں کل 26 ریلوے سٹیشن بنائے گئے ہیں‘ جن میں سے 24 عدد ہوا میں معلق (Elevated) سٹیشن ہیں جبکہ صرف 2 سٹیشن انڈر گراونڈ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ زمین پر سرے سے کوئی سٹیشن نہیں بنایا گیا۔ پیلی ٹیکسی گڈی کی ساری ٹرینیں بجلی سے چلائی جائیں گی۔ ادارہ برقیات لاہور المعروف لیسکو ٹرینوں کے لیے 108 میگا واٹ بجلی فراہم کرے گا۔ معاہدے کے تحت یہ بجلی حکومت کو 13 روپے فی یونٹ کے حساب سے فروخت کی جائے گی۔ یوں پیلی ٹیکسی گڈی صرف اس مد میں ہر ماہ عوام کی جیبوں سے نکال کر 110 کروڑ روپے کے بجلی کے بل لیسکو کو بھرے گی۔ چونکے اس پروجیکٹ کا سارا کام اندازوں پر شروع ہوا اس لیے ایک اندازہ کہتا ہے کہ اس مالٹا ٹرین میں روزانہ 2 لاکھ مسافر سفر کریں گے۔ آپ خود اندازہ لگا لیجئے‘ اگر ہر مسافر 60 روپے کرایہ دے تو کل کرایہ ایک کروڑ 20 لاکھ روپے روزانہ یعنی صرف 36 کروڑ روپے ماہانہ بنے گا۔ جن کا میتھ کمزور نہیں وہ بجلی کے 110 کروڑ روپے ماہانہ بل میں سے ٹکٹ فروخت والے 36 کروڑ روپے نکال دیں تو بھی صرف بجلی کا خسارہ 66 کروڑ روپے ماہوار بنے گا۔ 
اب ذرا ایک اور بات ذہن شریف میں لائیں‘ کیا یہ ٹرین ڈرائیور، کنڈیکٹر، آپریشنل اخراجات، عملیات،   مین  ٹیننس  ، سکیورٹی، عملہ صفائی کے بغیر چلے گی؟ یہ سب کچھ جمع کریں تو حکومتِ پنجاب کو 27 کلومیٹر کے اس شاہانہ سفر پر آپ کی جیب سے ہر سال 10 ارب روپے سے زاہد نکال کر اورنج ٹرین کو سبسڈی کی صورت میں دینا ہوں گے۔
اب ذرا چند ایسے سوال دیکھ لیں جو روز پوچھے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر لاہوری مالٹا ٹرین کس نے بنائی۔ دوسرا سوال 268 ارب روپے ہیں۔ تیسرا‘ اتنے پیسے آئے کہاں سے؟ جواب ہے‘ مالٹا ٹرین شہباز شریف نے قرض لے کر بنائی۔ اگلا سوال ہے‘ مالٹا ٹرین والا قرض سود سمیت کون واپس کرے گا؟ جواب ہے‘ عمران خان۔ پھر سوال آیا، جنابِ عمران خان قرض کیسے واپس کریں گے؟ جی عوام پر ٹیکس لگا کے۔ پھر سوال آیا‘ ایسے میں مہنگائی ہو گی؟ لوگ قرض واپس کرنے والے عمران خان کو گالیاں دیں گے۔ قرض لے کر اڑانے والے کا منہ چومیں گے۔ عمران خان کے سپورٹر مایوس ہوں گے۔ عوام بد دل ہو جائیں گے۔ 
ذرا غور سے دیکھیں یہ کون ہے جو خرگوش کے ساتھ دوڑ کر Hounds کے ساتھ شکار کر رہا ہے؟ جنابِ والا آپ کی نظر کمزور نہیں‘ آپ نے میلے میں بکنے والی بچوں کی سرخ عینک پہن رکھی ہے‘ جس میں شیشے کی جگہ آپ کے پسندیدہ رنگ کا کپڑا لگا ہوا ہے۔ یہ پردہ اتار کر دیکھیں۔ آپ بھاگنے والے کو پہچان جائیں گے منظر نامے سمیت۔
یہ شہر سو رہا ہے، پرندوں کے شور میں
اس شہر میں ہیں خواب پرانے پڑے ہوئے
خالی پڑا ہوا ہے محل سو کنال کا
ٹیبل پہ سو طرح کے ہیں کھانے پڑے ہوئے
برسوں کے بعد ایک حویلی کے دَر کُھلے
روشن ہوئے چراغ پرانے پڑے ہوئے
(بشکریہ نذیر قیصر)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں