"SBA" (space) message & send to 7575

ادھورا کالم

میں عمرے کے سفر پر تھا‘ جب صدر ہائوس کے سٹاف نے واپسی کا شیڈول پوچھا۔ جمعہ مبارک کو واپسی ہوئی۔ اگلے روز پیر مسعود چشتی کی صاحب زادی کی رخصتی میں پہنچنا تھا۔ چنانچہ صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات ہوئی‘ بلکہ خوب ملاقات ہوئی‘ جس میں نہ تو صدر ہائوس کی عمارت کے جلال کا کوئی کمال تھا‘ نہ ہی کسی صدارتی ضیافت وغیرہ کا۔
اپنی یادداشت کے پہلے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان اور عوامی جمہوریہ چین کے صدر چُو این لائی ہیں۔ تب عزیز دوست اور پڑوسی ملک چین کے صدر کے سواگت کے لیے بچوں کی استقبالیہ ٹیم میں شرکت کا اعزاز مجھے بھی ملا۔ بعد ازاں زمانۂ طالب علمی کی شوریدہ سری میں صدر ہائوس سے ٹاکرا ہی رہا۔ کبھی کسی صدر سے ملاقات نہ ہوئی۔ ہاں البتہ شہرِ اقتدار کے باسی کی حیثیت سے کسی نہ کسی تقریب میں تاکا جھانکی چلتی رہی۔ ایسے ہی قصرِ صدارت کے کسی مخالف شاعر نے اس محل نما بلڈنگ پر یوں ''تبرّا‘‘ کر رکھا ہے:
ہر ایک شخص‘ اُسی کی دہائی دیتا ہے
بڑا عجیب سا منظر‘ دکھائی دیتا ہے
محل کے سامنے‘ اک شور ہے قیامت کا
امیرِ شہر کو‘ اونچا سنائی دیتا ہے
پاکستان کے سربراہِ ریاست کے عہدے پر فائز رہنے والے کچھ صدور میں بڑا Contrast پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جنرل ضیاء اتنے آزاد صدر تھے کہ وہ GPO چوک صدر راولپنڈی میں بر سرِ عام بائیسکل پر چڑھ دوڑے تھے۔ سکیورٹی کے سارے نمبر دار صدر صاحب کو ''آ جا تے بہہ جا سائیکل تے‘‘ کہتے رہ گئے۔ جبکہ اسلام آباد میں امریکہ سمیت کئی مغربی سفارت خانے احتجاجی طالب علموں نے پھونک ڈالے۔ یہ 1979 کا سال تھا۔ اس دور کا پورا پس منظر جاننے کے لیے یارسلوو کی کتاب The Siege of Mecca پڑھنے کے قابل ہے۔ دوسری جانب صدر فضل الٰہی اس قدر پابندِ ڈسپلن نکلے‘ کہ یارانِ ظرافت نے صدر ہائوس کی دیوار پر ''صدر فضل الٰہی کو رِہا کرو‘‘ کے نعرے لکھ چھوڑے۔ صدارتی ملاقات کے روز مجھے کراچی کے 2 صدور‘ صدر آصف علی زرداری اور صدر ڈاکٹر عارف علوی میں بُعدالمشرِقین دیکھنے کو ملا۔ پہلے صدر کا ایوانِ صدر سکاٹ لینڈ کی ملکہ (Mary the Queen of Scotland) کا بند مورچہ ہوا کرتا تھا۔ اب سکیورٹی کی دیواریں اور تہہ در تہہ سٹاف کا لشکر بھی غائب ہے۔ پِنک روم کے باہر سبز رنگ کا نیا بورڈ آویزاں ملا‘ جس پر جناح روم کا نام لکھا ہوا بہت اچھا لگا۔ 
قوم کے اس بڑے ایوان میں ایک بہت مختلف شخص سے ملاقات ہوئی۔ جو قصرِ صدارت میں محض سجاوٹ کا عارضی آئٹم نہیں ہے۔ نہ گانا گانے کا شوقین صدر‘ نہ ہی چَنا چھولے بنانے کا رسیا سربراہِ مملکت۔ میرے ساتھ گفتگو میں عارف علوی کا پہلا موضوع تھا کرونا وائرس کے کنٹرول میں اسلامی طریقۂ عبادات کی طہارت کا کردار۔ صدر بتانے لگے کہ انہوں نے صفائی ستھرائی مہم شروع کی ہے۔ ساتھ کہا‘ جس مذہب کے ہم ماننے والے ہیں وہاں آدھے ایمان کی تکمیل صرف صفائی ستھرائی میں پوشیدہ ہے۔ دوسرا موضوع تھا وطنِ عزیز کے ماحولیاتی مسائل۔ ان مسائل کے حل کے لیے زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی ضرورت ہے۔ جبکہ تیسرا‘ واٹر اِز لائف‘ یعنی پانی زندگی ہے۔ جناب صدر نے کہا: پانی کو بچانا انسانی زندگی کو بچانے کے مترادف ہے۔ زندگی سب کو عزیز ہے تو پھر پانی کیوں نہ بچایا جائے۔ پاکستان کے اکثر نیوز چینلز پر بغیر تحقیق و تصدیق کے فیک نیوز کی بھرمار صدر کی اگلی ترجیح تھا۔ دکھی دل سے کہنے لگے: فیک نیوز نشر کرنے کا مقصد عوام تک سچ اور حقیقی خبر پہنچانا نہیں بلکہ سب سے پہلے خبر بریک کرنے کی دیوانہ وار دوڑ (Mad-Race) اس کا واحد سبب ہے۔ صدر بولے‘ قوم کے اکثر بنیادی مسائل کی نوعیت ایسی ہے جنہیں اجتماعی شعور حل کر سکتا ہے۔ میں نے کہا: جی ہاں! سماج کا بیدار ضمیر ہی معاشروں کو فلاحی ریاست میں بدلتا ہے۔
