"SBA" (space) message & send to 7575

آٹھواں آسماں مدینے میں …(2)

سعودی عرب کے پاس موجود قدیم ریلوے کی نشانیاں اب ثقافتی ورثہ بن چکی ہیں۔ عظیم الشان سلطنتِ عثمانیہ کے زمانے کی ایسی ہی ایک علامت مدینہ منورہ کا ریلوے سٹیشن ہے۔ ایکڑوں پر مشتمل کالے پتھروں سے تعمیر شدہ بائونڈری وال۔ اس کے اندر پرانا ریلوے کیرج اور پُر شکوہ عمارت، خلافتِ عثمانیہ ٹوٹنے پر نوحہ کناں ہیں۔ سال 2023 میں خلافتِ عثمانیہ اور خلیج کے کئی علاقوں کے مابین 100 سالہ معاہدے کا اختتام ہو جائے گا۔ آسانی کے لیے سمجھیں یہ ویسا ہی معاہدہ ہے جیسا کہ ہانگ کانگ پر چین اور برطانیہ کے درمیان صد سالہ معاہدہ ہوا تھا۔ 
حرمین فاسٹ ٹرین نے ہمیں محض دو گھنٹے 20 منٹ میں شہرِ مکہ سے مدینہ النبیؐ پہنچا دیا۔ یہ ٹرین مدینہ سے جدّہ کے درمیان 190-195Km فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑتی ہے جبکہ جدّہ کے شہر میں رفتار کم ہو کر 50-55 کلو میٹر رہ جاتی ہے‘ جس کے بعد بحیرہ احمر کے کنارے پہ کنگ عبداللہ سٹی آتا ہے۔ یہاں دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی قائم کی گئی ہے۔ شاہ عبداللہ سٹی شہر میں داخلے کے لیے ویزے کی طرز پر علیحدہ سے Apply کرنا پڑتا ہے۔ اجنبیوں اور مواطن دونوں کو۔ خصوصی داخلہ پرمٹ کے بغیر اس شہرِ بے مثال کے دَر، وا نہیں ہوتے۔ 
ہم سیدھے دربارِ رسالت میں پہنچے‘ ھدیہ درود و سلام پیش کیا۔ حاضری کی قبولیت کی مناجات کی۔ جلد دوبارہ حاضری کے لیے دربارِ رسالت میں عرضی پیش کی۔ جن دوستوں اور عزیزوں نے حاجات اور دعائیں پیش کرنے کی امانت تھمائی تھی وہ بھی آقائے دو جہاںﷺ کے قدمین مبارک میں ڈھیر کر دی۔ مجھے یہاں سے 1979 میں حاضری کی پہلی اجازت ملی تھی۔ تب سے اب تک ایک تجربہ تسلسل کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ یوں کہ احباب یا حاجت مندوں میں سے وہ لوگ جن سے سفرِ طیبہ سے پہلے ملاقات نہ ہو سکی یا پھر وہ جو کسی وجہ سے رابطہ نہ کر سکے‘ ایسے نام ''فلیش پوائنٹ‘‘ کی طرح دل و دماغ میں کوند جاتے ہیں۔ ایسے لمحے سوچتا ہوں‘ یہ کس قدر عالی بخت لوگ ہیں جن کا پیغام اور درود و سلام کسی کو کہے بغیر سیدھے مدینے جا پہنچتا ہے۔ پہلی حاضری سے 2020 تک کوشش اور تسلسل رہا کہ میں شام سیدالشہدا عم الرسول سیدنا حمزہؓ کی زیارت میں گزاروں۔ اس کے بعد جبل الجنّہ کوہِ اُحد پر چڑھ کر اکیلا بیٹھ جاتا ہوں۔
اس بار بھی مدینے والوں کی مسلسل مہربانی اور زورِ عطا سے ایسا ہی ہوا۔ ورنہ سوالی کیا اور اس کی اوقات کیسی؟ اُحد کی بستی میں پہلی رات حاضری کے بعد‘ پہاڑ کی دائیں (شرقی) جانب سے شروع کی۔ خالص مدنی نوجوان گائیڈ تھا۔ سب سے پہلے وہ اس چشمے پہ لے گیا جہاں دندانِ مبارک کی شہادت کے بعد رسولِ محترمؐ پہنچے۔ آپؐ نے جس جگہ دستارِ رسالت سمیت سر مبارک آرام کے لیے رکھا سخت پتھر کی اتنی جگہ اندر دھنس گئی۔ یہ زندہ معجزہ آج بھی موجود ہے۔ اس سے 7-8 فٹ اونچا دوسرا غار ہے۔ جہاں مشرکینِ مکّہ نے اطلاع ملنے پر یلغار کی اور منہ کی کھائی۔ تقریباً 100 فٹ آگے وہ مسجد ہے جہاں ضربت کے باوجود محسنِ انسانیت ؐ نے نماز ادا کی۔ اس سے پھر 150 فٹ آگے پہاڑی ہے جو ''پھسلن والی پہاڑی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ جیسے ماربل والے فرش پر تھوڑا سا پانی گر جائے تو پائوں جمنے نہیں دیتا۔ یہ تقریباً سیدھی پہاڑی ہے جس کے اوپر قدم جمانا تقریباً نا ممکن ہے۔ میں چند سال پہلے اسی پہاڑی سے گزر کر اس غار تک پہنچا تھا‘ جہاں غزوہ اُحد کا حتمی معرکہ اور مشرکیںِ مکّہ کی پسپائی کی تاریخ لکھی گئی۔ اس غار تک پہنچنے کا راستہ 3 جگہ پر مزید عمودی چڑھائی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ 
