"SBA" (space) message & send to 7575

Imported, Yet Again...(9)

سازش اور مداخلت کی پاکستانی تاریخ میں 2 عدد جوڈیشل فیصلے بڑے دلچسپ ہیں۔ اِن عدالتی فیصلوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مباحث یا تو مزاحیہ حد تک ظالمانہ ہیں یا ظالمانہ حد تک مضحکہ خیز۔ اِن میں سے پہلا فیصلہ پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان کا ہے۔ تفصیلات کے لیے PLD 1979، سپریم کورٹ صفحہ نمبر53 ملاحظہ فرمالیں۔ بھٹو کیس میں مجرمانہ سازش کے الزام میں وزیر اعظم کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے موت کی سزا سنا کر پھانسی پر لٹکانے کے آرڈرز دیئے، جس کے نتیجے میں پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا یہ چراغ بجھا دیا گیا۔
دوسرا کیس پاکستان آرمی کے چیف آف سٹاف، جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا ہے۔ تفصیلات کیلئے ملاحظہ کیجئے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سپیشل کورٹ آف اسلام آباد کے تین ججز (پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ، سندھ ہائیکورٹ کے جج نذر اکبر اور لاہور ہائیکورٹ کے جج شاہد کریم) کا فیصلہ، جس میں 2 ججز نے 17دسمبر 2019 کو اکیلے ملزم کے خلاف سزائے موت کی سزا سنائی جبکہ سندھ ہائی کورٹ کے جج نذر اکبر صاحب نے اِس فیصلے پراپنا علیحدہ dissenting نوٹ لکھا۔ الزام یہ تھا کہ اُنہوں نے Legal Framework Order کے ذریعے جج ہٹا دیئے۔ لطف تھا یا کرم، عطا تھی یا ریا، اُس وقت کے وزیراعظم، وزیرِ قانون، اٹارنی جنرل، سولسٹر جنرل یا کسی اور جنرل جو مشرف صاحب کے ساتھ تھے، کو ہٹائے جانے والے ججز کے خلاف سازش کا نہ تو ملزم بنایا گیا اور نہ ہی جوڈیشری میں مداخلت کرنے کا۔ شاید اسی لیے لاہور ہائیکورٹ کے ایک three membered full bench، جس میں جسٹس محمد امیر بھٹی، جسٹس چودھری مسعود جہانگیر اور دلیرانہ فیصلے کرنے کیلئے مشہور جج جسٹس سید مظہر علی اکبر نقوی نے سزائے موت کے اِس فیصلے کو ماورائے آئین قرار دے کر 13جنوری 2020 کے دن مسترد کردیا۔
بھٹو کیس دَراصل رجیم چینج کے لیے کی جانے والی بیرونی سازش کے نتیجے میں چلایا گیا‘ جس کے بعد مذہبی سیاست کرنے والے 9 ٹِمٹماتے ہوئے ستارے ڈھونڈ کر پی این اے بنا دیا گیا۔ 1970 کے عشرے کا پی این اے نہ چل سکا تو اُس میں نفاذِ نظامِ مصطفی کا عمل انگیز ڈالا گیا۔ اِن 9 عدد ٹمٹماتے ستاروں میں باہم دست و گریباں ملا ‘ اور ایسے سیاسی فنکار جن کو اپنے ضلع کے لوگ بھی نہیں پہچانتے تھے‘ نجات دہندہ بنا کر امریکی کندھے پر سوار کرائے گئے۔ یہی تجربہ 1980 کے عشرے میں آئی جے آئی المعروف اسلامی جمہوری اتحاد بنوا کر اُسے اقتدار میں لانے کیلئے دہرایا گیا۔
جنرل مشرف صاحب (2000 کا عشرہ) کی Enlightened Moderation کے سیاسی جنازے کو کندھا، سپورٹ اور ووٹ دینے کے لیے متحدہ مجلسِ عمل والا حلوہ تیار ہوا‘ جس کا برانڈ name ایم ایم اے خوب اُٹھا۔ اِس دور میں پرائیویٹ ٹی وی چینل آچکے تھے۔ سوشل میڈیا alternate میڈیا کے طور پر میدان میں تھا اِس لیے کچھ گستاخ فقرے بازوں نے ایم ایم اے کو ''ملٹری مُلّا الائنس‘‘ کی ٹوپی پہنادی۔ ذرا غور سے دیکھیں تو پی این اے سے شروع کرکے آج کے پی ڈی ایم تک سارے کردار، نظریہ ضرورت کی ایک ہی فائونڈری میں پکائی جانے والی اینٹیں ہیں، اور کچھ نہیں۔ آدھی کچی اینٹیں‘ نصف استعمال ہو ہو کر پکّی اور کچھ جلے کٹے روڑے۔ بوقتِ ضرورت، نظریہ ضرورت کے تحت استعمال ہونے والے سیاسی کچرے کے اِس ڈھیر کا سِنگل پوائنٹ ایجنڈا امپورٹڈ چیری بلاسم کو فروغ دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں‘ جس کا لوکل ایندھن مقہور طفلانِ مکتب بچے اوربیروزگار سیاست کار ہیں۔
شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں کہ بلبلِ دربارِ مدحتِ رسول جناب مظفر وارثی ہمارے لیے انقلابی کلام کا ورثہ بھی چھوڑ کرگئے۔ مرحوم و مغفور وارثی صاحب کی ایک غزل کے دو شعر حسبِ حال ہیں:
پائوں ہوتے ہوئے، کب تک چلوں بیساکھیوں پر؟
کب تلک، دوسروں کا بویا ہُوا، میں کاٹوں؟
ہاتھ انصاف کے چوروں کا بھی، کیا میں کاٹوں؟
جرم قانون کرے، اور سزا میں کاٹوں؟
آئیے اب ذرا ملک کے گمبھیر ترین بحران کے بانی کا اعترافِ مداخلت دیکھیں۔ مداخلت، رومن زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معنی Roman to English ڈکشنری کے مطابق interference کے ہیں‘ جن میں سے 2 موثق معنی پیشِ خدمت ہیں:
پہلا: The act or state of interfering; as, the stoppage of a machine by the interference of some of its parts; a meddelsome interference in the business of others.۔ آسان الفاظ میں مداخلت کا عمل ایسے ہے جیسے ایک مشین کے کچھ اپنے ہی پُرزے گڑبڑ پیدا کرکے اُسے چلنے سے روک دیں۔ دوسروں کے امور میں بیجا ٹانگ اڑانا بھی اِس میں شامل ہے۔
یہ کوئی سپیس سائنس کا فامولا نہیں، جو ہم سب کی سمجھ میں نہ آسکے بلکہ یہ تو کامن سینس کی بہت عام سی بات ہے کہ جو کوئی بھی کسی کے معاملات میں ٹانگ اَڑائے یا پھر کسی چلتے ہوئے نظام کا اپنا ہی کوئی کَل پُرزہ اُس کو چلنے سے روک ڈالے تو اِس کے لیے چھوٹا یا بڑا ایک منصوبہ (feasibility plan) تو لازماًچاہئے ہوگا۔ ایسی مجرمانہ منصوبہ بندی یا سازش کے بغیر مداخلت آسمان سے برسنے والے اولے جیسی نہیں، جو اچانک گر کر کسی کا سر پھوڑ ڈالے۔
گہری نظر کی ضرورت نہیں، بات صاف ظاہر ہے۔ بیرونی سازش کے نتیجے میں اندرونی مداخلت کاری سے پورے سیاسی نظام میں سے صرف عمران خان کو کھینچ باہر نکالا گیا‘ جس کے لیے قومی اسمبلی کے 21 انصافیے ایم این اے کھلی بے انصافی کے ذریعے اقلیت کی جھولی میں ڈالے گئے۔ اِس سازش کی پہلی بینی فشری، قومی اسمبلی کی اقلیت والی پارٹی 84 سیٹر نون لیگ ہے جبکہ اسمبلی کی 154 سیٹیں رکھنے والی اکثریتی پارٹی تحریک انصاف کو حکومت سے نکال کر سڑکوں اور جلسوں کی جانب دھکیل دیا گیا۔ اِسی ماڈل کا ایکشن ری پلے اِمپورٹڈ ابّا کے بعد اِمپورٹڈ بچہ کے لیے ہوا۔ جہاں آئینی حکومت میں سے 26 لوٹے نکال کر غیرآئینی طریقے سے ایسا الیکشن ہوا‘ جِس کے ووٹر پنجاب اسمبلی کے فلور پر نہیں بلکہ پنجاب پولیس کی جھولی میں وزیٹر گیلری کے اندر الیکشن کرواتے نظر آئے۔ اتنا منصفانہ الیکشن،جو 8،9 گھنٹے صاف شفاف ٹی وی سکرینوں نے دنیا بھر کو دکھایا‘ جِس میں امپورٹڈ بچہ کے مقابلے میں چیف منسٹری کے امیدوار پرویز الٰہی کو بھی ووٹ ڈالنے کی اجازت نہ ملی۔
مداخلت کے دوسرے ڈکشنری معنی ہیں: a mutual influence under certain conditions. Neutralization or superposition of waves generally.۔
یہاں انگریزی کے 3 الفاظ ایسے وارد ہوئے ہیں، جو اِن دنوں پاکستان میں انتہائی متنازع ہیں۔ پہلا لفظ ہے نیوٹرل، دوسرا ہے سُوپر، تیسرا لفظ ہے پوزیشن۔ تینوں الفاظ میں نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں