New York Times کی 6جون 2021ء کو شائع ہونے والی جس رپورٹ کا حوالہ چل رہا ہے اُسے پاکستانی انگریزی اخبار ڈان نے دو دن بعد‘ اپنی 8جون کی اشاعت میں نیو یارک سے انور اقبال کی رپورٹ کی شکل میں لوکل ہیڈ لائن لگا کر شائع کیا۔ The New York Times کی رپورٹ کا ٹائٹل تھا: "C.I.A Scrambles for new approach in Afghanistan" جس کے انٹرو میں کہا گیا تھا کہ امریکہ نے جس طرح سے اپنے ٹروپس کو افغانستان کی جنگ میں سے Rapid Withdrawal کے ذریعے نکالا تھا اس کے نتیجے میں اب امریکہ ان راستوں کی تلاش میں ہے جن کے ذریعے وہ پھر سے افغانستان کے اندر اپنے تین اہداف پورے کرنے میں کامیابی حاصل کر سکے۔
پہلا امریکی ہدف: Intelligence gathering کا بتایا گیا۔ آپ کو یاد ہوگا 2009-10ء میں پاکستان کے طول و عرض میں blackwater کی بڑی تعداد میں موجودگی کے چرچے سامنے آئے۔ اُس وقت کی جو investigative reports ہمارے اپنے پریس رپورٹرز کے ذریعے بنائی گئیں اُن میں بتایا گیا تھاکہ ڈپلومیسی کے حقانی نیٹ ورک نے وزارتِ داخلہ سے مل کر پاکستان کی امیگریشن نیٹ ورک کو ڈاج اور بائی پاس کردیا۔ اس عرصے میںکون کس لبادے میں پاکستان آیا اور یہاں کیا کچھ وارداتیں کرتا چلا گیا‘ یہ لمبے وقت تک ٹاپ سیکرٹ ہی رہا۔ پھر قدرت کو اسلامی جمہوریہ پر رحم آ گیا اور ریمنڈ ڈیوس کی وارداتی وڈیو سامنے آئی۔ انٹیلی جنس اکٹھی کرنے کے نام پر ریمنڈ ڈیوس اور اس جیسے ہزاروں دوسرے ایجنٹس نے جس قدر کھلواڑ کیا اُس کی تفصیل بعد میں‘ لیکن اگر آپ ریمنڈ ڈیوس کا تفصیلی اعترافی بیان پڑھنا چاہیں تو پاکستان کے بارے میں اُس کی خود نوشت ''The Contractor‘‘ پر ایک نظر ڈال لیں۔ اسی تسلسل میں اب ایک بار پھر intelligence gathering کے لیے پاکستان کی سرزمین کے انتخاب کا مطلب کیا بنتا ہے؟ اور اُس کے پیچھے کس ایجنڈے کا ٹھیکہ نئے کنٹریکٹرز کو دیا جا رہا ہے‘ کون نہیں جانتا۔ ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ ہر فارن کنٹریکٹر کو غیرملکی زمین پر اپنے کنٹریکٹ کو پورا کرنے کے لیے مقامی طور پر petty کنٹریکٹرز کی ہائرنگ کرنا پڑتی ہے۔ اس گلوبل پریکٹس کی وجہ سے امریکہ نے پہلے بھی وطنِ عزیز کے اندر سے لوکل petty کنٹریکٹرز ڈھونڈے تھے‘ اب بھی ایسا ہی ہوگا۔
دوسرا امریکی ہدف: War fighting کا بتایا گیا ہے۔ ایک لاکھ پاکستانیوں کے آگ اور خون میں لتھڑے ہوئے شہید لاشے۔ اے پی ایس پشاور کے معصوم‘ نوخیز بچوں کا پاک لہو۔ جوان سولجر سے جرنیل تک‘ فُٹ کانسٹیبل سے پولیس چیف تک‘ خاصہ دار سے رینجرز تک‘ ججوں سے وکیلوں تک‘ مسجدوں سے کچہریوں تک‘ امام بارگاہوں سے مدرسوں تک۔ داتا دربار سے درگاہِ شہباز قلندر تک‘ سکول‘ سڑک‘ مارکیٹ‘ ہمارے لیے پراکسی وار لڑنے کے زندہ سبق ہر طرف‘ ہر صوبے‘ ہر شہر اور ہر جگہ موجود ہیں‘ جو محسوس کیے جا سکتے ہیں اور اداس مقبروں میں دیکھے بھی جا سکتے ہیں۔ یہ اداس مقبرے پاکستانی قوم کے لیے بڑے سوالیہ نشان بھی ہیں۔ شہرِ خموشاں خامشی کی زبان میں قوم کے ہر فرد سے پوچھ رہے ہیں‘ اُنہیں کس جرم کی پاداش میں مارا گیا۔ مارنے والا کون تھا اور اس قتلِ عام کا مقدمہ یا سوموٹو نوٹس کون لے گا‘ کون چلائے گا؟ یہی سوال اس وکالت نامے کا ٹائٹل ہے‘ اسے ذرا پھر سے پڑھ لیں۔ وار فائٹنگ ''Imported, Yet Again??‘‘۔
