تاریخی تناظر میں دیکھیں تو آپ اسے بھارت کی جانب سے ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف تیسری جنگ‘ جبکہ ساری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف فر سٹ ورلڈ وار بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کا تیسرا حوالہ اسلاموفوبیا ہے‘ جبکہ چوتھا محرک چمکتے مغرب کی شعلہ برساتی وہ کالی زبانیں ہیں‘ جنہیں مسلمانوں کی ساری محبتوں کے سب سے بڑے مرکز کے خلاف زبان درازی کرکے سیاست چمکانی ہوتی ہے۔ نسلی تعصب اور گوری چمڑی والی تفریق کی سیاست۔
حال ہی میں بی جے پی کی ایک سیاسی داسی کی جانب سے نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ کی شانِ اقدس میں ہرزہ سرائی کو اسی سلسلے کی تازہ کڑی کے طور پر دیکھنا ہوگا‘ جس کے خلاف ایسے مسلم ممالک بھی بول اٹھے ہیں جن کی معیشتیں مودی کے انڈیا سے جڑی ہوئی ہیں۔ جہاں لاکھوں ہندو پُرامن کاروبار اور بھاری تنخواہوں والی نوکریاں کررہے ہیں‘ سال ہا سال سے، مگر اُنہیں کسی طرح کی نفرت یا مذہبی تعصب و تفریق کا کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ابھی چند سال پہلے کی بات ہے‘ مڈل ایسٹ میں ہندوئوں سے مذہبی رواداری کا سلوک بعض مسلمانوں کی مردم آزاری تک جا پہنچا۔ گجرات کے مسلم کُش نریندرا کو کہیں ایوارڈ سے نوازا گیا اور کہیں پہ اعزاز ملے۔ خالص مسلم ریاستوں نے نئے صنم کدے تک بنا ڈالے مگر اکھنڈ بھارت نے جواباً اپنی مسلم اقلیت پر عرصۂ حیات اور تنگ کر چھوڑا۔
سال 2021میں آسٹریلیا کے معروف مصنف CJ Werleman کی تحقیق شائع ہوئی‘ جسے India's War on Muslimsکا نام دیا گیا۔ (حوالے کے لیے اسی صفحہ پر مورخہ 9/7/2021 اور12/7/2021کو شائع ہونے والا وکالت نامہ ملاحظہ کریں، بیرسٹر عبداللہ بابر کے قلم سے)۔
اس وقت انڈیا کے مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف نفرت کی تجارت زوروں پر ہے۔ نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ کی نسبتِ طاہرہ کے خلاف حکمران بھارتی جنتا پارٹی نے باقاعدہ ریاستی پالیسی وضح کررکھی ہے۔ جسے Instigating violence through divisive rhetoric against the country's Muslim minorityکہا گیا۔ اسی پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے 27مئی 2022کے دن توہینِ رسالت کی پہلی ملزمہ‘ بھارتیہ جنتا پارٹی کی آفیشل سپوکس پرسن Nupur Sharma نے بے شرمی کی ساری حدیں پھلانگ ڈالیں۔
بی جے پی کی بے شرمی کو شرمناک حد تک اینٹی مسلم بیانیہ بنانے کے لیے اس فسادی عورت نے ٹائمز نائو نامی ٹی وی چینل پر جن شعائرِ اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کی‘ اُن میں مذہبِ اسلام‘ قرآنِ حکیم‘ معراج النبی کے وقت حضور نبی کریم ﷺکی سواری براق‘ خاتم المرسلیں حضرت محمد مصطفیﷺ کی ذاتِ گرامی اور امہات المومنینؓ تک کی شان میں گستاخی شامل ہے۔ دنیا بھر کے اربوں مسلمانوں کی اس شدید ترین دل آزاری کے خلاف ALT نیوز کےCo founder محمد زبیر نے شدید احتجاج کی آواز اٹھائی۔