پاکستان کی نصف سے زائد آبادی عفت مآب خواتین ہیں‘ جن میں اکثریت ینگ مدرز کی ہے۔ ان نوجوان مائوں کو درپیش سب سے بڑا خطرہ بغیر وقفے اور منصوبہ بندی کے بچوں کی مسلسل پیدائش ہے‘ جس کی وجہ سے ماں اور بچہ‘ دونوں کی صحت پر تباہ کُن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ صدر نے سورۃ النساء میں عورتوں کو جائیداد اور وراثت کا حصہ دینے کا حق بیان کیا‘ مجھ سے قانونی روڈ میپ پوچھنے لگے۔ مردوں کی دنیا کے لیے صدر کا کنسَرن تھا کہ اللہ کے واضح احکامات کے باوجود مرد بے ایمانی کرتا ہے۔ خواتین کا آسمانی حق کھانے سے بھی نہیں ڈرتا۔ 
علوی صاحب‘ جنہیں میں اعوان ہونے کے ناتے سے ملک صاحب کہہ کہ بلاتا ہوں‘ نے صدر ہائوس میں 2 مارچ 2020 کو فکری نشست برپا کی‘ جہاں سارے ملک سے تمام مکاتبِ فکر اور علماء‘ وفاق المدارس‘ تنظیم المدارس سمیت سب نے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا۔ آئین کے آرٹیکل 50 کے مطابق صدر پارلیمنٹ کا حصہ ہے۔ پارلیمنٹ کے دوسرے 2 آئینی حصے سینیٹ اور قومی اسمبلی وہ فرض ادا کرنے سے قاصر رہے جو صدر علوی نے فکری نشست میں اعلامیے کے ذریعے اپنی جانب سے پورا کر ڈالا۔ 6 نکاتی اعلامیے کے اہم اشارئیے یوں ہیں۔
1) ہم انفرادی و اجتماعی طور پر طہارت و صفائی کا اہتمام کریں گے‘ گلی محلوں‘ قومی شاہراہوں اور بازاروں کو صاف رکھنے میں بھرپور حصہ ڈالیں گے۔ معاشرہ اور رہن سہن‘ اخلاق و طہارت کا مظہر ہوں۔
2) پودے اور جنگلات ماحول کی زینت‘ صحت کے لیے نہایت مفید ہیں‘ ان کی حفاظت اور ان میں اضافہ ہمارا قومی و مذہبی شعار ہے۔ ہم عامۃ الناس کی توجہ شجر کاری کی طرف مبذول کریں گے اور پانی کے ضیاع سے روکیں گے۔
3) دینی و دنیوی علوم‘ دونوں اہم ہیں۔ قرآنی آیات میں سائنس و ٹیکنالوجی کا احاطہ ہے۔ ہم اعادہ کرتے ہیں کہ نہ صرف اپنے بچوں کو حتی الوسع دونوں علوم سے بہرہ ور کریں گے‘ بلکہ عوام میں اس حوالے سے شعور و آگاہی بھی پیدا کریں گے۔ 
4) ماں‘ بچے کی صحت‘ صحت مند خاندان اور صحت مند معاشرے کی ضمانت ہے۔ مناسب احتیاطی و حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی اسلام میں اجازت ہے بلکہ مطلوب و ممدوح بھی۔ ہم جمعہ کے خطبات‘ انفرادی محافل میں لوگوں کو اس بارے میں اسلامی تعلیمات سے آگاہ کریں گے۔
5) کسی بھی ملک کی ترقی کا راز قوانین کی پاس داری میں مضمر ہے۔ اس عہد کی تجدید کرتے ہیں‘ کہ خود بھی قوانین کی پاس داری کریں گے اور عوام کو بھی اس کی ترغیب دیں گے۔ 
6) جھوٹی‘ من گھڑت‘ بغیر تحقیق خبریں پھیلانا شرعاً ممنوع ہے۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ عوام الناس کو جھوٹی‘ من گھڑت خبریں پھیلانے سے باز رہنے کی تلقیں کے ساتھ جدید ذرائع ابلاغ کے منفی استعمال کو روکنے میں متحرک کردار ادا کریں گے۔
یہ ایک ادھورا کالم ہے‘ یہاں تک پہنچا تھا کہ والدہ محترمہ کی جہانِ فانی سے رخصتی کا لمحہ آ گیا۔ صدر سمیت جن اَن گنت مہربانوں نے ذاتی طور پر‘ فون‘ ٹویٹر‘ فیس بک پیغام کے ذریعے تعزیت کی اُن کے لیے دل سے بے پناہ دعائیں نکل رہی ہیں۔ امّاں جی کے لیے کالم لکھنا فی الحال آسان کام نہیں لگتا۔ ہاں البتہ یہ لفظ موزوں ہو سکے:
وہ ایک سایہ تھا‘ سورج تھے جس کے آگے نگوں
وہ اِک دیوار تھی‘ سب جس کے دَر کُھلے رہتے
وہ بچپنا تھا‘ جوانی کہ یادِ عمرِ عزیز
بہت سے داغ‘ مگر بخت تھے دھلے رہتے 
وہ رخصتی کا سَفر‘ ماں! کِتنا سادہ تھا 
اے کاش چند برس اور ملے جُلے رہتے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں