یہ ایک روٹین کی کال تھی۔ ریاستی پروٹوکول کی دنیا میں سربراہ حکومت‘ ہیڈ آف سٹیٹ وغیرہ سے ملاقات کو کال کہا جاتا ہے‘ مگر سیاسی درجہ حرارت کے اعتبار سے یہ شہرِ اقتدار کے گرم ترین دنوں میں سے ایک تھا۔ اس روز پہلے پہر میں 'امپورٹڈ‘ موشن آف نو کانفیڈنس کی دوسری قسط کی رونمائی ہوئی‘ جس کے ذریعے صبح 9 بج کر 55 منٹ پر سپیکر اسد قیصر کے خلاف عدم اعتماد کی موشن چلوائی گئی۔ سویرے سویرے اُن کا فون آیا کہ سپیکر ہائوس آ جائیں ضروری بات کرنی ہے۔ اسلام آباد کے انتہائی متحرک اور تیز رفتار ینگ جرنلسٹ پہلے ہی مجھے اس تحریک عدم اعتماد کی دائری اسمبلی سیکرٹریٹ میں وصولی کی تاریخ اور وقت سمیت واٹس ایپ کر چکے تھے۔ سپیکر ہائوس کی گفتگو کے بعد میں پارلیمنٹ کے اندر واقع منسٹر چیمبر پہنچا۔
اس مرحلے پر بہتر ہو گا کہ پہلے آپ سپیکر کا حلف دیکھ لیں‘ کیونکہ آئین کے آرٹیکل 53 ذیلی آرٹیکل دو کے مطابق سپیکر یا ڈپٹی سپیکر آئینی حلف لیے بغیر ''enter upon office‘‘ نہیں کر سکتا۔ یہی حلف پارلیمنٹ کے ممبر بھی اُٹھاتے ہیں۔ دوسرے تمام ریاستی اور حکومتی بڑے بھی۔ اس حلف پر کون کتنا عمل کرتا ہے‘ یہ فیصلہ نیچے دیئے گئے حلف کو پڑھ کر آپ خود کر لیجئے گا۔
'' میں... صدقِ دل سے حلف اٹھاتا ہوں کہ میں خلوصِ نیت سے پاکستان کا حامی و وفادار رہوں گا:
کہ‘ پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکر (یا سینیٹ کے چیئرمین) کی حیثیت سے اور جب کبھی مجھے بحیثیت صدر پاکستان کام کرنے کے لیے کہا جائے گا‘ میں اپنے فرائض و کارہائے منصبی‘ ایمانداری‘ اپنی انتہائی صلاحیت اور وفاداری کے ساتھ‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور اور قانون کے مطابق‘ اور قومی اسمبلی کے سپیکر کی حیثیت سے اسمبلی کے قواعد کے مطابق (یا سینیٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے سینیٹ کے قواعد کے مطابق) اور ہمیشہ پاکستان کی خود مختاری‘ سالمیت‘ استحکام‘ یکجہتی اور خوش حالی کی خاطر انجام دوں گا:
کہ میں اسلامی نظریہ کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں رہوں گا جو قیام پاکستان کی بنیاد ہے:
کہ میں اپنے ذاتی مفاد کو اپنے سرکاری کام یا اپنے سرکاری فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہونے دوں گا:
کہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو برقرار رکھوں گا اور اس کا تحفظ اور دفاع کروں گا:
اور یہ کہ میں ہر حالت میں‘ ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ‘ بلا خوف و رعایت اور بلا رغبت و عناد‘ قانون کے مطابق انصاف کروں گا۔
] اللہ تعالیٰ میری مد داور رہنمائی فرمائے (آمین)۔[‘‘
میرے اسمبلی چیمبر میں میٹنگ ہوئی‘ جس کے بعد ہم سیدھے فلور آف دی ہائوس میں چلے گئے جہاں ایک point of order پر قاسم سوری نے سرزمینِ وطن کی خودمختاری کے لیے اُٹھائے گئے آئینی حلف کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے قبیلے کے سرخیل شیر شاہ سوری کی تاریخِ وفا دہرا دکھائی۔ یہ تین اپریل 2022ء اتوار کا دن تھا‘ جس کے دوسرے پہر سپریم کورٹ آف پاکستان کے از خود نوٹس لیے جانے کی اطلاع آئی۔ میں اُس وقت وکالتی یونیفارم (جسے robes کہا جاتا ہے) میں نہیں بلکہ قومی لباس میں تھا‘ لیکن عمران خان کی ہدایت پر وزارتی ٹیم کے ہمراہ شاہراہِ دستور پر ایستادہ ملک کی آخری عدالت کی پرنسپل سیٹ پہنچ گیا۔ تھوڑی دیر بعد آئین کے آرٹیکل 63A کی تشریح کے ذریعے ضمیر فروشی اور ہارس ٹریڈنگ پر وزارتی ریفرنس کی سماعت کرنے والا بینچ آیا۔ یہ عدالتِ عظمیٰ کا کورٹ روم نمبر1 تھا۔
آئیے ذرا گھڑی کو پیچھے کی طرف موڑ کر پاکستانی آئین کی گردشِ ایام کو حالیہ بحران میں ری وائنڈ کرتے ہیں۔ پاکستان میں regime change کی پہلی سازش 16 اکتوبر 1951ء کو مکمل ہوئی جب کمپنی باغ راولپنڈی کے جلسہ عام میں امپورٹڈ قاتلوں نے مقامی سہولت کاروں اور قومی غداروں کی مدد سے قائد اعظم کے جانشین لیاقت علی خان کو شہید کر دیا۔ (ریفرنس کے لیے ملاحظہ فرمائیں اسی صفحے پر 23 جون 2017ء کے روز چھپنے والا وکالت نامہ جس کا عنوان ہے ''شہیدِ ملت سے شہیدِ کرپشن تک‘‘)۔
خون آشام تاریخ کی طرف پھر آئیں گے۔ پہلے چلئے 2021ء اکتوبر کے مہینے میں‘ جب ایک غیر ملکی سفارتی مشن کے گیٹ ایک ہی دن لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد میں کھلے۔ ان سفارت خانوں کا مقامی عملہ تینوں کرداروں سے واقف نہیں تھا‘ اس لیے کہ یہ کوئی سیاسی رہنما‘ کرکٹ کے سپر سٹار یا فلمی ستارے نہیں بلکہ نجومی تھے۔ تینوں کو ایک ہی سکرپٹ پکڑایا گیا‘ جس میں لکھا تھا کہ اگلے سال کے پہلے تین ماہ میں عمران حکومت ووٹ آف نو کانفیڈنس کے ذریعے رخصت ہو جائے گی۔ اس کے لیے ان تینوں نجومیوں کو تین طے شدہ اینکرز کے حوالے کیا گیا۔ ان کے شوز سوشل میڈیا آرکائیو پر آج بھی موجود ہیں اور دیکھے جا سکتے ہیں۔ جب یہ شو آن ایئر ہوئے تو ایک متعلقہ اہم سویلین ادارے نے اس موومنٹ کو فالو کرنے کا فیصلہ کیا۔
اکتوبر کے آخر اور نومبر کے شروع میں ان تینوں فارن مشنز میں ملاقاتیوں کا آنا جانا سٹارٹ ہوا۔ آپ اسے رجیم چینج کے ٹارگٹڈ آپریشن کا دوسرا سرجیکل مرحلہ کہہ لیں۔ ان ملاقاتیوں کو کوَر دینے کے لیے پرو انڈیا اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ اینکرز کا جان بوجھ کر انتخاب کیا گیا۔ ساتھ ہی بعد میں وفاداریاں بدلنے والے وفاقی پارلیمنٹ کے ایم این اے اور پنجاب اسمبلی کے ایم پی ایز کو ان مشنز سے علیحدہ علیحدہ دعوت پر بلایا جانے لگا۔ حکومت کے اتحادی پارٹنر اور کے پی اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے موشن آف نو کانفیڈنس کے ووٹرز کے لیے بھی ان تینوں شہروں کی اونچی دیواروں کے پیچھے خورونوش‘ چمک اور دیگر مراعات اور دربار تک مستقل رسائی اور سرپرستی کے دلفریب وعدے ہونے لگے۔
دلفریبی کا تذکرہ آ ہی گیا ہے تو یہ بھی جان لیجئے کہ اسلام آباد کے D-Zone میں W-W کی اصطلاح اس طرح کے مہمانوں کے حوالے سے بہت مشہور ہے‘ جس کا مطلب ورلڈ ریسلنگ ہرگز نہیں بلکہ ایک W شتاَب آور اور دوسرا W عُناب آور ہوتا ہے۔ نظم کی تشریح نثر میں تو ہوتی رہتی ہے مگر یہ والی W-W نثر کی تشریح نظم میں زیادہ موثر ہو گی۔
کل رات مے کدے میں عجب حادثہ ہوا
زاہد شراب پی گیا میرے حساب میں
عمران خان کی حکومت کے خلاف نو کانفیڈنس موشن کے لیے ایسے ارکان اسمبلی کو اسلام آباد مشن میں بلایا گیا جو عدم اعتماد کے پلان کی تفصیلات سن کر سیدھے پارٹی قیادت کے پاس دوڑے آئے۔ غیر ملکی مشن کی ملکی خود مختاری کے خلاف دعوت اور ''Carrot and Stick‘‘ کی ساری تفصیل کھول کر سامنے رکھ دی۔ یہ تھے کے پی کے سینئر منسٹر عاطف خان اور لیڈی ایم این اے شاندانہ گلزار۔
رجیم چینج کی سازش چہروں سمیت بے نقاب سامنے آ چکی تھی۔ اِس لیے ایک چھوٹی میٹنگ میں ملک کی خود مختاری کے دفاع کا فیصلہ ہوا۔ آپشن دو تھے‘ Witness to Surrender بنیں یا Absolutely Not کہیں! (جاری)