توہین کا دوسرا ملزم: چونکہ یہ توہین کا جرم کرنے والی بے شرم عورت بی جے پی کی سرکاری ترجمان تھی‘ اس لیے مسلم دل آزاری کی اس مہم میں بھارت کی مشہور جندال فیملی کا ایک فرد نوین جندال بھی اس دل آزار مہم میں کود پڑا۔ نوین جندال کی ٹویٹس نے ماورائے بھارت مسلمانوں کے جذبات کو شعلہ بار کرکے رکھ دیا۔ نوین جندال بی جے پی کا میڈیا منیجر رہا‘ بھارتیہ جنتا پارٹی کا پارلیمنٹیرین بھی اور اینٹی مسلم سرکردہ آوازوں میں سے ایک۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جندال فیملی پاکستان کے لوگوں میں کئی تنازعات کے حوالے سے جانا پہچانا نام ہے۔ اس وقت پانچ لیڈنگ عرب ممالک نے اس مسلم آزاری کے خلاف بھارت کے خلاف باقاعدہ احتجاج کیا ہے۔ جن میں سلطنتِ عمان‘ امیرِ قطر کی حکومت‘ مملکتِ کویت‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سرِفہرست ہیں۔
بی جے پی کی بے شرم لیڈر نوپور شرما 2017ء سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی آفیشل سپوکس پرسن چلی آرہی ہے۔ نوپور پیشے کے اعتبار سے وکیل ہے‘ جس نے 2015ء کے الیکشن میں دہلی کی سیٹ پر عام آدمی پارٹی (AAP) کے چیف منسٹیریل Candidateاروِند کیجریوال کے مقابلے میں الیکشن لڑا تھا‘ جس کا نتیجہ 31,000ووٹوں کی بھاری اکثریت سے شرمناک شکست کی صورت میں نکلا۔ بی جے پی میں شمولیت سے پہلے یہ عورت اکھل بھارتیہ ودھیارتی پریشد (اے بی وی پی) نامی متعصب ہندو پارٹی میں شامل رہی۔ بی جے پی جوائن کرنے کے بعد اسے پارٹی کے کئی اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا اور پچھلے تقریباً چھ سال کے عرصہ سے یہ بی جے پی کی آفیشل سپوکس پرسن چلی آرہی ہے۔
نوین جندال بی جے پی کے شعبہ میڈیا اینڈ سپوکس پرسنز کا سربراہ رہ چکا ہے۔ 2016ء میں نوین جندال بی جے پی دہلی کا سپوکس پرسن تھا۔ نوین جندال نے مسلمانوں کے خلاف نہ صرف دوڈاکیومنٹری فلمیں بنائی ہیں‘ بلکہ اسلامی مدارس کے خلاف اس کی کتاب متعصب بی جے پی کے حلقوں میں بڑی شہرت رکھتی ہے۔
بہارِ عرب کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ عرب دنیا میں بڑا ارتعاش پیدا ہوا‘ اور انڈیا کی مسلم کش پالیسیوں کے بارے میں کھل کر عوامی آرا سامنے آرہی ہیں۔ قطر کے متعلقہ منسٹر نے یہ بیان جاری کیا: "Systematic hate speech against Islam in India... will be considered insult by 2 billion Muslims." بھارتی سفارت کار Deepak Mittalکو قطری وزارتِ خارجہ نے ڈی مارش دے کر بھارت سے Public Apologyکا مطالبہ کیا۔ عین اُسی وقت بھارتی وائس پریزیڈنٹ ایم وی نائڈو قطر کے دورے پر تھا۔
مسلم ورلڈکے خلاف دل آزاری کی ورلڈ وار شروع کرنے والے بھارت کے 89لاکھ سے زیادہ شہری مسلم گلف میں مقیم ہیں۔ انڈیا کا 60فیصد Crude oilمڈل ایسٹ سے آتا ہے۔اکیلا متحدہ عرب امارات بھارت کا تیسرا سب سے بڑا ٹریڈ پارٹنر ہے۔ بھارت کی آدھی Foreign Remittances(یعنی 40ارب امریکی ڈالر)گلف کے مسلم ملکوں سے آتی ہیں۔ جن میں متحدہ عرب امارات‘ سعودی عرب‘ کویت‘ عمان‘ قطر‘ بحرین‘ اُردن‘ عراق اور لبنان سرِ فہرست ہیں۔ ملائشیا اور دیگر ایفرو ایشیا ممالک کے بھی یہی جذبات ہیں۔
مسلم اُمہ میں یہ وحدتِ افکار کی نئی لہر ہے۔ اپنے ہاں مگر مودی اور جندال فیملی کی دوستیوں کی گہرائی دیکھنے اور محسوس کرنے کے قابل ہے۔ ایسی ہی بھارت نواز دوستیوں پر حضرت علامہ قبال نے ضربِ کلیم لگائی:
ہے زندہ فقط وحدتِ افکار سے ملت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
وحدت کی حفاظت نہیں بے قوت بازو
آتی نہیں کچھ کام یہاں عقلِ خداداد
اے مردِ خدا! تجھ کو وہ قوت نہیں حاصل
جا بیٹھ کسی غار میں اللہ کو کر یاد
مسکینی و محکومی و نومیدی جاوید
جس کا یہ تصوف ہو وہ اسلام کر ایجاد
مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!