چلیے ایک ٹکے کی ہانڈی ٹوٹنے کا نتیجہ نکل آیا۔ حقیر ترین سورس سے تصدیق ہو گئی کہ پاکستان میں امریکہ بہادر کی فارن پالیسی کامیاب بنانے کی ایگریسو ڈیوٹی ادا کرنے والے کون تھے۔ اپنوں کے بجٹ سے کما کر غیروں کی چاکری کرنے والے نہ صرف شناخت ہو گئے بلکہ ان کے نام پتے اور جغرافیائی حلیے بھی لیک ہوئے۔ ظاہر ہے انفارمیشن وہیں سے لیک ہوتی ہے جہاں سورس آف انفارمیشن ہو گا۔ وطن عزیز کے خلاف چلنے والی اس اندرونی مہم کو بیرونی آقائوں نے ''Aggressive Reporting‘‘ کا نام دیا جسے جارحانہ بیانیہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس بیانیے کے تین اشارے نمایاں ہیں۔
پہلا اشارہ: پاکستان بد امنی کا گڑھ ہے۔ کوئی محفوظ نہیں۔ اس بیانیے کو آگے بڑھانے کے لیے موم بتی گروپ کو استعمال کیا گیا جس کی ڈیوٹی ایسی خبریں انجینئر کرنا ہے‘ جس سے تاثر دیا جا سکے کہ پاکستان سیاحت کے لیے موزوں ہے نہ ہی حفاظت کے لیے۔
دوسرا اشارہ: پاکستان کی ریاست نا قابلِ اصلاح (Un-Governable) ہے‘ جس کا دوسرا مطلب ہوا: نا کام ریاست۔
تیسرا اشارہ: پاکستان عالمی تنہائی (Global Isolation) کا شکار ہے۔ مشرق یا مغرب میں اس کا کوئی ہمدرد یا ہم نوا ملک نہیں ہے۔ اس حوالے سے ایف اے ٹی ایف کو استعمال کیا گیا۔ ساتھ ہی لائن آف کنٹرول، چاہ بہار، طورخم اور چمن سے در اندازیاں کروا لی گئیں۔ اس ساری ایکسرسائز کا مطلب، پاکستان کا عالمی چہرہ بگاڑنے کی مذموم مگر نا کام کوشش تھی۔
پچھلے 18 ماہ کے عرصے میں پاکستان کو دو تناظر میں دیکھا جاتا رہا۔ پہلا تناظر ہے‘ پاکستان کے بارے میں بیرونی طاقتوں اور اداروں کی بے لاگ رائے۔ جبکہ دوسرا تناظر ہے ''پ‘‘ سے پالیسی۔ اندرونی تناظر کو ''پیٹ پالو پالیسی‘‘ کہنا زیادہ قرینِ قیاس ہو گا۔ اسی طرح فارن کا علیحدہ جائزہ لینا ہو گا۔ اور ٹرپل ''پ‘‘ پالیسی کو الگ سے دیکھنا پڑے گا۔
آئیے مغربی دنیا سے شروع کرتے ہیں۔ فارن اَفیئرز کی سوجھ بوجھ رکھنے والوں کو پتا ہے کہ خارجہ پالیسی کے دو حصے (Tiers) ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک کو فارمل یعنی دفتری فارن پالیسی کہا جا سکتا ہے‘ جبکہ دوسرے کو People,s Diplomacy کہتے ہیں۔ پاکستان کو دونوں میدانوں میں عالمی حمایت ملی‘ تنہائی بالکل بھی نہیں۔
ذرا پیچھے چلیے۔ جونہی عمران خان نے پاکستان کی وزارتِ عظمی کا حلف اٹھایا اسی وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹویٹ آ گئی۔ ایسی ٹویٹ کمزور اعصاب کے حکمرانوں اور پالیسی کار کسی کے بھی پاجامے گیلے کرنے کے لیے کافی تھی‘ لیکن عمران خان نے ٹویٹ کے میزائل کو جوابی ٹویٹ کے ڈیفنس سسٹم کے ذریعے ڈھیر کر ڈالا۔ لمبے عرصے بعد بلکہ عشروں بعد پاکستان کی طرف سے یہ پالیسی شفٹ کا کھلا مظاہرہ تھا؛ چنانچہ صدر ٹرمپ نے سٹیٹس مین کرافٹ کا سہارا لیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی عظیم قربانیوں کا کھلا اعتراف کیا۔ ہمارے وزیر اعظم سے درخواست کی کہ پاکستان افغان امن کی بحالی کے لیے مدد کرے۔ اس سے پہلے پاکستان کی فارن پالیسی ''ڈو مور‘‘ سے شروع ہو کر جبری مشقت والی بانڈڈ لیبر کے درمیان گھومتی تھی۔ اس عرصے میں ہماری ہر پالیسی فارن سے آتی۔ فارن کی تیار کردہ۔ فارن کے لیے بلکہ فارن پاورز کی تابعداری کے لیے۔ کون نہیں جانتا پچھلے 72 سالوں میں بالعموم اور شملہ معاہدے کے بعد بالخصوص بھارتی مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ بیک برنر پہ چلا گیا۔ خاص طور سے عالمی اداروں، مغربی رائے عام اور اقوام متحدہ میں۔ دنیا کے بڑے دارالخلافے اور امریکہ کے صدر بھارتی مقبوضہ کشمیر کا نام لینے سے کتراتے تھے۔ ان 18 ماہ میں یہ منظر نامہ اُلٹا پڑ گیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارتی فوج کے مظالم پر 3 دفعہ بحث ہوئی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر چھایا رہا۔ آج کی دنیا میں کوئی ایسا فورم نہیں ہے جہاں مسئلہ کشمیر، مودی کے مظالم اور بھارتی فوجیوں کے جنگی جرائم کا تذکرہ نہ ہو۔ ذرا آگے بڑھتے ہیں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے۔ بھارت نے دہشت گردی کے نام پر پاکستان کو آگے لگایا ہوا تھا۔ کچھ لوگوں کو یہ بات عجیب لگے گی لیکن مستقبل قریب میں ایف اے ٹی ایف سے پاکستان جس دروازے سے سُرخرو ہو باہر نکلے گا‘ اُسی سے ایف اے ٹی ایف بنام مودی وغیرہ کی آواز لگائی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ روس، ملائیشیا اور گلف کے ملکوں سے تعلقات میں ہم آہنگی کا نیا باب کُھلا ہے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر دہشت گردی، اسلامو فوبیا، جیسے موضوعات پر پاکستانی وزیر اعظم کو توجہ سے سنا جا رہا ہے۔
پچھلے 18 ماہ میں ماحولیات (Re-Forestation)، سیاحت اور انویسٹمنٹ فرینڈلی پالیسیوں کے حوالے سے پاکستان کو عالمی لیڈروں میں شمار کیا گیا۔ ٹریولنگ اور سیاحت کے عالمی اداروں کی جانب سے پاکستان ریٹنگ کے ٹاپ پر پہنچ گیا۔ ایسی اَپروول پاکستان کے حصے میں پہلے کبھی نہیں آئی تھی۔ پاکستان کے بارے میں عالمی رویے تبدیل کرنے میں ہمارے عسکری اور لاء انفورسمنٹ کے اداروں کی قربانیوں کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔
دنیا کی بدلی ہوئی سوچ کی ایک وجہ دہشت گردی کے خلاف پاکستانی قوم کا مورال بھی ہے۔ اس لیے دنیا کی تمام فارن سٹیٹس پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کا منترہ ترک کر چکی ہیں۔ پچھلے چند عشروں میں عالمی سطح پر وطنِ عزیز کو ایسا سازگار ماحول پہلی بار میسر آیا ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ عمران خان کے 18 مہینوں میں دور دیس کے ملکوں سے 8500 پاکستانی قیدی غیر مشروط طور پر رہا ہو کر گھر پہنچ چکے ہیں۔ یہ تو ہیں ہماری فارن ریلیشن شپ کوششوں کے چند اشارے۔ اسی تسلسل میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان کے لیے مثبت آوازوں کا سیزن آج کل عروج پہ ہے۔
اس کے برعکس اندرونِ ملک المیہ ہے، منصوبہ یا طاقت ور مافیا کا کرشمہ۔ لوگوں کو اپنی ہی ریاست سے بد دل کرنے کے لیے 24/7 Bad نیوز کی مسلسل ڈوز دی جا رہی ہے‘ جس کی تازہ مثال شوگر اور گندم مافیا پر چھاپوں سے سامنے آئی۔ اس حوالے سے وزیر اعظم کی توجہ نے دونوں بڑے مافیاز کی چیخیں نکلوا دیں۔ بیوروکریسی کے ایک اور اہم ادارے میں اصفر خان نامی ایک نیک نام افسر نے بہادری کی نئی داستان رقم کی۔ یہ داستان جنوبی پنجاب سے کوئٹہ تک بڑھتی چلی گئی۔ کوئٹہ چمن روڈ کا گندم سکینڈل بے نقاب ہوا۔ تاریخ کی اس بڑی بلیک میلنگ کے باوجود بہت بڑے کرداروں کے کرتوت ایکسپوز ہو گئے۔
ابتدائی رپورٹ کے بعد اب معاملہ لیگل ایکشن کے لیے ایف آئی اے کے ہاتھوں میں پہنچ چکا ہے۔ عمران خان نے جس طرح مافیا کرداروں کو توڑ ڈالا‘ ویسا کہنا آسان ہے‘ لیکن کر گزرنا چیتے کا جگر مانگتا ہے۔ چینی نے جو چیخیں نکلوائیں اس نے ریاست کے فوڈ سکیورٹی سسٹم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا؛ چنانچہ عمران خان نے بڑے ایکشن کا فیصلہ کیا۔ شوگر مافیا کے خلاف اس ایکشن کی مانیٹرنگ کے لیے ایسی ٹیم بنائی گئی جو اس سے پہلے کبھی نہ بنی تھی کیونکہ گزرے زمانوں میں وزرا اتنے سادہ تھے کہ وہ جس کے سبب بیمار ہوئے‘ اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے رہے۔ ٹیم میں آئی ایس آئی، ایف آئی اے اور آئی بی شامل ہیں۔ سندھ کے ضلع کوٹری میں اعلیٰ پولیس والے اور صوبائی وزیر کی پارٹنرشپ میں آئل مِل کے گودام پر چھاپہ مارا گیا۔ سوشل میڈیا پہ کارروائی دیکھ لیں۔ ایک لاکھ بوری چینی ایک گودام سے نکلی۔
پسِ نوشت: بہادر کرسچن لڑکی آمُلیا لیونا کی خبر آ گئی‘ جس نے بھارت کے ایک بڑے عوامی جلسے میں سٹیج پر چڑھ کر مائیک پکڑا‘ ہزاروں ہندوستانیوں اور میڈیا کے سامنے بار بار پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ ابھی خبر ملی کہ اس کا گھر جلا دیا گیا ہے۔ گھر والوں نے اس سے لا تعلقی اختیار کر لی۔ مردانہ پولیس کے ہاتھون اُسے کسٹوڈیل ٹارچر (Custodial Torture) کا سامنا ہے۔ یہ ہے پاکستان کی سب سے طاقتور سفیر۔