تیسرا امریکی ہدف: اس ہدف کے نام پر پاکستان کے طول وعرض کو آگ اور خون سے نہلا دیا گیا۔ ایک بار نہیں بلکہ دو مرتبہ پہلے بھی۔ ایک ہفتہ‘ ایک مہینہ یا ایک سال نہیں بلکہ 1979ء سے 2021ء تک۔ امریکہ کا یہ ہدف ہے‘ کائونٹر ٹیررازم آپریشنز۔ اس ہدف پر اُٹھنے والا بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا نیٹو کی امپورٹڈ جنگ لڑنے والے افغانستان میں کامیاب ہوئے؟ جدید دنیا کی سب سے مہنگی اور سب سے طویل جنگ کیا یو ایس الائنس جیت گیا؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ تو پھر کیا پاکستان اپنے آپ کو کائونٹر ٹیررازم کے نام پر اچھے بچے (Good Cop) کی طرح تیسری بار‘ ڈسے جانے کے لیے اپنی اُنگلی پھر اُسی سوراخ میں ڈال دے‘ جہاں سے اُس کی رگ و پے میں دو بار پہلے بھی زہرِ قاتل اُتارا گیا۔
اوپر بیان کردہ تین امریکی اہداف کو سامنے رکھا جائے تو موشن آف نو کانفیڈنس کی امپورٹڈ قرارداد کی شانِ نزول فوراً سمجھ میں آجاتی ہے۔ احمد فراز کے لفظوں میں بھی‘جو یہ ہیں:
سو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو
تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو
وگرنہ اب کے نشانہ کمانداروں کا
بس ایک تم ہو ‘ سو غیرت کو راہ میں رکھ دو!!
قومی غیرت‘ قوم کے ہر ایک فرد سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ ہر طرح کی عینک اتار دے۔ ملکی معاملات میں مداخلت کو کسی بھکاری کی عزت نہ سمجھیں‘ بلکہ اُسے وطن کی آبرو جان کر جتنی ہو سکے خودی اور خودداری دکھائیں۔ بکائو مال وقتی عنایات کے لالچ میں جب بھی برسرِ بازار ریٹ لگواتا ہے تو تاریخ اُسے میر جعفر اور میر صادق کے نام سے عبرت کا نشان بناتی ہے۔
اس امپورٹڈ سکرپٹ پر مبنی سازش کی ایگزیکٹو سائیڈ پر‘ عدم اعتماد کی امپورٹڈ موشن کے بطن سے بہت سے بچے پیدا ہورہے ہیں۔ سب سے مکروہ اور ماورائے آئین ووٹ فروشی اور ضمیر فروشی کا کھلا دھندا تھا جسے دیکھ کر سکوں کی جھنکار پر نیم شب بکنے والا بازار بھی شرمندہ ہوگیا۔ ایسا نہیں کہ سب خاموش رہے۔ حرص‘ ہوس‘ دھونس‘ دھن اور مکروفن کے اس برہنہ حمام کے عین بیچوں بیچ‘ صدرِ ریاست اکیلا کھڑا ہوا۔
آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت پاکستانی صدر کو حاصل Advisory Jurisdiction کا ریفرنس بنایا گیا‘ جس میں میری آئینی input بھی شامل تھی۔ ریفرنس ملک کی سب سے بڑی انصاف گاہ میں 21 مارچ 2022ء کو دائر کیا گیا۔ اس دوران پاکستان کی جوڈیشل اور پارلیمنٹری ہسٹری میں ایسے واقعات ہوئے جن کی مثال پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں اس سے پہلے کہیں موجود نہیں۔ ایک ایک کرکے یہ واقعات دیکھنے سے پہلے‘ ان واقعات کو سمجھنے سے پہلے کچھ واقعاتی شہادتوں (Circumstantial evidences) کو دیکھنا ضروری ہوگا۔ ان واقعات کا خلاصہ یا نتیجہ Paul Craig Roberts کے لفظوں میں دیکھ لیتے ہیں‘ جو امریکہ کے sub-cabinet office holder‘ حالیہ عشرے میں یو ایس فارن پالیسی کے سب سے بڑے opponent‘ معروف economist‘ author یونیورسٹی ٹیچر اور رائے عامہ کو متاثر کرنے والی بڑی آواز ہیں۔ Paul Craig Roberts کا یہ جملہ امریکہ سمیت ساری دنیا میں پھیل چکا ہے:
Washington purchased the corrupt Pakistan Parliament, but lost the Pakistan people.
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ یا Joseph Robinette Biden Jr. کی 50 مسلم ملکوں اور مڈل ایسٹ کی صہیونی ریاست اسرائیل کے بارے میں پالیسی ہرگز تبدیل نہیں ہوتی۔ اُن کے بارے میں امریکی اسٹیبلشمنٹ بشمول Pentagon اور سی آئی اے کے تحریری ثبوت یہ ہیں۔ (جاری)