مدینے میں حاضری کا دوسرا دن شیخ عادل کے حوالے تھا۔ ان کا خاندان اشرافِ مدینہ میں سے ہے۔ نمازِ فجر کے بعد میدانِ بدر کے لیے روانگی ہوئی۔ عرب اس میدان کو ''موقعہ بدرالکبریٰ‘‘ کہتے ہیں۔ میں پہلی بار حاضری دینے جا رہا تھا۔ مدینے سے بدر تک راستے میں 3 پہاڑی سلسلے ہیں۔ کچھ سیاہ کالے پتھروں کے پہاڑ‘ جن پر شہابِ ثاقب کا گمان ہوتا ہے۔ دوسرے سرخ رو پیلاہٹ والے پتھریلے پہاڑ۔ تیسرے ریت کے پہاڑ۔ انہی میں سے ایک پہاڑی سلسلہ میدانِ بدر کے عین سامنے چلتا ہے۔ یہ سلسلۂ کوہ ''جبلِ ملائکہ‘‘ ہے۔ غزوہِ بدر میں مسلمانوں کی امداد کے لیے اللہ تعالیٰ کے حکم پر فرشتے اسی پہاڑ پر نازل ہوئے تھے۔ 
مدینہ منورہ سے موقع بدرالکبریٰ کا فاصلہ 110 کلومیٹر ہے۔ راستہ سُنسان اور بیابان سا۔ صرف 2 جگہ نخیل دیکھنے کو ملے۔ عربی میں Oasis کو نخیل کہتے ہیں‘ یعنی کھجوروں کے جھُنڈ میں میٹھے پانی کا ذخیرہ۔ ایک سوال شہرِ نبیؐ سے غزوۂ بدر کے دربارِ شہدا تک بار بار ذہن میں آتا رہا۔ غزوے کے میدان میں پہنچ کر مجھے سوال کا جواب ملا۔ اپنے انصار اور فدائین کی وادیٔ یثرب کو بچانے کے لیے دنیا کے عظیم ترین حربی ماہر کی ذاتِ با برکات نے میدانِ بدر کو اللہ کے حکم سے چُنا۔ رسول اللہؐ نے یہ سفر 8 یا 10 دن میں مختلف جگہ پڑائو کرکے طے کیا۔ اس جنگی سٹریٹیجی کی 2 وجوہ سمجھ میں آتی ہیں۔ پہلی یہ کہ راستے کے مقیم بدّو قبائل اسے عام سا سفر سمجھیں اور بے ضرر قافلہ‘ جس کے پاس محض چند گھوڑے اور گنتی کی تلواریں تھیں۔ پڑائو کرنے کا مقصد تھا کہ لوگ اسے عسکری رفتار سمجھ کر قافلہ کو لشکر نہ جان لیں۔
بدرالکبریٰ ایک بڑے مزرعہ زمین (Farmland) پہ لڑی گئی‘ جو اَب 3 حصوں میں تقسیم ہے۔ پہلا‘ جہاں اسلام کے اوَّلین لشکر نے نبی آخرالزمانؐ کے لیے خیمہ نصب کیا۔ مقامِ خیمۂ رسولؐ پر اب مسجدِ خیمہ ایستادہ ہے۔ تقریباً 200 فُٹ کے فاصلے پر کنواں ہے‘ جو اب بھی میٹھے پانی سے لبالب رہتا ہے۔ دوسرا کنواں اس سے 300 فُٹ آگے ہے جس میں واصلِ جہنم ہونے کے بعد عقبہ، شیبہ اور ابو جہل کی لاشیں پھینکی گئیں۔ شیخ عادل نے اس مزرعہ کی گھنی چھائوں میں بورِیا لگا کے مقامی ناشتہ کروایا۔
اگلے روز 3 جلیل القدر زیارتوں پر نصف شب جانے کا پروگرام بنا۔ مسجدِ قُبا سے مکّہ جانے والے راستے پر حضرتِ اُمّ سلمہؓ کا باغ اصل حالت میں آبادی کے درمیان موجود ہے۔ یہیں پہ نبی کریمؐ نے ہجرت کی پہلی رات حضرت اُمّ سلمہؓ کے گھر قیام فرمایا۔ گھر اصلی حالت میں محفوظ ہے‘ جس تک رسائی کے لیے اِلتجا کر آیا ہوں۔ تھوڑا سا آگے مسجدالفجر ہے۔ اُسی زمانے کے پتھر سے بنی ساڑھے 4 فٹ اونچی چار دیواری۔ چھوٹی سی محراب اور بغیر دروازے کی اینٹری۔
سامنے رجب کا چاند چمک رہا تھا۔ مجھے خاک پائے رسولؐ پر نوافل ادا کرنے کی سعادت ملی۔ اسی آبادی کے دوسرے سِرے پر من ثنیات الوداع کی گھاٹی ہے جہاں اب گھر بن چکے ہیں۔ من ثنیات الوداع کی وہ چوٹی آبادی کے وسط میں 3 طرف سے کھلی ہے۔ یہاں وادیٔ یثرب کی بچیوں نے رسولِ خداؐ کے لیے دف بجا کر استقبالی گیت گایا۔ اس روح پروَر مقام کو دیکھ کر کیفیت یوں ہو جاتی ہے:
زیادہ دیر تجھ کو دیکھنے سے
مری آنکھوں کی بینائی بڑھے گی
چشمِ بینا کے لیے ایک اور دل کُشا منظر
حرمِ نبوی کی غربی سائیڈ پر واقع ایک غار ہے جس میں آپؐ نے 3 دن قیام فرمایا تھا۔ ساتھ ہی صحابیٔ رسول کا گھر بھی ہے۔ جو مدینہ دیکھ سکا اسے نظروں میں سمایا۔ جو باقی رہ گیا اُسے دل میں سجا لیا‘ اس یقین کے ساتھ کہ سرکار پھر بلائیں گے۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں