"SBA" (space) message & send to 7575

Imported, Yet Again...(6)

پاکستان کا مطلب کیا؟ تیرا میرا رشتہ کیا؟ لا الہٰ الا اللہ!
27 رمضان المبارک (بمطابق 14اگست) عیسوی سال 1947 کے روز دنیا کے نقشے پر اسی نعرے کی تکمیل کے لیے ریاستِ پاکستان معرضِ ظہور میں آئی۔ 12اپریل 1973ء کے دن ملک میں لاگو ہونے والے آئینِ پاکستان کا preamble بھی یہی کہتا ہے‘ ریاست کے راہ نما اصول (Principles of Policy of the State) بھی اسی مقصد کا حصول چاہتے ہیں۔
اسی تناظر میں پاکستان کی تاریخ دیکھنے اور پڑھنے کے لیے ہمیں فاتحِ بیت المقدس غازی سلطان حضرت صلاح الدین ایوبیؒ (1138 تا 1193ء) کے تاریخی الفاظ پر نگاہ ڈالنا ہوگی۔ جنابِ ایوبی مسلم افواج کے بے حد بہادر اور کامیاب ترین کمانڈر اِن چیف تھے۔ کہتے ہیں: ''بیرونی حملہ آوروں سے زیادہ خطرناک اندرونی غدار ہوتے ہیں‘ لہٰذا پہلے ان سے نمٹنا چاہئے‘‘۔ سراج الدولہ‘ حضرتِ ٹیپو سلطان اور حضرت صلاح الدین ایوبی کے مابین سٹریٹیجی کا یہی فرق تھا‘ جس کی وجہ سے مغربی حملہ آوروں‘ استعمار اور کروسیڈرز کے آٹھ عالمی حملوں میں بیرونی حملہ آوروں کو ایوبی کے ہاتھوں مسلسل شکست ہوتی رہی حالانکہ تمام صلیبی حملہ آوروں کی پیٹھ پر مذہبی جنون اور مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت محرک (motivation) کے طور پہ کھڑے تھے۔
اپنے ہاں تقسیمِ ہند کے محض تین سال چھ مہینے 22 دن بعد‘ 9 مارچ 1951ء کے دن پاکستان کی تاریخ کی پہلی سازش منظرعام پر آئی۔ اُس وقت پاکستان کا دارالخلافہ شہرِ کراچی تھا‘ اسلام آباد شہر تھا ہی نہیں۔ آج کے زیرو پوائنٹ سے سیکٹر F8 سے فیصل مسجد کی طرف جو شاہراہ جاتی ہے‘ اُس جگہ پرانا گائوں بسا ہوا تھا‘ جس کا نام تھا ''گیدڑ کوٹھہ‘‘۔ اسلام آباد میں دارالخلافہ بننے کے بہت بعد سازش کا ایک اور کیس سامنے آیا‘ جسے کہا گیا: Midnight Jackals یعنی نیم شب کے شغال۔ اس 1951ء والے مقدمے کو پنڈی سازش کیس کا نام دیا گیا‘ جس کے تین بنیادی اسباب سامنے آئے۔
پنڈی سازش کیس کی پہلی بڑی وجہ: اُس وقت کی عساکر کی قیادت کو اس بات کا کھٹکا تھا کہ فرنگی راج والے برٹش آرمی آفیسرز کی کافی تعداد میں پاکستان کی عساکر میں موجود ہے۔ ان جرنیلوں کے خیال میں یہ پاکستان کے لیے Security threat تھا۔
پنڈی سازش کیس کی دوسری بڑی وجہ سال 1947-1948ء میں آزادیٔ کشمیر کی لڑائی کی ہینڈلنگ بنی۔ اس حوالے سے پنڈی سازش کیس کی ایک فائنڈنگ کارگل کی جنگ میں نواز شریف کی وار ہینڈلنگ سے بہت ملتی جلتی ہے۔ اسے ملاحظہ فرمائیں: "Most Immediate cause was their discontent with Liaquat regime's handling of the Kashmir war with India. Army officers thought the goverment's acceptance of UN mediation and ceasefire as a 'Tame Surrender' and 'flouting an opportunity to capture whole of Kashmir'."
پنڈی سازش کیس کی تیسری بڑی وجہ: میجر جنرل اکبر خان‘ جنہیں اس سازش کا مرکزی کردار قرار دیا گیا‘ کے خیالات ترقی پسندانہ تھے اور فیض احمد فیض‘ سید سجاد ظہیر وغیرہ جیسے انقلابیوں سے اُن کا رابطہ بھی تھا؛ چنانچہ کشمیر کی پہلی جنگ لیڈ کرنے والے جنرل طارق سمیت 15ممتاز سویلین اور اعلیٰ فوجیوں کا ٹرائل ہوا‘ جس کے لیے خصوصی طور پر Rawalpindi Conspiracy (Special Tribunal) Act پاس کیا گیا۔ انڈر ٹرائل ملزموں کی فہرست میں میجر جنرل اکبر خان‘ ایئر کموڈور ایم کے جنجوعہ‘ میجر جنرل نذیر احمد‘ بریگیڈیئر صادق خان‘ بریگیڈیئر ایم اے لطیف‘ لیفٹیننٹ کرنل ضیاالدین‘ لیفٹیننٹ کرنل نیاز محمد ارباب‘ کیپٹن خضر حیات‘ میجر حسن خان‘ میجر اسحاق محمد‘ کیپٹن ظفراللہ پوشنی‘ مسز نسیم شاہنواز خان‘ فیض احمد فیض‘ سید سجاد ظہیر اور محمد حسین عطا شامل تھے۔ بڑے ملزموں کے وکیل مسلم بنگال سے آئے‘ جو کوئی اور نہیں‘ حسین شہید سہروردی ایڈووکیٹ تھے۔ اسے تقدیر کا کھیل کہیے کہ سال 1957میں حسین شہید سہروردی پرائم منسٹر آف پاکستان بن گئے جس کے نتیجے میں اس کیس میں پکڑے جانے والوں کو لمبی قید سے reprieve اور رہائی مل گئی۔
15 لوگوں کی اس فہرست کے ایک کردار کے حوالے سے میری اپنی جیل یاترا کی کچھ یادیں ہیں‘ جن کا تعلق پنڈی جیل اور میرے کالج کے زمانے سے ہے۔ سال 1975 میں Federal Government College for Boys کی سٹوڈنٹس یونین کا منتخب صدر میں تھا۔ 1974-1975ء طلبہ تحریک زوروں پہ تھی۔ اس دوران Gordon College سٹوڈنٹس یونین کے صدر ناظم الدین ناظم‘ سابق صدر شیخ رشید احمد اور سی بی کالج کے صدر ملک فیاض سمیت پنڈی‘ اسلام آباد کے جڑواں شہروں کی ساری طلبا قیادت کو Defence of Pakistan Rules (D.P.R) کے تحت گرفتار کر کے پنڈی جیل میں بند کر دیا گیا۔ جیل کے مشرقی حصے میں سبزیوں کا باغ تھا‘ جہاں لمبی قید کاٹنے والوں سے مشقت کروائی جاتی۔ ذرا آگے پھانسی گھاٹ (Gallows) کا علاقہ تھا۔ اسی جگہ ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو کو ''مرڈر آف ٹرائل‘‘ کے ذریعے قتل کے الزام میں جوڈیشل کِلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ اس انتہائی متنازع فیصلے کو آج بھی نہ کوئی عدالت مانتی ہے نہ وکالت۔
پھانسی گھاٹ سے جڑی بیرک سزائے موت کے قیدیوں کے لیے مخصوص تھی جسے Death Cell کہا جاتا تھا۔ اس بیرک کے سیل نمبر پانچ میں مجھ اکیلے کو بند کیا گیا‘ جس میں روشنی نہ ہونے کے برابر تھی۔ دہی کے کونڈے سے ذرا چھوٹا برتن ہر طرح کی رفعِ حاجت کے لیے ایک کونے میں رکھا تھا‘ جسے 24 گھنٹے بعد اُٹھایا جاتا۔ صبح کی چائے اور دن بھر کا پانی پینے کے لیے بڑے سائز کا آہنی مگّا دیا گیا‘ جسے جیل کی زبان میں ''ڈُلّو‘‘ کہتے ہیں۔ Death Cell کے قیدیوں کی شلواروں میں سے ازار بند نکال دیے جاتے ہیں‘ جس کی وجہ سے قیدی کو کمر بند کے بغیر شلوار لنگوٹ کی طرح کَس کر باندھنا پڑتی ہے۔ نتیجے میں شلوار عملی طور پر برمودا بن جاتی ہے‘شلوار نہیں رہتی۔
تب میں اسلام آباد کے اولین سیکٹرG-6 کا رہائشی تھا‘ جو آج کے اسلام آباد ہوٹل اور آبپارہ تھانے کے عین سامنے سات گلیوں کے پرائیویٹ گھروں اور سرکاری کوارٹروں پر مشتمل ہوتا تھا۔ مجھے رات کے راہی گھر سے اُٹھا کر پھانسی گھاٹ تک لائے۔ اگلی صبح اُٹھا تو فیض احمد فیض کے کافی اشعار سرخ رنگ سے ڈیتھ سیل کی دیواروں پہ لکھے پڑھنے کو ملے جن کے نیچے دو نام‘ ایک بنگش اور دوسرا میجر اسحاق کا تھا‘ ساتھ لفظ کامریڈ اور مزدور کسان پارٹی کا نام بھی لکھا ہوا ملا۔ ڈیتھ سیل میں رنگ روغن یا کوئلہ سرے سے موجود نہیں ہوتا۔ میں نے قیدِ تنہائی کے اُن مہینوں میں کافی دن غور کیا تو سمجھ آیا یہ تحریریں بنگش اور میجر اسحاق نے اپنا خون نکال کر اُنگلیوں سے لکھی تھیں۔ یہ دو انقلابیوں کا اپنے لہو سے لکھا ہوا تاریخ کا سرخ باب تھا‘ جسے آپ شعری نعرے کہہ سکتے ہیں‘ اور انقلابی ایجنڈا بھی۔ بقولِ فیض ؎
متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خُونِ دل میں ڈبو لی ہیں اُنگلیاں میں نے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں